بقائے پاکستان کیلئے سیاسی عدم استحکام کا حل ناگزیر!

پاکستان میں موجودہ حکومت مختلف جماعتوں کے اتحاد کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کرکے معرض وجود میں آئی۔ اس رجیم چینج کا اصل بیانیہ تھا کہ وہ ملک کو مہنگائی او ر معاشی و اقتصادی تباہی سے بچانے کیلئے ایک حقیقی عوامی حکومت بنائیں گے۔ لیکن اس حکومت کے تمام عہدیداران اور وزیر و مشیر پچھلے عشرے میں عدالتوں سے بدعنوانی، حوالہ ہندی اور دیگر کئی غیر آئینی مقدمات کی وجہ سے نااہل ہوئے یا اپنی وزارتوں اور سیاست سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ خاص طور پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے بانی خاندان پانامہ پیپرز کی وجہ سے بدعنوانی اور حوالہ ہندی ثابت ہونے پر نا اہل ہوئے۔ جبکہ ن لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف جو عدالتوں سے باقاعدہ سزا یافتہ ہیں اور بیماری کے علاج کے بہانے لندن فرار ہو گئے تھے مگر پچھلے چار برسوں سے واپس نہیں آئے۔

ایک امر یہ بھی واقع ہوا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹانے سے پہلے ایک کھیل رچایا گیا تھا جس میں مختلف اداروں کے ذمہ داروں ، خاص طور پر پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی جماعتوں کے وزیروں اور عہدیداروں کی نجی زندگی کے لمحات آڈیو اور وڈیو لیک کی صورت میں عام کر کے ان کے کرداروں کو اچھالا گیا۔ اعظم سواتی کی اہلیہ کے ساتھ خلوت کی ویڈیو عام کی گئی ۔ اور اس کڑی کا سرا موجودہ دور میں عدالت عالیہ کے سربراہ چیف جسٹس اور اس کے خاندانی ممبر کی آڈیو اس وقت لیک کی گئی جب وہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان پربننے والے مقدمات میں ضمانت منظور کر رہے تھے۔اس سارے کھیل میں ڈارک ویب نے ایک اہم کردار ادا کیا جو اپنے طور پر دنیا کا نقشہ پیش کرتے ہوئے 2030 کی پیش گوئی کرتی ہے کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا۔

موجودہ حکومت کا ڈیڑھ سال کا دورانیہ مکمل ہو چکا ہے۔ جس بیانیے کے تحت پی ٹی آئی حکومت ہٹا ئی گئی اس پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ نہ تو مہنگائی کنٹرول کی گئی، نہ ہی ملک کو اقتصادی بحران سے نکالا گیا۔ بلکہ قوانین میں من مانی ترامیم کر کے سب سے پہلے تمام ملزمان کے مقدمات ختم کروائے گئے ہیں اور اب مزید میاں محمد نواز شریف کو وطن واپس لانے کیلئے آئینی ترامیم کی جا رہی ہیں۔اور تحریک انصاف کو دبانے کیلئے ان کے خلاف مختلف مقدمات چلا کر اپنے اہداف میں رکاوٹیں دور کی گئیں۔اس سلسلے میں جو سیاسی عدم استحکام وجود میں آیا اس سے ہم نے یہ حاصل کیا:

سیاسی عدم استحکام کی صورت میں ملک میں سیاسی انتشار بڑھ چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان تقسیم اور اختلافات کی وجہ سے عوام میں سیاسی تشہیر میں کمی لائی گئی ہے ۔نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے دن احتجاج کے دوران بہت سے دفاعی و ریاستی تعمیرات خاص طور پر شہداء کے مجسموں کو توڑ کر ان کی تضحیک کی گئی ہے۔ جس کا الزام ریاستی ادارے اور حکومت عمران خان کی جماعت اور اس کے عہدیداروں پر لگاتی ہیں۔جبکہ اس کے جواب میں عمران خان سمیت دیگر چند ابلاغی اداروں نے بتیس شواہد پر مشتمل ایک دستاویزی رپورٹ جا ری کی جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ نو مئی کو جارحانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے والے لوگ حکومتی اتحاد کے کارکن ہیں نہ کہ پی ٹی آئی کارکنان نے۔اس بارے میں ماہر قانون اعتزاز احسن بھی مختلف پریس کانفرنسوں میں ان بتیس ثبوتوں کے بارے میں حکومت اور مقتدر حلقوں سے سوال کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔اسی کے بعد پاکستانی صحافت کا چمکتا ہوا تارا عمران ریاض خان تاحال غائب ہے جسکی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے ادارے قبول نہیں کرتے ۔ اس طرح مذکورہ حکومت میں ہی ارشد شریف جیسے ایک نامور محقق صحافی کا بہیمانہ قتل کینیا میں کیا گیا جس کی ذمہ داری نہ تو کسی حکومت نے تسلیم کی ہے اور نہ ہی تاحال اس کیس کا کوئی نتیجہ نکل پایا ہے۔

سیاسی عدم استحکام کی صورت میں عوام نے حقوق کی حفاظت کیلئے تحریکات اور احتجاجات کیا تو نو مئی جیسا واقع پیش آ گیا۔اس کے بعد آٹھ ہزار سے زائد پی ٹی آئی کے کارکن مرد و خواتین جیلوں میں قید ہیں۔ عدالتیں اداروں کو حکم دے رہی ہیں کہ ان لوگوں کو آزاد کیا جا ئے مگر محکمہ پولیس اور وزارت داخلہ کے کانوں پر جونک تک نہیں رینگتی۔جس سے سیاسی تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح کراچی میں ہونے والے مئیر کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کے 29 منتخب نمائندوں کے اشتراک سے اپنا مئیر چننا تھا، مگر عین چناؤ کے دن ایک ہی دم وہ 29 نمائندے گرفتار کر لئے گئے اور یوں پیپلز پارٹی اپنا چئیرمین منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ حال ہی میں مختلف جیلوں سے آزاد ہونے والے پی ٹی آئی کے کارکنان جبکہ عمران خان سے ملاقات کے بعد باہر نکلے تو انہیں دوبارہ گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا۔ سیاسی انتشار اور احتجاجات کی وجہ سے سرمایہ کاری اور تجارت متاثر ہو ئی ہے۔

آئین ایک ملک یا ریاست کا اساسی قانون ہوتا ہے جو اس کی تنظیم اور حکومت کی قوانین و ضوابط کو معین کرتا ہے۔ اس کے ذریعہ حکومت اور عوام کے حقوق و فرائض متعین کیے جاتے ہیں۔ آئین ریاست اور عوام کے مابین ایک معاہدہ ہو تاہے کیونکہ یہ ریاست کے اصول و ضوابط کو متعین کرتا ہے اور عوام کے حقوق و فرائض کی حفاظت کرتا ہے۔ آئین کے ذریعہ ریاست کو قانونی حدود میں رہنے کی ضمانت حاصل ہوتی ہے ۔متعدد عوامی معاہدے، جمہوریت کے اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں جو ریاست اور عوام کے مابین خط تفصیل کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ عوام کو حکومت کا انتخاب کرنے اور حکمرانوں کو مسؤلیت ادا کرنے کی طاقت دیتے ہیں۔پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کو معاشرتی، سیاسی، اقتصادی اور قانونی معاملات کے تحت حل کرنے کے لئے درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:

سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا اہتمام ہو تاکہ مختلف سیاسی قوانین اورماہرین انکی تشریعات کی پاسداری ممکن بنائی جا سکے۔ سیاسی اتحاد کیلئے تشویشناک مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ شفاف اور انصاف سے بھرپور انتخابات کی نظم و ضابطہ بندی کو مزید بہتر بنایا جائے۔ انتخابی اداروں کو مضبوط بنایا جائے ۔ قانون و نظم کی حفاظت کے لئے قومی اداروں کو مضبوط بنایا جائے۔ عدلیہ کو آزاد اور طاقتور بنایا جائے ۔اور اس کے استقلال کی حفاظت کی جائے تاکہ عدالتی فیصلوں کے نفاذمیں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ مستحکم اقتصادی بنیادوں کی تشکیل کریں جو سیاسی استحکام کو مضبوط کرتی ہیں۔ معاشی ترقی کیلئے سرمایہ کاری اور کاروباری معاشرتیات کی ترویج، ضروری ترقیاتی منصوبوں کی تنفیذ، مزید روزگار کے مواقع کی فراہمی، محفوظ اور مستحکم معیار کی خدمات کی فراہمی وغیرہ کیلئے اقتصادی اصلاحات پیش کی جائیں۔ عوام کی تعلیم و آگاہی کو بڑھایا جائے تاکہ وہ اپنے حقوق اور وظائف سے آگاہ ہوں۔ عوام کو سیاسی عمل میں شرکت کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ منتخب حکومتوں کی انتظامی نگرانی کر سکیں اور اپنے مسائل کا حل طلب کر سکیں۔ سیاسی عدم استحکام کو حل کرنے کا اہم جزو فساد کی روک تھام ہے۔ قومی اداروں کو مستحکم کرنا، جمع کئے گئے محصولات کا خزانہ کیسے استعمال ہو رہا ہے، قومی خزانے کاآڈٹ اور اس کا استحکام، قانون کے ذریعے جرائم کی روک تھام، اور بری عادات کیلئے قوانین جیسی پالیسیاں مرتب کر کے فساد کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ واﷲ العلم بالخیر
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 190109 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More