ڈینگی وائرس، سیلاب متاثرین اور حکومتی نااہلی

ہمارے ارض پاکستان کو اوراس میں رہنے والی عوام کو گذشتہ چونسٹھ سالوں سے یعنی معرض وجود میں آنے کے بعدسے آج تک بہت سی مشکلات اورخوفناک حالات وواقعات کا مقابلہ کرنا پڑرہا ہے ، اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ ہمارے دشمن ہمیشہ اپنے منصوبوں میں ناکام رہے ہیں مگر ہمارے اپنوں نے آستین کے سانپ بن کر ناقابل تلافی نقصان ایک حصہ جدا کر کے ضرور دیا ہے ۔جو یہ ظاہر کر تا ہے کہ ہم جن پر بھروسہ کرتے ہیں وہ کبھی قابل اعتبارنہیں ہوتے ،مگر مفادات کی خاطر انکے لئے سب کچھ قربان کر دیتے ہیں ۔جیسا کہ آجکل ہو رہاہے کہ عرصہ بعد جمہوری حکومت آئی ہے تو قابل افسران کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے ،محض سیاسی بیانات سے اپنی ووٹ بنک کو مضبوط بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔عوام کی حالت روز برو زکمزور ہوتی جارہی ہے جیسے ہماری معاشی صورتحال کی ہو رہی ہے۔حکومت نہ کوئی خاص منصوبہ بندی ماضی میں کر پائی ہے اور نہ آئندہ کی توقع ہم رکھ سکتے ہیں کہ ہر شعبہ میں کرپشن کی داستانیں زبان زد عام ہیں ۔ایک کے بعد ایک سرکاری محکمے کی حالت خراب سے خرا ب تر ہو رہی ہے ۔مگر حکومتی دعوے ایسے ہیں کہ شاید ہم امریکہ سے زیاد ہ ترقی یافتہ ملک بن چکے ہیں حالانکہ اس جمہوری حکومت سے بڑی توقعات تھیں مگر کوئی ایک بھی پوری نہیں ہوسکی ہے ،تینوں جماعتوں کی آپس کی چپقلش نے عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات سے بھی کافی حد تک محروم کر دیا ہے۔اگرچہ صوبہ پنجاب میں جناب وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب عمدہ انداز میں نظام چلانے کی کوشش کررہے ہیں مگر بلاوجہ بال کی کھال نکالنے والے اُ ن پر تنقید کرنے سے باز نہیں آتے ہیں ،جیسا کہ آجکل ہو رہاہے۔ ڈینگی وائرس کی وباءپر قابو پانا اگرچہ چند روز کا عمل نہیں ہے قصوروار چاہے کوئی بھی ہو ،ہم عوام بھی اس میں شامل ہیں کہ ہم بھی تو صفائی کا خیال نہیں رکھتے ہیں اپنے اردگرد دیکھئے گا پتا چل جائے گا کہ میرے کہنے کا کیا مطلب ہے مگریہاں بھی سیاست اپنے عروج پر ہے ہر جانب الزامات وتنقید کی بارش ہو رہی ہے ۔مگر جناب کوئی اپنی نااہلی کی جانب غور نہیں کر تاہے کہ چاروں صوبوں میں ایسے ایسے مسائل ہیں کہ اگر اُن کو حل کرنے کی جانب توجہ دے دیں تو اُن کو بیان بازی کا وقت ہی نہ ملے ،مگر جناب یہاں تو بیان بازی کے سواء اور کوئی کام ہے نہیں کرنے کو؟

اگرچہ ڈینگی سے سب خوف زدہ ہیں مگر پاکستان کے مستقبل سے کوئی خائف نہیں ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے بہرحال عوام الناس کےلئے ڈینگی کے بارے میں چند معلومات گوش گذار کررہا ہوں تاکہ اُ نکے دلوں میں اس مرض کا خوف کم ہو سکے اور وہ اس سے بچاﺅ کی بہتر کوششیں کر سکیں۔ڈینگی ایک متعدی مرض ہے جو ڈینگی وائرس کی وجہ سے لاحق ہوتاہے جس کی چار اقسام ہیں ۔ کوئی بھی شخص جو ایک بار ڈینگی وائرس کی کسی بھی ایک قسم کا شکار ہو چکاہو ،وہ زندگی میں کبھی بھی اگر ڈینگی وائرس کی کسی دوسری قسم کا شکار ہو تو ڈینگی ھمیوریجک بخار میں مبتلا ہو سکتاہے۔ ڈینگی انسانوں میں ڈینگی وائرس سے متاثرہ مادہ Aedesمچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے ۔ مچھر خود ایسے مریض کو کاٹنے سے متاثر ہوتاہے جس کے خون میں ڈینگی وائرس پایا جاتاہو۔ایک بات یاد رکھئے گا کہ ڈینگی کبھی کسی متاثرہ شخص سے دوسرے شخص کو از خود منتقل نہیں ہوتا ہے۔اگر آپ ان علامات کو اپنے اندر محسوس کریں تو فوراََ قریبی ہسپتال سے رابطہ کریں کیونکہ انکے ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ڈینگی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔

تیز درجے کا بخار
سر میں شدید درد
آنکھوں کے پچھلے حصے میں درد
جوڑوں، پٹھوں اورہڈیوں میں درد کا احساس
دانتوں ،مسوڑوں اور ناک وغیرہ سے اخراج خون

ڈینگی سے متاثر ہ فرد کو اچھی خوارک، آرام،مشروبات کا زیادہ استعمال اوردرد کےلئے Paracetamolاستعمال کرنی چاہیے۔متاثرہ مریض درد کےلئے ماسوائے Pracetamolکے کوئی اور دوایا ملیریا کی ادویات ہرگز استعمال نہ کریں۔اپنے آپ اور اپنے پیاروں کو ڈینگی سے محفوظ رکھنے کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ اسکے پھیلاﺅ کے تمام تر راستے بند کریں۔اچھی طرح ڈھانپے والے کپڑ ے استعمال کریں،گندا پانی کہیں کھڑا نہ ہونے دیں،گھر اورگھر کے اردگرد صفائی کا خاص خیال رکھیں اور جراثیم کش ادویات کا سپرے کریں،ممکن ہو سکے تو گھر میں مچھر والے کوائل اور مچھر دانی کا استعمال کریں۔

ڈینگی وائرس اورحالیہ بارشوں سے پیداہونے والے سیلاب کی تباہ کاریوں نے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے دھماکہ خیز بیانات کی اہمیت کو قدرے دھندلا سا دیا ہے۔مگرموجودہ سیاسی حکومت جو کچھ اب تک پچھلے چند سالوں میں کر پائی ہے اس سے تو سب ہی بخوبی واقف ہیں اور جلتی پر تیل ڈاکٹر صاحب نے اپنی محب وطنی سے لگا دیا ہے۔ حکومت وقت ایک جانب سے دامن بچاتی ہے تو دوسری جانب سے آگ بھڑکا دی جاتی ہے یا لگائی جاتی ہے اس بات کو فی الحال چھوڑیئے کہ ہمارے ہاں تو آوئے کا آوا ہی بگڑا ہواہے کس کو کیسے سمجھائیں کچھ سمجھ نہیں آتاہے اور سچ تو وقت آنے پر سامنے آہی جا تاہے۔یہی دیکھ لیجئے کہ جمہوری حکومت کے دورمیں سیلاب نے دوسری بار تباہی مچائی ہے اورحالات ویسے کے ویسے ہی ہیں جیسے پچھلی بارتھے، شاید اس سے بھی بدتر ہیں کہ حکومت باہر سے امداد کی طلب گار ہے مگر امداد ہے کہ مل ہی نہیں پائی جتنی توقع تھی کہ مل جائے گی۔ اس میں قصور وار سرا سر ہماری موجودہ نااہل جمہوری حکومت کا ہے کہ گذشتہ سیلاب کے متاثرین کی خاطرخواہ مد د نہیں کی گئی اور ساری امداد لوگوں نے اپنی ہی لوگوں میں بند ر بانٹ کروا دی۔جن کو ملی وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔جب حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں پوری دنیا میں سنی جائیں گی تو کون کیوں امداد کرے گااورکب تک کرے گا؟آخر کو ہم لوگ امداد کی بجائے اپنے اعمال بہتر کیوں نہیں کر تے ہیں۔کیا ہم لوگ دفاتر میں محض کرپشن اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر تنخوائیں سرکاری خزانوں سے وصول کر تے ہیں کیوں بھلائی کے کام کاج کرتے ہیں؟چلیں بھلائی نہ کریں اپنی ذمے سونپے فرائض تو ڈھنگ سے ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ کو بھی جواب دینا ہے مگر جناب! یہاں کل کی سو چتاکون ہے؟کیا سیلاب سے بچاﺅ کے طریقے ختم ہو چکے ہیں؟ کیا ایسے اقدامات کرنا جرم ہے جن سے لوگوں کی جان و مال محفوظ رکھی جا سکے؟کالا باغ ڈیم بن جانے سے کیا پاکستان بنجر ہو جائے گا جو اس کی مخالفت کی جا تی ہے؟ہمارے سیاسی لیڈران کی سب سے بڑی ناکامی تو یہ ہے کہ ہم کالاباغ ڈیم پر ایک نہیں ہو پائے ہیں جو پاکستان کی بقا اور سلامتی کا بہترین مظہر بن پاتا؟ایک بات یاد رکھئے گا جب تک ہم مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز اور کالاباغ ڈیم نہیں بنائیں گے اُس وقت تک ہم اسی طرح جانی ومالی نقصان سے دوچار ہوتے رہیں گے اور امدادکی بھیک مانگتے رہیں گے اور متاثرین کی بدعائیں ذمہ داران کا پیچھا کر تی رہیں گی؟
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 523168 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More