مادرِ جمہوریت بینظیر

21 جون1953 میں زلفی بھٹو کے گھر اک چاند سی بیٹی پیدا ہوئی جس نے نے تاریخ کا دھارا شاید نہ بدلا ہوں ہو مگر پاکستانی سیاست میں ایک اجنبی تبدیلی ضرور پیدا کی۔ بے نظیر کہا کرتی تھی کہ اس زندگی کا انتخاب میں نے نہیں کیا بلکہ اس زندگی نے میرا انتخاب کیا ہے۔ مسلم دنیا کی پہلی خاتون اور کم عمر ترین وزیر اعظم بننا میں صرف ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی پیش نظر نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ان کے والد وقت کے وزیراعظم اور لیڈر زلفقارعلی بھٹو کی تربیت بھی تھی۔ وہ بیرونی دوروں پر پنکی کو ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ شملہ معاہدے کے موقع پر بھی ان کے ہمراہ تھیں اسی وجہ سے وہ مارکریٹ تھکچر، کرنل قذافی، ہنری کسنجر اور اندرا گاندھی کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتی تھی اپنی کتاب ڈاٹر آف دی ایسٹ میں وہ لکھتی ہیں کہ جب امریکی صدر جان کینیڈی کا انتقال ہوا تو بھٹو صاحب میرے کمرے میں آئے مجھے گہری نیند سے جگایا اور ان کے اور اور اپنے تعلقات کے بارے میں طویل گفتگو کرتے رہے ۔ اسی کتاب میں وہ اپنی اور ضیاءالحق کی کی پہلی ملاقات کی روداد بھی لکھتی ہیں کہ جب ایک ایونٹ پر انہوں نے آرمی چیف کو دیکھا جس کو ان کے والد میرا منکی آرمی چیف کہتے تھے تو مجھے وہ ایک جوکر کی طرح لگا۔ پھر وقت نے اپنا دھارا بدلہ اور اسی جو کر نما منکی آرمی چیف نے اس خاندان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی۔ 5 جولائی 1977 میں مارشل لاء نافذ کیا، بھٹو کو تخت و تاج سے محروم کر کے کے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ بے نظیر کو نظر بند کر دیا، والد کا آخری دیدار تک نہ کروایا کیا اور بعد میں جیل میں قید کر دیا۔ آج جیل کی گرمی سے دلبرداشتہ ہو کر کر سیاست چھوڑ کر جانے والوں کو کو کم از کم ایک بار باران کے قید و بند میں گزرے ایام کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

استقامت کی انتہا یہ تھی کہ وہ ایک نہتی لڑکی اپنے والد کی سیاست کو بچانے کے لئے جلا وطنی ختم کر کے کے ملک واپس آئیں ، لاہور میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا لیکن جلد ہی ایک سیاستدان سے انہیں منسوب کر کے ان کی کردار کشی کی گئی۔ اسی اثنا میں ان کی والدہ نے ان کی شادی آصف علی زرداری سے طے کر دیں۔ اس کا واقعہ بھی دلچسپ ہے بینظیر لکھتی ہیں کہ زرداری نے بے نظیر کے ہاتھ پر لگی چوٹ پر پٹی باندھی اور بینظیر کو ہسپتال لے کر گئے سارے راستے ان کا دل بہلانے کے لیے طرح طرح کے موضوعات پر ہنسی مذاق کرتے رہے۔ اس خیال رکھنے اور دلچسپ باتوں کی وجہ سے بے نظیر ان کا رشتہ قبول کرنے کی طرف مائل ہوئی۔ کسی شہزادی کی طرح شاہانہ انداز سے شادی کرنے کے بعد بینظیر نے 1988 کا الیکشن لڑنا شروع کیا۔ ان کے مقابلے کے لئے ضیاءالحق کی باقیات نو پارٹیوں نے نے آئی جے آئی آئی کا اتحاد قائم کیا۔ یہ دائیں اور بائیں بازو کی پارٹیوں کے درمیان الیکشن تھا ایک طرف شہید بھٹو کی بیٹی تھی اور دوسری طرف مردہ ضیا الحق کو امیر المومنین ماننے والے میدان میں تھے۔ وفاقی الیکشن ہارنے کے بعد پنجاب کی جگہ جگہ دیواروں پر لکھا گیا
"جاگ پنجابی جاگ جاگ تیری پگ نو لگ گیا داغ"
لکھاگیا۔ عورت کی حکمرانی شرعا جائز نہ ہونے کے فتوے جاری کئے گئے گئے۔ بے نظیر کی نیم برہنہ تصاویر ہیلی کاپٹروں سے لوگوں کے گھروں میں پھینکی گئی۔ طرح طرح سے ان کی کردار کشی کی گئی گئی۔ لیکن تمام ہتھکنڈوں کے باوجود بے نظیر نے میدان مار لیا۔

صدر غلام اسحاق، جنرل اسلم بیگ اور اور حمید گل نے انہیں صرف اس شرط پر اقتدار منتقل کیا کیا کہ وہ خارجہ پالیسی ، دفاعی معاملات اور نکلیئر پروگرام سے سے دور رہیں گی ۔اپنے دونوں ادوار میں انہیں حکومت کرنے ہی نہیں دی گئی گی ہمیشہ صدر نے فوج ، عدلیہ اور اپوزیشن سے مل کر 58 (2b) کا استعمال کرتے ہوئے ان کی حکومت کو ختم کیا۔

اس سب کے باوجود انہوں نے خواتین کی ترقی کے لیے انتظامات کیے ، پولیو مہم چلائی ، لیڈی ڈیانا سے مل کر کر بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔ سماجی رہنماؤں اسماء جہانگیر جیسی خواتین کا ساتھ دیا اور خصوصا خارجہ پالیسی میں ایک نرم دل خاتون اور نڈر لیڈر کے طور پر سامنے آئی۔ نارتھ کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی کو کو پہلی بار بے نظیر پاکستان لے کرآئی۔ جس طرح ان کے والد کو نکلیئر پروگرام کا بانی مانا جاتا ہے ، وہ خود کو مدر آف میزائل پروگرام کہا کرتی تھی۔ کتاب گڈبائے شہزادی میں ایک ہندو صحافی کہتے ہیں کہ وہ اس میزائل ٹیکنالوجی کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے بدلے لے کر آئی تھی جو کہ وہ ایک سی
ڈی میں محفوظ کر کے اپنے لونگ کوٹ کی جیب میں لے کر گئی تھی۔ کرنل قذافی کو یورینیم کی کھیپ بھی انہوں نے ہی بھجوائی تھی۔
اسی طرح امریکہ میں بھی وہ بے حد مقبول ہوئیں کانگرس نے انہیں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا کیا ۔جہاں انہوں نے اپنے مشہور فقرہ
democracy
is the best revenge
بول کر رہتی دنیا تک کے آمروں کو للکارا ۔

ایک خاتون عملی میدان میں کام کرے اور اس کے گھریلو مسائل نہ ہو ایسا تو ممکن نہیں۔ خاندانی سیاست میں بے نظیر کبھی سسرال اور کبھی میکے کےدرمیان جھولتی رہی زرداری خاندان آصف علی زرداری کی قید و بند کا ذمہ دار وقتافوقتا بینظیر کو ٹھہراتا رہا ، تو دوسری طرف مرتضی بھٹو سے تعلقات خراب ہونے کے بعد مرتضیٰ کے قتل میں بھی ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا یہاں تک کہ ان کی والدہ مسرت بھٹو نے ان کو بیٹی کہنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ وہ ہر جلسے میں انکو بیگم زرداری کہہ کر مخاطب کرتی تھی ایک بار زرداری سے جیل میں ملاقات کرنے گئی تو جیلر نے انہیں بیٹھنے کے لیے کرسی تک نہیں دی بلکہ وہ باہر اینٹوں پر اپنے کم عمر بچوں کو بٹھا کر دھوپ میں انتظار کرتی رہی۔

نگران وزیراعظم خالد معراج نے ان کے اور اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو وہ خود ساختہ جلاوطن ہوگی۔

نو سال بعد جلا وطنی ختم کر کے دوبارہ سیاست میں اپنا لوہا منوانا چاہا تو ایک اور آمر صدر پرویز مشرف ان کی جان کے درپے بن گیا کیا۔ نواز شریف کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کیا، اٹھارویں ترمیم کا وعدہ کیا اور الیکشن میں حصہ لینے کے لیے واپس وطن لوٹیں ان ک کی طلسماتی شخصیت، قائدانہ صلاحیتیں، دور اندیشی معاملہ فہمی اور پروقار گفتگو کا انداز آج بھی خواتین سیاستدانوں کے لئے نمونہ ہے جو صرف میک اپ خوبصورتی کے بل بوتے خود کو لیڈر منوانا چاہتی ہیں۔

27 دسمبر 2007 کو مادر جمہوریت کو شہید جمہوریت بنا دیا گیا۔ لیاقت باغ میں اس قتل کی سازش کو جائے وقوع دھو کر آج بھی ایسے نقاب میں چھپا دیا گیا ہے جس سے پردہ اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کی شہادت بڑا سانحہ تھی یا جو حشر ان کی وفات کے بعد سیاست کا کیا گیا وہ ملک کے لیے بڑا نقصان تھا اس کا فیصلہ عوام کریں گے۔ اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ کہ ان کی پارٹی اقتدار میں آئی لیکن ان کی قتل کی سازش بے نقاب نہ ہوسکی۔

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 49435 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.