شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (24ویں قسط )

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے

سوال ۔ لودھی صاحب آپ نے ہمارے قارئین کو 58سال پرانی پاک بھارت کے واقعات سنا کر ہمارے جذبوں کو ایک بار پھر زندہ کردیا ہے ۔یہ بتائیں کہ قصور کے محاذ پر پاک فوج کو کس قدر کامیابی ہوئی اور اس عظیم جنگ میں پاک فوج کے کس افسر اور جوان نے وطن عزیز کا اپنے لہو سے دفاع کیا ہے۔کیا پاک بھارت جنگ لاہور اور قصور تک ہی محدود رہی یا کسی اور محاذ پر بھی پاک فوج اور بھارتی فوج میں پنجہ آزامائی ہوئی ؟

اسلم لودھی ۔ شہزاد صاحب۔دل تو میرا بھی چاہتا تھا کہ پاک فوج کا حصہ ہوکر میں بھی وطن عزیز کا دفاع کروں لیکن اس جنگ میں میری عمر صرف دس سال تھی ۔اس کے باوجود اﷲ تعالی نے مجھے یہ توفیق بخشی کہ میں پاک فوج کے افسروں اورجوانوں کے عظیم کارناموں کو تحریر کی شکل میں لاکر کتابیں لکھوں اور پاک فوج کے شہداء کے کارناموں کو موجودہ اور آنیوالی نسلوں تک پہنچاؤں۔اس حوالے سے میں تقریبا دس کتابیں تحریر کرچکاہوں جس کا براہ راست تعلق پاک فوج کے افسروں اورجوانوں کی شہادتوں اور کارناموں سے ہے۔اﷲ تعالی نے مجھے یہ اعزاز بھی بخشا کہ میں نے پاک فوج کی تاریخ بھی اردو میں مرتب کی اور پاک فضائیہ کی تاریخ بھی لکھی ۔یہ سب میرے رب کا کرم ہے کہ مجھے لکھنے کی توفیق اور ہمت دیتا ہے۔بہرکیف قصور کے محاذ پر شکست کے بعد بھارتی فوج نے راجستھان کے محاذ پر بھی قسمت آزمائی کی ۔لیکن وہاں بھی بھارتی فوج کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

میجر عزیز بھٹی 12 ستمبر 1965ء کو وطن عزیز پر قربا ن ہوگئے ۔اس کے بعد ہم تاریخ وار مختلف محاذوں پر رونما ہونے والے واقعات ضبط تحریرمیں لاتے ہیں ۔13ستمبر تک دشمن کے 70کے قریب جنگی طیارے پاک فضائیہ کے شاہینوں کے مقابلے میں تباہ ہوگئے ۔جبکہوائس آف امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کے فضائی بیڑے نے اب تک بھارت کے ایک سو چالیس طیارے تباہ کردیئے۔جبکہ ریڈیو پاکستان کی جانب سے اعلان ہوا ایک ہفتہ پہلے بھارت نے پاکستان کے خلاف جس جارحیت کا ارتکاب کیا تھا پاک فوج کے جوانوں نے تمام محاذوں پر بھارتی حملے کو کامیابی سے پسپا کردیا ہے۔کھیم کرن قصور سیکٹر میں بھارت کے خاصے علاقے پر پاکستان کا قبضہ ہو چکا ہے۔راجستھان کے علاقے میں بھارت کے ایک ریلوے اسٹیشن مناباؤ پر بھی پاکستانی پرچم لہرا رہا ہے ۔آج پاک فضائیہ نے جموں کے ہوائی اڈہ پر حملہ کرکے بھارت کے چھ ٹرانسپورٹ طیارے تباہ کردیئے۔جبکہ دوسرے علاقوں میں بھارت کے مزید تین طیارے گرا لیے گئے ۔بھارت سیالکوٹ سیکٹر کی شدید لڑائی میں اپنی ایک تہائی بکتر بند فوجی طاقت کو کھو بیٹھا ۔اس محاذ پر اب تک بھارت کے 204ٹینک تباہ کردیئے گئے ۔چونڈہ کا سارا میدان جنگ بھارتی فوجیوں کی نعشوں سے اٹا پڑا ہے ۔رام گڑھ جیسلمیر سیکٹر میں پاکستانی فوجوں نے بھارت کی ایک اور چوکی پر قبضہ کرلیا یہ چوکی بھارتی علاقے کے کافی اندر واقع تھی ۔

آج ہی کے دن قومی اخبارت میں پاک فوج کے سپاہی کی بیوی کا ایک خط بھی شائع ہوا جس کی عبارت یہ تھی -:میں ایک مجاہد کی بیوی ہوں ، تین چار روز سے بیمار ہوں لیکن نقاہت اور کمزوری کے باوجوددل میں جذبہ حب الوطنی بڑھتا جا رہا ہے ۔یہ وہ جذبہ ہے جسے جتنا دابؤ اتنا ہی بڑھتا جارہا ہے ۔اخبار میں پڑھا کہ لاہور میں ایک سو خواتین جہاد میں حصہ لینے کے لیے تیار ہوئی ہیں ۔ مرحبا میری جانباز بہنو ۔ خدا تمہارے عزم اور حوصلے کی لاج رکھے ۔تمہارے عزم کو دیکھ کر میرے دل کی چنگاری نے شعلے کی صورت اختیار کرلی ہے ۔اب میں بھی سو رہی ہوں کہ کس طرح اپنی مجاہد بہنوں کی صف میں شریک ہوکر جہاد میں حصہ لوں اور فوجی تربیت حاصل کروں ۔مجھے معلوم ہے کہ میری طرح اور بھی کئی بہنیں ہونگی جو اپنے محبوب شوہروں اور بھائیوں کے قدم بقدم میدان کارزار میں دشمن کے ساتھ فیصلہ کن جنگ لڑنے کی آرزو رکھتی ہیں ۔دشمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں امت رسول ﷺ آباد ہے اور یہ وہ بہادراور غیور قوم ہے جس کی ہر ماں اپنے بیٹے کو جنم دے کر اﷲ کی راہ میں کٹ مرنے کی دعا کرتی ہے ۔ہمیں موت سے ڈر نہیں لگتا ۔یہ وہ جام ہے جسے پی کر نئی زندگی حاصل ہوتی ہے ۔میری بہادر بہنو۔اپنے حوصلہ کرو اور اپنے شوہر وں کو جہاد پر جاتے وقت آنسو نکال کر مت دکھاؤبلکہ تم خود اپنے پیارے وطن پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔اے میرے پیارے اﷲ پاک فوج کو اتنی ہمت دے کہ ظالم دشمن کا منہ توڑ دے اور اسے ہمیشہ کے لیے غرق کردے ۔مجھے یقین ہے کہ ان شا اﷲ فتح ہماری ہوگی ۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر اوتھان راولپنڈی میں پاکستانی حکمرانوں سے بات چیت کے بعد دہلی روانہ ہوگئے -ان کا یہ دورہ جنگ بندی کے حوالے سے دونوں ملکوں کا موقف جاننا تھا ۔امریکہ جس کے ساتھ پاکستان کا دفاعی معاہدہ تھا, اس نے مشکل وقت میں امریکی امداد نہ صرف بند کردی بلکہ بھارت کو چین کے مقابلے کے لیے تیار کرنے کے بہانے اپنے جدید ترین ہتھیار وں کی بڑی کھیپ فراہم کرکے پاکستان کی کمرمیں چھرا گھونپ دیا ۔ ان مشکل ترین حالات میں چین , انڈونیشیا ،ایران اور ترکی نے کھل کر پاکستان کی مدد کی اور جو کچھ ان سے ہوسکتا تھا ،وہ انہوں کر دکھا یا ۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق انڈونیشیا کی حکومت نے ایک بار پھر ببانگ دھل پاکستان کی حمایت کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ انڈونیشی سفیر نے پاکستان کی عملی امداد کے لیے دس لاکھ رضاکار بھیجنے کا اعلان بھی کردیا ۔ایران کے روحانی پیشوا علامہ محمد صادق الرحمن نے بھی بھارتی جارحیت کی مذمت کی اور ایران کے علماو مشائخ کی طرف سے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ۔بلکہ ایران کے وزیر اعظم آقائے امیر عباس ہویدا اور ترکی کے وزیرخارجہ مسٹر حسن اسحاق نے راولپنڈی پہنچ کر پاکستان کی امداد کے بارے میں گفتگو شروع کی ۔انڈونیشیا کے صدر احمد سائیکارنو نے تمام اسلامی ممالک سے اپیل کی کہ پاکستان کی اخلاقی اور مادی حمایت کریں۔سعودی عرب کی جانب سے حمایت کا اعلان کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا ۔ اس وقت ایک ہی نعرہ لگایا جاتا تھا کہ زندہ باد اے چین و انڈونیشیا ۔برطانوی اخبار سنڈے ٹیلی گراف نے اپنی اشاعت میں لکھا کہ اس جنگ میں پاکستان کی فتح صاف نظر آرہی ہے ۔پاکستان کی فوج عددی اعتبار سے بیشک کم ہے لیکن جس پامردی ، شجاعت ،عزم صمیم حوصلے اور بردباری کا ثبوت پاکستانی فوج نے میدان جنگ میں دیا ہے وہ اس کی برتری کا کھلا ثبوت ہے ۔

صدر پاکستان کی جانب سے دفاعی فنڈ کا قیام
14ستمبر 1965ء کو صدر پاکستان نے جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک دفاعی فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا۔جہاں عوام اپنی فوج کے شانہ بشانہ دشمن کے خلاف برسرپیکارتھے ۔وہاں انہوں نے دفاعی فنڈ میں عطیات جمع کرانے کے لیے بھی ایک مثال قائم کردی ۔ادویات ، کپڑے ، سگریٹ ، کھانے پینے کی اشیاء ،نقد رقم غرض کہ جس سے جو بن پڑتا وہ اپنے فوجیوں کے لیے بھائیوں کے لیے کررہا تھا ۔مرد تو مرد درکنار عورتین اور بچے بھی مجاہدین کے لیے خون دینے اور دیگر اشیاء ضرورت پیش کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے ۔کمسن بچے اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ وہ زخمی مجاہدین کے لیے خون کا عطیہ دینگے ۔عمررسیدہ لوگ اور وعورتیں بھی خون کے عطیات دینے کے لیے ہسپتالوں کا رخ کررہی تھیں ۔جب ڈاکٹر ضعیف العمری کے باعث ان کا خون لینے سے انکار کردیتے تو وہ بہت مایوس ہوکر گھر لوٹتے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت ایک ٹیڈی پیسہ ایک ٹینک کا نعرہ ہر گلی کوچے میں سنا اور سنایا جارہا تھا اور جگہ جگہ پر دفاعی فنڈ کے بڑے بڑے غلے رکھ دیئے گئے۔ جس میں ہر امیر اور غریب افراد نے بھرپور حصہ ڈال کر ثابت کردیا کہ وہ بھی اس عظیم جنگ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔کئی عورتوں نے اپنے زیورات بھی دفاعی فنڈ میں ڈال دیئے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ تاجروں نے بھی منافع خوری سے ہرممکن ہاتھ کھینچے رکھا اور ہر چیزاپنی اصل قیمت پر ہی فروخت کی جاتی رہی ۔اس کے ساتھ ساتھ عورتوں اور مردوں نے زخمی فوجیوں کے لیے اپنے خون کے عطیات دل کھول کر دیئے ۔جن غریبوں نے پیسہ پیسہ جمع کر کے حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے پیسے جمع کررکھے تھے انہوں نے بھی اپنی رقم قومی دفوعی فنڈ میں جمع کروا دی ۔ان کے نزدیک جہاد میں مال سے حصہ لینا اور مسلمانوں کی سرزمین کے دفاع کو مضبوط بنانا بھی حج کی طرح ثواب عظیم کا کام ہے ۔زخمی مجاہدین کے لیے خون کے عطیات اتنے جمع ہوچکے تھے کہ انہیں ہسپتال میں رکھنے کی جگہ کم ہوگئی تھی ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی قوم کی حب الوطنی ،جذبہ ایثار اور ایمان محکم کی نت نئی اور حیران کن مثالیں سامنے آرہی تھیں۔

صدر پاکستا ن محمد ایوب خان نے ملکی اور غیر ملکی اخبار ی نمائندوں کی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔پاکستان اس وقت زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے اور اپنی حفاظت کے لیے یہ جنگ آخری وقت تک اور ہر قیمت پر جاری رکھی جائے گی اور پاکستان کی مقدس سرزمین کے چپہ چپہ کی حفاظت کی جائے گی ۔پاکستان جنگ بندی کے لیے تیا ر ہے لیکن یہ جنگ بند ی ایک آبرومندانہ اور بامقصد سمجھوتہ کی بنیاد پر ہونی چاہیئے جس کا مقصد یہ ہو کہ کشمیر کا تنازعہ مستقل طور پر طے ہوجائے تاکہ جنگ بندی کو بعد میں مزید جارحانہ کارروائی کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے ۔جنگ بندی صرف ان تین نکات کی بنیاد پر ہوسکتی ہے ۔جنگ بندی کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے علاقے سے بھارت اور پاکستان کی فوجیں واپس بلا لی جائیں ۔ان کی جگہ افریشیائی ممالک کے دستوں پر مشتمل فوج اقوام متحدہ کی نگرانی میں متعین کی جائے جو ریاست کی سلامتی کا تحفظ کرے اور جنگ بندی کے بعد تین ماہ کے اندراس عالمی فوج کی نگرانی میں کشمیر میں استصواب رائے کرایا جائے ۔
( جاری ہے)

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.