رگ رگ میں جمہوریت کا دعویٰ مبالغہ آرائی

وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ امریکہ دورے میں وال اسٹریٹ جرنل کی وائٹ ہاؤس کے لیے مقرر نمائندہ صحافی سبرینہ صدیقی کے ایک سوال نے وزیراعظم کے دورہ پر پانی پھیر دیا اور انہوں نے اس سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا جواب گول مول رہا بلکہ خصوصی بات پر توجہ دینے کے بجائے صرف جمہوریت کی دہائی دینے پرہی مرکوز رہا۔ سبرینہ کا سوال ہندوستان میں پسماندہ اور خصوصی طور پر مسلم اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک کے سلسلے میں تھا۔وزیر اعظم کا جواب عجیب وغریب رہا اور دیگر امور کے درمیان گھوم رہا تھا۔

مودی جی کا یہ کہنا کہ "ملک میں جمہوری نظام قائم ہے، بلکہ ہم اسے جی رہے ہیں اور یہ ہماری رگ رگ اور ڈی این اے میں رچا بسا ہے۔ہندوستان۔کا جمہوری نظام "سب کے ساتھ مساویانہ سلوک ہے، جبکہ 'سب کا ساتھ، سب کا وکاس سور سب کا وشواس' کے اصول پر مبنی ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے ،اس بات کا اندازہ ہوگا کہ ہم مکمل طور پر دستوری لبادے میں ہیں کسی بھی طرح کسی بھی زاویہ سے ان کی باتوں میں سچائی نظر نہیں آتی ہے، ملک کے حالات اور مسلمانوں کے خلاف جو تشدد، دھمکیاں ،تجارتی بائیکاٹ اور فوری نقل مکانی کے جو واقعات روزمرہ کا۔معمول۔بن۔چکے ہیں۔اور روزانہ رونما ہورہے ہیں ان حقائق سے سطح پر چشم پوشی کی جاسکتی ہے۔

یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں جمہوریت خطرے میں ہے، جمہوریت کے تمام ستونوں کو زیر اثر کرنے اور عدالت اور ذرائع ابلاغ کی لگام بندی نمایاں ہیں۔ نا انصافی کے خلاف جن لوگوں نے آوازیں بلند کی ہیں وہ کئی سال سے جیل میں بند ہیں۔ خاص طور سے دو جماعتیں نا انصافی کے خلاف بولنے والے افراد اور اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بلا شک و شبہ امتیازی سلوک سے نبرد آزما ہیں ۔

وزیر اعظم بیرون ملک جمہوریت نواز ہونے کا دعوی کرلیں،ملک میں اب بھی جمہوریت اور سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف ماحول بنایا جارہا ہے۔کشمیر سے کنہیا کماری تک اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کومنصوبہ بند طریقہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے،اتراکھنڈ میں پرولا میں مسلمان دکانداروں کے خلاف انتہاپسندوں کی مہم کے دوران انتظامیہ بے حرکت اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ۔

منی پور میں کی۔مثال نہیں دی جاسکتی ہے ،جہاں تشدد اور خانہ جنگی کا دوسرا مہینہ ہے۔یہاں حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ حکومت کو برطرف کرنے اور صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے،رجیب بات ہے کہ گورنر موصوف آنکھ موندے ہوئے ،لیکن وہیں تمل ناڈو میں گورنر وزراء کو برطرف کرنے کی نیٹ پریکٹس کر رہے ہیں اورمرکزی وزارت داخلہ کو مداخلت کرناپڑی ہے۔یہ بڑی بڑی مثالیں ہیں ،نفرت کا زہر ہر طرف پھیلانے کی کوشش جاری ہے اور برقی میڈیا کا اس میں بڑا رول رہا ہے۔

مہاراشٹر اور خصوصی طور پر ممبئی جیسے کاسموپولیٹن شہر کو فرقہ وارانہ منافرت اور شرانگیزی میں گلے تک ڈوبا دیا گیا ہے،جس میں مرکزی وزیر کے صاحبزادہ نتیش رانے اور ریاستی وزیر منگل پربھات لودھا سب سے آگے دوڑ رہے ہیں،نوی۔ممبئی میں سڈکو کے ذریعہ " ٹاون پلاننگ" کے تحت منظور کردہ مسجد کی تعمیر کے خلاف شرپسند عناصر احتجاج کررہے ہیں ،عیدالاضحی کی آمد آمد پر یہ عناصر سرگرم ہوجاتے ہیں۔ میرا روڈ کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی جہاں ڈھائی سو مسلمان رہائش پذیر ہیں ایک مکین کے دوبکروں کے لانے اور اپنے فلیٹ میں رکھنے پر بیرونی۔لعگوں نے احتجاج کیا اس میں بی جے پی کے ضلع صدراور سکریٹری اور دیگر عہدیدار شامل رہے۔بس مقصد الیکشن جیتنا ہے۔ممبئی میں مسلم اکثریتی علاقے ناگپاڑہ میں ناتھانی ہائٹس نامی رہائشی سوسائٹی میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت رہائش پذیر ہے ،حکومت اور میونسپل کارپوریشن کی تمام ہدایات پر عمل آوری کے باوجود قربانی جیسے فریضہ سے محروم رکھنے کی کوشش کی گئی ،جس میں ریاستی وزیر بھی مبینہ طورپر شامل رہے جوکہ حلف برداری کے وقت یقین دلاتے ہیں کہ " وہ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ۔کریں گے،ان کا تعلق کسی بھی مذہب،فرقہ اور طبقہ" سے ہو۔لیکن وزیر موصوف کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔

مہاراشٹر کے ناسک شہر میں گذشتہ دنوں عید قرباں سے قبل ماب لنچنگ کے دوران ایک مسلم نوجوان کی موت کے معاملے میں ناسک پولیس پرنٹنڈنٹ نے خاطی پولس افسران کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ۳ پولس اہلکاران کو معطل کر دیا جبکہ دو پولس افسران کا تبادلہ کنٹرول روم میں کر دیا ہے،دراصل چند شر پسندوں نے اگت پوری کے قریب تمجیر واڑی پھاٹا پر ایک کار کو روکا، انھیں گاڑی میں ممنوعہ گائے کا گوشت ہونے کا شبہ تھا جس کے بعد انہوں نے گاڑی میں سوار دو افراد پر لوہے کی سلاخوں سے حملہ کیا جس کے سبب ایک نوجوان ہلاک ہوا اور دوسرا زخمی ہو گیا۔ شدید زخمی، متوفی کی شناخت 31 سالہ عفان انصاری کے طور پر کی گئی ہے اور زندہ بچ جانے والا ناصر قریشی (24) مبئی کے کے ای ایم اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔ ان کا تعلق ممبئی کے کرلا علاقے سے ہے۔ابتدائی انکوائری سے پتہ چلا کہ خاطی پولیس عملے نے بروقت کاروائی نہیں کی جسکے نتیجے میں یہ سانحہ پیش آیا۔یہ ایم عام بات ہوچکی ہے کہ پولیس اتنے دباؤ میں ہے کہ وہ کارروائی نہیں کرتی ہے۔یہ صرف مہاراشٹر ،کرناٹک،ایم پی ،گجرات ،یوپی جیسی ریاستوں میں نہیں پیش آرہا ہے بلکہ ہر روز اورہر جگہ امتیازی سلوک عام بات ہوچکی ہے اور بی جے پی ریاستوں میں درپردہ انتظامیہ اور ارباب اقتدار کی مدد رہتی ہے،مذکورہ۔واقعات کے علاؤہ سینکڑوں واقعے ملک بھر میں پیش آئے اور وزیراعظم نریندر مودی ایک دوسرے بڑے جمہوری ملک میں دعویٰ کرتے نظر آرہے ہیں کہ " جمہوریت رگ رگ میں بلکہ ڈی۔این۔اے میں ہے۔" یہ۔مبالغہ آرائی نہیں تو کیا ہے۔

Javed Jamal Uddin
About the Author: Javed Jamal Uddin Read More Articles by Javed Jamal Uddin: 53 Articles with 39938 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.