پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر
جنرل (ڈی جی) میجر جنرل احمد شریف نے دو ٹوک الفاظ میں قومی اتفاق رائے
اورفوج کے صاف و شفاف خود احتسابی عمل کی اہمیت و افادیت بیان کرتے ہوئے
کہا ہے کہ 9 مئی کے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچایاجائے گا۔ فوج نے اپنی
روایات کے مطابق خود احتسابی عمل کا مرحلہ مکمل کرتے ہوئے جی ایچ کیو، جناح
ہاؤس کی سیکیورٹی اور تقدس برقرار رکھنے میں ناکامی پر 3 افسران بشمول ایک
لیفٹیننٹ جنرل کو نوکری سے برطرف کردیا اور 15 افسران بشمول 3 میجر جنرلز
اور 7 بریگیڈیئرز کے عہدے کے افسران کے خلاف سخت تادیبی کارروائی مکمل کی
جا چکی ہے۔جی ایچ کیو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آرنے
کہا کہ9 مئی کو متعدد گیریژن میں پرتشدد واقعات پر دو ادارہ جاتی جامع
انکوائریز میجر جنرل رینکس کے عہدیداروں کی نگرانی میں ہوئیں۔ ایک مفصل
احتسابی عمل کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو متعلقہ ذمہ داران گیریژن، فوجی
تنصیبات، جی ایچ کیو اور جناح ہاؤس کی سیکیورٹی اور تقدس برقرار رکھنے میں
ناکام ہوئے ان ذمہ داران کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس
سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ فوج میں خود احتسابی کا عمل بغیر کسی تفریق کے
مکمل کیا جاتا ہے اور جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے اتنی ہی بڑی ذمہ داری نبھانی
پڑتی ہے۔یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ فوج کے خود احتسابی عمل میں کسی عہدے
یا معاشرتی حیثیت میں کوئی تفریق نہیں رکھی جاتی، اس وقت ایک ریٹائرڈ
فوراسٹار افسر کی نواسی، ایک ریٹائرڈ فور اسٹار افسر کا داماد، ریٹائرڈ
تھری اسٹار جنرل کی بیگم اور ریٹائر فور اسٹار جنرل کی بیگم اور داماد
ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر اس احتسابی عمل سے گزر رہے ہیں۔ اب تک آرمی
ایکٹ کے تحت چلائے جانے والے مقدمات کے سلسلے میں پہلے سے قائم شدہ فوجی
عدالتیں کام کر رہی ہیں جس میں اب تک 102 شرپسندوں کا ٹرائل کیا جا رہا
ہے۔جوافواجِ پاکستان کی عزت و وقار پر گھناؤنے منصوبے کے تحت کئے گئے حملے
میں ملوث ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف
رواں سال کے دوران 13 ہزار 619 چھوٹے بڑے انٹیلی جنس آپریشنز کئے اور اس
دوران ایک ہزار 172 دہشت گردوں کو واصل جہنم یا گرفتار کیا گیا، دہشت گردی
کے ناسور سے نمٹنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر 77 سے زائد آپریشنز افواج
پاکستان، پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے
انجام دے رہے ہیں۔ رواں سال آپریشنز کے دوران 95 افسران اور جوان شہید
ہوئے۔ پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کے لواحقین کو زبردست خراج تحسین
پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں ملک کے امن و سلامتی پر قربان کر
دیں۔ اب تک کی تحقیقات میں بہت شواہد مل چل چکے ہیں، افواج پاکستان آئے روز
اپنے شہدا کو کندھا دے رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف
جنگ لڑی جا رہی ہے۔ 9 مئی کا واقعہ اس لئے بھی انتہائی قابل مذمت اور
پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب قرار دیا گیاہے کہ جو کام دشمن 76 برس میں نہ
کر سکا وہ مٹھی بھر شرپسندوں اور ان کے سہولت کاروں نے کر دکھایا، جس کی
جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔یہ سانحہ بلاشبہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش
تھی، اب تک کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ سانحہ کی منصوبہ بندی گزشتہ کئی ماہ
سے چل رہی تھی، اس منصوبہ بندی کے تحت پہلے اضطرابی ماحول بنایا گیا، پھر
لوگوں کے جذبات کو اشتعال دلایا گیا اور فوج کے خلاف اکسایا گیا۔
فوج کے ترجمان سمجھتے ہیں کہ جھوٹ اور مبالغہ آرائی پر مبنی بیانیہ ملک کے
اندر اور باہر بیٹھ کر سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا اور شرانگیز بیانیے سے
اہل وطن کی ذہن سازی کی گئی۔تحقیقات میں بہت سے شواہد مل چکے ہیں اور مسلسل
مل رہے ہیں، افواج پاکستان، شہدا کے ورثا میں 9 مئی کے افسوس ناک سانحے پر
شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ افواج پاکستان آئے روز عظیم شہدا کے جنازوں کو
کندھا دے رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشنز پوری یکسوئی اور قوت کے ساتھ
جاری ہیں۔روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردوں کی سرکوبی کی جارہی ہے۔یہ قربانیاں
صرف فوج کی نہیں بلکہ قوم کی ہیں۔ اگر کوئی سیاسی مقاصد کے لئے ایک جھوٹے
بیانیے پر افواجِ پاکستان کے خلاف گھناؤنا پروپیگنڈا کرے ، شہدا کے اہل
خانہ کی بھی دل آزاری کی جائے تو یہ قوم کی دل آزاری ہو گی۔ شہدا کے خاندان
آج پوری قوم اور ہم سب سے کڑے سوال کر رہے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ کیا ان کے
پیاروں نے اس قوم کے لئے اس لئے قربانیاں دی تھیں کہ ان کی نشانیوں کی اس
طرح بے حرمتی کی جائے، کیا اپنے مذموم سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے کچھ
شرپسند عناصر شہداء اور غازیوں کی قربانیوں کو سیاسی ایجنڈے کی بھینٹ چڑھا
دیں گے اور وہ لوگ جنہوں نے اس گھناؤنے عمل کی منصوبہ بندی کی وہ لوگ قانون
کے کٹہرے میں کب لائے جائیں گے۔شہدا کے یہ ورثا کا دراصل ہم سب سے مکرر
سوال ہے کہ کیا روزانہ شہید ہونے والے افسران اور جوانوں کی حرمت کا ان
شرپسندوں سے مستقبل میں تحفظ کیا جا سکے گا، شہدا کے ورثاء اور آرمی کے
رینکس کا سوال ہے کہ اگر ہماری قربانیوں اور ہمارے شہدا ء کے تقدس کی اسی
طرح بے حرمتی ہونی ہے تو ہمیں اس ملک کی خاطر جان قربان کرنے کی کیا ضرورت
ہے۔
کسی بھی ملک و قوم کے لئے اس کے استحکام کی بنیاد عوام، حکومت اور فوج کے
درمیان اعتماد، احترام کا رشتہ ہوتا ہے۔ ملک دشمن قوتوں نے مختلف طریقوں سے
کئی دہائیوں سے یہ کوشش جاری رکھی کہ یہاں کے عوام اور فوج کے درمیان خلیج
ڈال کر اس رشتے میں دراڑ ڈالی جائے لیکن دشمن کو ہمیشہ ناکامی ہوئی۔ دہشت
گردی کے خلاف جنگ کو بیرونی ایجنڈے سے تشکیل دینا، ڈی ایچ اے، فوجی
فاؤنڈیشن، دفاعی بجٹ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے جھوٹے اور گھناؤنے
بیانیوں کے باوجود عوام اور فوج کے درمیان جو اعتماد اور احترام کا رشتہ ہے
دشمن اس میں دراڑ نہ ڈال سکا ۔اس کی سب سے بڑی وجہ افواجِ پاکستان کا ملک
کے دفاع، عوام کی حفاظت اور فلاح و بہبود کے لئے ان گنت قربانیاں دینااور
عوام کایہ اعتماد کہ حالات جیسے بھی ہوں افواجِ پاکستان اپنی مکمل پیشہ
ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کرے گی۔فوج کے ترجمان
کا کہنا ہے کہ افواجِ پاکستان تمام اکائیوں، مکاتب فکر اور طبقات کی
نمائندگی کرتی ہے، نہ کہ کسی مخصوص اشرافیہ کی عکاسی کرتی ہے، ان عوامل کی
وجہ سے عوام کو کسی صورت بھی افواج سے جدا نہیں کیا جا سکتا اور اس کی
گواہی شہدا افواجِ پاکستان کی قبریں بھی دیتی ہیں جو ملک بھر بشمول گلگت
بلتستان اور آزاد کشمیر میں موجود ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں مذموم سیاسی
مقاصد کے حصول اور اقتدار کی ہوس نے ایک جھوٹا اور گمراہ کن پروپیگنڈا
چلایا گیا اور چلایا جا رہا ہے جس کا نکتہ عروج بدقسمتی سے 9 مئی کو دیکھا
گیا جب پاکستان کے معصوم عوام بالخصوص نوجوانوں سے انقلاب کا جھوٹا نعرہ
لگوا کر بغاوت پر اکسایا گیا۔ پاکستان آرمی کی فیصلہ سازی میں مکمل ہم
آہنگی اور وضاحت ہے، اس ضمن میں 9 مئی کے واقعات کے بعد 15 مئی کو جاری کی
گئی اسپیشل کور کمانڈرز کانفرنس کی پریس ریلیز، 25 مئی کو یومِ تکریم
شہدائے پاکستان کا پیغام اور 7 جون کو فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کی پریس
ریلیز اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملٹری قیادت اور افواجِ پاکستان 9 مئی کے
واقعات سے جڑے ہوئے پسِ پردہ عناصر، ان کے سہولت کاروں اور ایجنڈے سے بخوبی
آگاہ ہیں۔ آرمی جن امور پر بالکل متفق اور واضح ہے وہ یہ ہیں کہ سانحہ 9
مئی کو پاکستان کی تاریخ میں نہ بھلایا جائے گا اور نہ ہی ملوث شرپسند
عناصر، منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو معاف کیا جا سکتا ہے، اس سانحے سے
جڑے تمام منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو آئین وقانون کے مطابق سزائیں دی
جائیں گی، چاہے ان کا تعلق کسی بھی ادارے، سیاسی جماعت یا معاشرتی حیثیت سے
کیوں نہ ہو۔ اس عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کے
ساتھ پاکستانی عوام کی بھرپور حمایت کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا، جس
عوامی حمایت کا عکس 9 مئی کے بعد عوامی ردِعمل میں دیکھا گیا۔ 9 مئی کے
واقعات کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام اور ملوث افراد کے ٹرائل اور سزاؤں کے
حوالے سے کیس فوجی عدالت اور سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے لیکن حقائق کا
سمجھنا ضروری ہے۔ اس وقت ملک بھر میں 17 اسٹینڈنگ کورٹس کام کر رہی ہیں، یہ
فوجی عدالتیں 9 مئی کے بعد معرض وجود میں نہیں آئیں بلکہ ایکٹ کے تحت پہلے
سے فعال اور موجود تھیں۔ ان عدالتوں میں 102 شرپسندوں کے مقدمات سول
عدالتوں سے ثبوت دیکھنے کے بعد قانون کے مطابق فوجی عدالتوں میں منتقل کئے
گئے ۔ ان تمام ملزمان کو مکمل قانونی حقوق حاصل ہیں، جس میں سول وکیلوں تک
رسائی کا حق بھی شامل ہے، اس کے علاوہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں اپیل
کا حق انہیں حاصل ہے۔ آرمی ایکٹ آئین پاکستان اور قانون کا کئی دہائیوں سے
حصہ ہے اور اس کے تحت سیکڑوں مقدمات نمٹائے جاچکے ہیں، بین الاقوامی عدالت
انصاف نے اس کے عمل کی پوری طرح جانچنے کے بعد توثیق کی ہے۔ حقائق کی
موجودگی میں کوئی بھی جھوٹا بیانیہ بنائے تو وہ بناسکتا ہے لیکن حقائق
جھٹلائے نہیں جاسکتے۔ سزا اور جزا آئین پاکستان کا حصہ ہے، سزا جرم کے
مطابق ہے، فوج بارہا اعادہ کرچکی ہے کہ آئین پاکستان سب سے مقدم ہے اور
عوام کی خواہشات کا مظہر ہے۔ 9مئی کا سانحہ فوج یا ایجنسیوں سے منسوب کرنا
افسوس ناک اور شرم ناک ہے، یہ بات زہریلی اور سازشی ذہن کی عکاسی ہے۔ سی سی
ٹی وی فوٹیجز، آڈیو ریکارڈنگز، تصاویر اور ملوث افراد کے اپنے بیانات سے یہ
واضح ہوتا ہے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت 9 مئی کو چن چن کر فوجی تنصیبات کو
نشانہ بنایا گیا، 9 مئی سے بہت پہلے ہی لوگوں کی فوج کے خلاف ذہن سازی کی
گئی ، فوجی قیادت کے خلاف ذہن سازی کی گئی، کیا یہ ذہن سازی فوجی قیادت نے
اپنے خلاف خود کروائی۔ گرفتاری کے چند گھنٹوں میں ملک بھر میں 200 سے زائد
مقامات پر صرف فوجی تنصیبات پر حملہ کروایا گیا، کیا راولپنڈی، لاہور،
کراچی، چکدرہ، تیمرگرہ، ملتان، لاہور، فیصل آباد، پشاور، مردان، کوئٹہ،
سرگودھا، میانوالی اور بہت سے مقامات پر فوج نے اپنے ایجنٹس پہلے سے
پھیلائے تھے، کیا فوجیوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے شہدا ء کی قربانیوں کو
جلایا، کیا ہم نے اپنے فوجیوں کے ہاتھوں سے اپنے دفاع پاکستان کی علامات
گروائیں اور جلایا۔ جب جلاؤ گھیراؤ ہو رہا تھا تو ملک میں اور ملک سے باہر
بیٹھ کر نامی اور بے نامی اکاؤنٹس سے کون پرچار کر رہا تھا کہ مزید جلاؤ
گھیراؤ اور قبضہ کرو،کیا یہ فوج کروا رہی تھی، بے شمار ثبوت ہیں، جس سے
ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ اور پروپیگنڈے کے علاوہ ایک خاص سیاسی گروہ اور اس کی
قیادت کے پاس کوئی اور ہتھیار نہیں ہے، یہ بدقسمتی ہے۔پی ڈی ایم کی حکومت
کے ساتھ گٹھ جوڑ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے امریکی سینیٹرز
اور دیگر کے الزامات جیسا بیانیہ ریاست پاکستان کے خلاف پہلے بھی بنایا
جاتا رہا ہے اور اس کی کلیدی آواز باہر سے ہوتی ہے لیکن اس میں بدقستمی سے
ملک میں بیٹھے عناصر اس کو تقویت دیتے ہیں۔
ماضی گواہ ہے کہ یہ عناصر وہ دہشت گرد تنظیمیں ہوتی ہیں جب ان کے خلاف
کارروائی کی جاتی ہے تو انسانی حقوق، جبر اور اقدار کے پیچھے چھپ جاتے ہیں،
اس وقت مختلف طریقوں سے چلایا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر فیک ویڈیوز چلائی
جاتی ہیں، پرانی تصاویر اور ویڈیو ڈالی جاتی ہیں، چیزوں کو جوڑا جاتا ہے
اور غلط بیانات بنائے جاتے ہیں تاکہ تاثر پھیلا جا ئے کہ ریاست پاکستان جبر
کر رہی ہے۔ فیک آڈیوز جلدواضح بھی ہوجاتی ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پوشیدہ
روابط کی بنیاد پر یا پیسے کا استعمال کرتے ہوئے مخصوص لوگوں کو باہر جو
بیٹھے ہیں، ایجنسیز یا این جی اوز کے ذریعے بیانات دلائے جاتے ہیں اور ایک
ماحول بنایا جاتا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی بہت زیادہ خلاف ورزی ہو
رہی ہے۔ تیسرا چہرہ اس سے بھی مکروہ اور زیادہ خطرناک ہے، وہ یہ ہے کہ
دونوں چیزوں کو اکٹھا کرکے بیرون ملک دارالحکومتوں میں اداروں کے پاس جا کر
ایک کیس بنایا جاتا ہے کہ پاکستان کی معاشی اور تجارتی معاونت بند کردیں۔
تاکہ پاکستان میں افراتفری پھیلے، معاشی حالات خراب ہوں اور بے چینی بڑھے،
اس کے اندر سے ان کی سیاست کے لئے راستہ نکلے اور مذموم سیاسی مقاصد اور
اقتدار کی ہوس کے لیے کوئی راستہ ملے لیکن حکومت پاکستان اس سے بخوبی آگاہ
ہے۔ پاکستان میں مقدمہ لڑنے کے بجائے جو باہر جا کر احتجاج کر رہے ہیں ان
ممالک کے ماضی قریب کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں کہ ان جیسے بلوائیوں اور
شرپسندوں سے وہ کس طرح آہنی ہاتھوں سے نمٹے ہیں یہاں تو شہدا کے تقدس کو
پامال کیا گیا، فوجی تنصیبات پر منصوبہ بندی کے تحت حملہ کروایا گیا،
انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا واویلا مچا کر 9 مئی کے سہولت کار چھپ نہیں
سکتے۔ وقت آگیا ہے کہ جھوٹ کی کرنسی ختم کردی جائے اور سچ چاہے کتنا بھی
کڑوا ہو اس کو ہضم کرنے کی اپنے اندر صلاحیت ہو۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے
مطابق 9 مئی کا واقعہ اچانک نہیں ہوا، اس کا مقصد یہ تھا کہ فوجی تنصیبات
پر لوگوں کو بھیج کر حملہ کیا جائے اور فوج کو اشتعال دلا کر فوری ردعمل
دلایا جائے کیونکہ اس سے پہلے کئی مہینوں سے فوج اور فوجی قیادت کے خلاف
لوگوں کی ذہن سازی کی جا رہی تھی ،بھڑکایا جا رہا تھا اور نفرت ڈالی جا رہی
تھی، اس سے جو ردعمل آنا تھا، اس سے اپنے مذموم سیاسی مقاصد مزید آگے لے کر
جانا تھا۔متعدد جگہوں پر خواتین کو بھی منصوبہ بندی کے تحت ڈھال کے طور پر
آگے رکھا گیاا ور یہ کوئی بھی توقع نہیں کرسکتا تھا کہ ایک سیاسی پارٹی
اپنے ہی ملک میں اپنی ہی فوج پر حملہ آور ہوجائے لیکن جب یہ واقعہ ہوا تو
فوج نے اس گھناؤنی سازش کو ناکام بنایا کیونکہ جس طرح کا رد عمل وہ چاہتے
تھے وہ دیا جاتا تو پھر ان کی سازش کامیاب ہوجاتی لیکن اس کو ناکام بنایا
گیا۔ جو گریژنز، فوجی تنصیبات، جناح ہاؤس اور جی ایچ کیو وغیرہ کا تقدس اور
سیکیورٹی میں جہاں کمی ہوئی یا برقرار نہیں رکھ سکے ، اس پر کہیں غیرارادی
کوتاہی یا غفلت ہوئی ہے تو اس کا تعین کیا گیا۔ غفلت اور نقصانات جانچنے کے
لئے فوج کے اندر خود احتسابی کا عمل نافذ ہے، جس کے لئے فوری طور پر دو
ادارہ جاتی انکوائریز میجر جنرل عہدے کے افسران کی سربراہی میں ہوئی، جنہوں
نے تفصیل سے دیکھا ،شفافیت سے مسئلے کو مکمل کیا اور اپنی سفارشات پیش
کیں۔جتنا بڑا عہدہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے اور کسی سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ
محض پروپیگنڈا ہے کیونکہ فوج کے ہر جوان کی اولین اور آخری ترجیح ریاست
پاکستان اور افواج پاکستان ہیں، اس میں کسی کو کوئی ابہام نہیں ہونا
چاہیے۔لوگ اس جھوٹے بیانیے کو پہچان گئے اور جانچ رہے ہیں کہ کیا سچ ہے اور
کیا جھوٹ ہے۔ ماسٹر مائنڈز روز روشن کی طرح سب کے سامنے عیاں ہیں، جن لوگوں
نے یہ واقعات کئے، ان کو سزا ملنی چاہیے اور سزا ملے گی لیکن اس سے زیادہ
اہم ہے کہ قوم کو 9 مئی کے واقعے سے آگے بڑھنا ہے تو یہ جو منصوبہ ساز اور
سہولت کار ہیں ان کو بے نقاب اور کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے۔ سانحہ 9
مئی اس وقت تک انصاف کا منتظر رہے گا جب تک اس کے منصوبہ سازوں اور سہولت
کاروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا، اگر ایسا نہیں ہوتا تو کل کوئی
اور سیاسی گروہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے اس واقعے کو دہرائے گا اور اگر
ایسا نہیں ہوا تو ہر فرد کی جان و مال اور آبرو کے تحفظ پر ایک سوالیہ نشان
رہے گا۔ حکومت پاکستان سنجیدگی سے اس پر غور کر رہی ہے، اخلاقیات، سزا و
جزا کی بھی ضرورت ہے اور اس میں میڈیاکا اہم کردار ہے۔ذمہ دارانہ صحافت کا
اہم کردار ہے۔ سنسنی خیز صحافت کے بجائے معاشرے میں نفرت اور ہیجان انگیزی
کم کی جائے۔ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ اندرونی انتشار سے ہے، اگر ہم نے اس
انتشار کا راستہ نہ روکا تو یہ بیرونی یلغار کا راستہ ہموار کرے گا۔ پاک
فوج چاہتی ہے کہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز آپس میں بیٹھ کر قومی اتفاق رائے
پیدا کریں تاکہ عوام میں اعتماد پیدا ہو، ملک میں معاشی استحکام ہو اور
جمہوری اقدار مزید مضبوط ہوں۔نہ صرف فوج یاکسی ادارے کے لئے بلکہ اہل وطن
کے لئے تمام حقیقی سیاسی جماعتیں بلاتفریق قابل احترام اور مقدم ہیں۔اس لئے
مخاصمت کے بجائے مفاہمت و رواداری کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک
میں سیاسی استحکام پروان چڑھے اورہر کوئی معاشی بہتری میں اپنا کردار ادا
کرے۔ |