ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

 منموہن سنگھ کے زمانے میں نربھیا کی عصمت دری کے بعد دارالخلافہ دہلی کو’ریپ کیپٹل‘ کے خطاب سے نوازہ گیا تھا مگر اب مودی یُگ میں اس نے مزید ترقی کرکے’کرائم کیپٹل ‘ کا اعزاز بھی حاصل کرلیا ہے۔ اس کو کہتے ہیں ’مودی کا ساتھ جرم کا وکاس ‘۔ راجدھانی دہلی میں آئے دن پیش آنے والے لرزہ خیز جرائم کی خبریں پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے۔تازہ واقعہ آر کے پورم تھانہ علاقے میں واقع امبیڈکر بستی کاہے۔ وہاں اتوار کی علی الصبح 2 درجن سے زیادہ شرپسندایک لڑکے کو مارنے کی خاطر فائرنگ کی، نوجوان تو بچ گیا، مگر اس کی دو بہنیں ہلاک ہوگئیں ۔ اس سانحہ میں اگر قاتل ہندو اور مقتول مسلمان ہوتے تو اسے بڑی آسانی سے ماب لنچنگ ، ہندوتوا اور نسل کشی وغیرہ سے جوڑ دیا جاتا۔ اس کے برعکس اگر مسلمان قاتلوں نے کسی ہندو کا قتل کردیا ہوتا تو اس کے لیے ’لو جہاد‘ اور ’لینڈ جہاد‘ کے طرز پر ’لون جہاد‘ کی اصطلاح ایجاد ہوجاتی۔ یہ بتایا جاتا کہ اس میں پہلے قرض لیاجاتاہے اور پھر تقاضہ کرنے والے موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں لیکن چونکہ ایسا نہیں ہوا اس لیے ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ آخر ہمارے سماج سے انسانیت کہاں چلی گئی؟ ہم لوگ درندوں میں کیوں بدل گئے؟ اس واقعہ نے سماج کو جو آئینہ دکھایا اس پر ساحر لدھیانوی کا یہ شعر صادق آتاہے ؎
ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

اس دوہرے قتل کی معمولی سی وجہ پورے سماج کو شرمسار کردینے والی ہے۔خبروں کے مطابق متاثرہ نوجوان للت اپنی ادھار کی رقم وصول کرنے کے لیے مقروض کے گھر گیا اور بے نیل و مرام لوٹ آیا۔ قرض لوٹانے کے بجائے 2 درجن سے زائد بدمعاش اس کے گھر پہنچ گئےاور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ للت کی بہنیں کسی طرح للت کو بھگانے میں کامیاب ہو گئیں تو مشتعل بدمعاشوں نے دونوں بہنوں پنکی( عمر 30) اور جیوتی( عمر 29) کو گولی ماردی۔ یہ دوہرا قتل محض پندرہ ہزار روپئے نہیں لوٹانے کی خاطر ہوا۔ سوال یہ ہے کیا اس امرت کال میں قرض دینا اور تقاضہ کرناقابلِ گردن زدنی جرم ہے۔ معاشرے میں اگر عوام کو ماورائے قانون قتل و غارتگری کی اجازت دے دی جائے ۔ اس کاارتکاب کرنے والوں کو سرکاری تحفظ مل جائے۔ اس کے ظلم و ستم کا سیاسی فائدہ اٹھایا جائے تو انسانی سماج میں جنگل راج قائم ہوجاتا ہے۔ وہاں درندے دندناتے پھرتے ہیں۔ اس انحطاط کے لیے لوگوں کے دل سے قانون کا ڈر نکالنے والے شاہ جیسے فسادات سے سبق سکھانے والے اور یوگی جیسے مٹی میں ملانے والے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

پولیس نے چند گھنٹوں کے اندراس معاملے میں کشن اور گنیش سوامی کو گرفتار کرلیا بعد ازاں ارجن، مائیکل اور دیو بھی پکڑے گئے لیکن انہیں قرار واقعی سزا ملے گی یا سیاسی فائدے کے لیے برج بھوشن شرن سنگھ کی مانند بچا لیا جائے گا؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ ویسے تو یہ خالص اخلاقی و انسانی معاملہ ہے لیکن اس پر بھی سیاست کا بازار گرم ہے۔ اس چونکا نے والے قتل نے حکمران عام آدمی پارٹی اورحزب اختلاف بی جے پی کو جوتم پیزار کا موقع فراہم کردیااورنظم و نسق کی بگڑتی صورتحال پر الزام تراشیاں شروع ہوگئیں ۔ دہلی پولیس چونکہ مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے اس لیے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ پر الزام لگایا کہ وہ شہر میں امن و امان کی موجودہ صورتحال کو ٹھیک کرنے کے بجائے ان کی حکومت سے اختیارات چھیننے کی سازش میں مصروف رہتے ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ دہلی کا امن و امان اگر ایل جی کے بجائےعآپ حکومت کے تحت ہوتا، تو دہلی محفوظ ترین ہوجاتی ۔ پسماندگان سے اظہار تعزیت کے بعد کیجریوال نے مقتول خواتین کے روح کی خاطر سکون کی دعا کی۔

اروند کیجریوال کے ٹوئٹ سے بی جے پی کی دکھتی رگ دب گئی اور ان کے خلاف لعن طعن کا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ زعفرانی رکن پارلیمان منوج تیواری نے کیجریوال پر نزلہ اتارتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات پر سستی سیاست کرنے والےرہنما اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد مرکزی وزیر مملکت میناکشی لیکھی نے بھی وزیر اعلیٰ کے جواب میں لکھا : ’’یہ شخص ( کیجریوال) قانون کو نہیں سمجھتا‘‘۔اس تمہید کے بعد تو انہوں الزامات ایک پٹارہ ہی کھول دیااور لکھاکہ اروند کیجریوال کا ایم ایل اے دہلی فسادات میں ملوث تھا۔ یہ الزام غلط ہے کیونکہ فساد کے اصل مجرم کپل شرما کو بچانے کے لیے بی جے پی نے جج کا تبادلہ تک کروادیا اور عام آدمی پارٹی کے رہنما کو طاہر حسین کو بلاجواز پھنسایاگیا۔لیکھی نے طاہر حسین پر آئی بی کے افسر انکت کے قتل اورلوگوں میں گلیل ، بندوقیں اور پیٹرول بم بانٹنے کا الزام تو لگایا لیکن اس کے حق میں کوئی ثبوت عدالت کے اندر ہنوز پیش نہیں کیا جاسکا۔ اس لیے یہ کہنا کہ ایسے لوگوں کو امن و امان کی ذمہ داری کیسے دی جا سکتی ہے؟ بے معنیٰ سوال ہے۔

عام آدمی پارٹی نے لیکھی کو جواب دینے کی ذمہ داری نئے وزیر صحت سوربھ بھردواج کو سونپی ۔ انہوں نے لکھا ’’قومی راجدھانی کے اندر پچھلے ایک سال میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو گئی ہے۔ خواتین محفوظ نہیں ہیں کیونکہ ہماری ماؤں اور بہنوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چھیڑ چھاڑ عام ہو گئی ہے۔ آج کوئی بھی عورت زیورات پہن کر گھر سے باہر نہیں نکل سکتی ہے۔ چھیننے کی وارداتیں کھلے عام ہو رہی ہیں۔ دہلی کا نظام قانون بگڑ گیا ہے۔ تہاڑ جیل میں اور لوگوں کے گھروں میں گھس کر قتل ہو رہے ہیں۔ دہلی میں نظم ونسق کی حالت اتنی بری کبھی نہیں تھی۔ ایل جی کی ترجیحات چونکہ درست نہیں ہیں اس لیے پولس ایک سیاسی شعبہ کی طرح کام کر رہی ہے ‘‘۔ کانگریس نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اس چپقلش میں اپنی سیاسی روٹیاں سینکنا شروع کردی۔ اس کے ترجمان ڈاکٹر نریش نے کہا کہ دہلی میں جہاں پولس کا خوف ہونا چاہئے وہاں شرپسندوں کا ڈر ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ پنجاب کے وزیر اعلی بھگونت مان اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کے پاس وقت نہیں ہے، لیکن ملک کے وزیر داخلہ دہلی کے لیے کب وقت نکالیں گے؟ نریش کمار نے جلد کل جماعتی نشست بلانے اور پولیس بھرتی میں خلا پرُ کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اور لیفٹیننٹ گورنر آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور ان کو اس طرح کے معاملات میں دلچسپی نہیں ہے۔

دارالخلافہ میں چونکہ جرائم کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہاہے اس لیے دہلی کانگریس پارٹی کے کارکنان نے امن و امان کی بحالی کے لیے احتجاجی دھرنا دینے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ ایک طرف جرائم کا سنگین مسئلہ دن بہ دن عفریت کی شکل اختیار کررہا ہے دوسری جانب سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی سے فرصت نہیں ہے۔ وہ سر جوڑ کر بیٹھنے اور اسے حل کرنے کے لیے ایک دوسرے کا تعاون کرنے پر رضامند نہیں ہیں ۔ شمالی ہند کے بارے میں یہ عام رائے ہے کہ وہاں سفاکی زیادہ ہے لیکن اسی ہفتہ بنگلورو کے ایک واقعہ دل دہلا دیا۔ اس میں ایک 39 سالہ خاتون نے گھریلو جھگڑے کے دوران مشتعل ہوکر اپنی ماں کو قتل کردیا۔ اس کی ڈھٹائی کا یہ عالم تھا کہ وہ ماں کی لاش کو سوٹ کیس میں لے کر تھانے پہنچ گئی یعنی اس کے دل میں قانون یا سزا کا کوئی خوف ہی نہیں تھا۔ خبروں کے مطابق انتالیس سالہ سینالی سین عرف چندرما فزیو تھراپسٹ ہے۔اس نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ اپنی ماں منیما کے ساتھ روز روز کے جھگڑے اور تلخ کلامی سے تنگ کر اس نے یہ قتل کیا۔ چندرما کو شکایت تھی کہ اس کی ماں اسے اپنی من مانی زندگی گزارنے سے روک رہی ہے اس لیے ان میں اکثر لڑائی ہوتی رہتی تھی ۔

چندرما شادی شدہ ہے ۔ اس واردات کے وقت اس کا شوہر گھر پر موجود نہیں تھا لیکن ساس موجود تھی مگر اس کو پتہ ہی نہیں چل سکا۔ اس سنگدل عورت نے لاش کے ساتھ سوٹ کیس میں مقتولہ کے شوہر یعنی اپنے باپ کی تصویر بھی رکھ لی تھی ۔ اس نے پولیس کی تفتیش کے بغیر ہی ساری داستان سنا تے ہوئے کہا کہ وہ بھاگنا نہیں چاہتی اس لیے لاش کو لے کر پولیس تھانے آئی ہے۔ یہ ہمارے سماج کا ایک ناقابلِ یقین واقعہ ہے جو عوام میں بڑھنے والی عدم برداشت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس میں انسان پندرہزار روپیہ قرض واپس مانگنے والے کی دوبہنوں کو بے دریغ قتل کرسکتا ہے۔ ایک بیٹی اپنی 75؍ سالہ ماں کو قتل کرکے اس کی لاش کے ساتھ تھانے جاسکتی ہے۔ شریعتِ الٰہی سے بے بہرہ اور آخرت کی جوابدہی کے عقیدے سے بے نیاز اس مادر پدر آزاد سماج پر بروقت لگام نہیں لگائی گئی تو یہ معاشرہ انسانیت کے نام پر کلنک بن جائے گا ۔ اصلاحِ معاشرہ کا یہ کام آسان نہیں ہے اور اس کے لیے دعوت ِ دین شرطِ اول ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اس دقت طلب ہدف کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ؎
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449105 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.