دہشت گردی

اگر چہ کی روٹی ،مگرچہ کی دال ، چنانچہ کی چٹنی

آج میں بھی بولوں گا

صرف یہ نہ کہ دہشت گردی اور دہشت گردانہ حملے کوئی تین چار سال قبل باشندگان ِ ہند کا موضوع ِ گفتگو تھا ، بلکہ گاہِ بہ گاہِ اب بھی ہوجاتاہے ۔ وقفہ وقفہ سے کوئی نہ کوئی شہر لرز اٹھتا ہے ،جس سے بالعموم اہل ہند اور بالخصوص مسلمانانِ ہند کے دل دہل اٹھتے ہیں کہیں کہ اس مرتبہ بھی شک کی سوئی ان کی طرف ہی نہ گھمادی جائے ۔ واقعی فرقہ پرست عناصر دھماکے کرکے آگ و خون کی ہولی کھیلتے ہیں ، معصوم و بے گناہوں کے خون سے اپنے مسخ زدہ اورقہر آلود حلق کو ترکرتے ہیں ، مگر بلی کا بکرہ بنتے ہیں تو بیچارے مسلمان !! ان کی طرف ہی ترچھی نگاہیں اٹھتی ہیں ، مسلم نوجوانوں کو ہی ٹار چر کیا جاتاہے ، انہیں ہی حوالہ زنداں کیا جاتاہے ۔

ملک کی تفتیشی ایجنسیاں جانبداری کے سہارے تفتیش کرتی ہیں ، باوجود اس کے ہندونواز فرقہ پرست تنظیموں کے تار بہت سے دھماکے سے جڑے نظرآتے ہیں ، اسی کو توکہتے نا”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“سے کہیں بڑھ کر ہے ،”اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں“ ۔ درگاہ اجمیر ، سمجھوتہ ایکسپریس اور حیدر آباد بم دھماکہ میں بقول اسیمانند ہندونواز تنظیموں اورافراد کے دماغ نے کا م کئے ہیں ۔ ان ہی کے کرتوت سے ان مقامات پر بے شمار افراد نے ا پنی اپنی جاںجاں آفریں کو سپرد کردی۔ بہت سے سہاگ لٹ گئے ، معصوم کلیوں کی سانس کی ڈورٹوٹ گئی۔بے گناہ ملزم عبدالکریم شیخ کے حسن سلوک سے نرم ہوکر اسیم آنند نے ضابطہ فوجداری کے تحت دہلی کے جو ڈیشنل مجسٹریٹ کے سامنے اس حقیقت کا اعتراف کیا۔ ہندونواز تنظیموں کے دھماکوں میں کیا کردا ر ہوتے ہیں ، وہ کیسے ماسٹر مائنڈ کا فریضہ انجام دیتی ہیں ،اس کے لئے پرگیہ سنگھ اوراسیم آنند وغیرہ ایک زندہ مثال ہے ۔

13ستمبر 2011کو منظرعام پرآئی خبر کے آئینہ میں بھی ہندونواز دہشت پسندوں کے چہرے ابھرنے لگے ہیں ، مرکزی سراغ رساں ایجنسی این آئی اے جو مالیگاؤں بم دھماکہ کی تفتیش کررہی ہے ، نے یہ انکشاف کیا ہے کہ شب برات میں مالیگاؤں کے بڑے قبروستان حمیدیہ مسجد اورمشاورت چوک پر نہتے مسلمان جو دھماکے کے نذر ہوگئے ، اس میں بھی ہندونوازوں کی حرکت ہوسکتی ہے ۔اس دھماکہ میں جو 9مسلم نوجوان حوالہ زنداں ہیں ،وہ بے گناہ ہیں ۔ وہ بے قصور ہیں ، ان کا دامن صاف وشفاف ہے ، ان کا چہرہ اس طرح روشن اورمنور جیسے چودھویں کا چاند۔ حتی کہ سی بی آئی نے اپنے سابقہ تما م روش سے قطع نظراین آئی اے کو مکتوب ارسال کیا کہ اس دھماکہ میں ہندونواز تنظیموں کے ہاتھ ہوسکتے ہیں ، لہذا ان کی طرف سخت تفتیشی قدم اٹھا یا جائے ۔ ابھی دہلی کے ہائی کورٹ کے سامنے دھماکہ ہوا ، فی الفور ایک ای -میل کی بنیاد پر حوجی سے اس کو منسوب کردیا گیا ، مگر حقیقت سامنے آئی تو تھا ایک ہندو نوجوان سونو اوجھا ،جس نے کولکاتا سے ای میل کرکے حوجی سے اپنے کو منسوب کیا ، جسے ہندو ہونے کی وجہ سے اب بری بھی قراردیا جاچکاہے ۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کب تلک دہشت گردی کاسلسلہ یوں ہی دراز ہوتا رہے گا ؟ ہرحساس مقام پر تفتیش کے باوجود فرقہ پرست عناصر اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے رہیں گے اور سراغ رساں ایجنسیاں جانبداری کا کھیل کھیلتی رہے گی ؟ کیوں نہیں انصاف پسندی اورعدل گستری کے سایہ تفتیش ہوتی ہے ؟ کیوں مجرم کیفرکردار تک نہیںپہونچ پاتے ہیں ؟ان سوالات یا ایسے لاتعداد سوالوں کا واحد جواب ہے حکومت کی بے بسی یا جانبداری ۔ انیس نامی بے گناہ کو جیل کی صعوبتوں میں جکڑ دیا جاتاہے ، منیش نامی گنہگار کو چھوڑدیا جاتاہے ۔ منیش کے تئیں برتی گئیں نرمی کا فائدہ اٹھاکر اوربھی ہندونواز تنظیمیں سرگرم عمل ہوجاتی ہیں ، حکومت کی تمامتر پالیسی کے مدنظر یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ، حکومتی ایوان میں دادعیش دینے والے ہی مجرم ، حکومتی باگ ڈور سنبھالنے والے ہی خاطی ، حکومت کے سیاہ و سفید کے مالکان ہی بے رحم اوربدعنوان ، ملک کے بظاہر اہل وفا ہی غدار و باغی ، ملک کو مستحکم کرنے کا ڈھونگ رچانے والے ہی عیار اورملک دشمن ۔ ذرا سوچئے ! کیا اس طرح ملک کا بھلا ہوگا ؟ کیا کبھی آستین کے سانپ سے کسی کا بھلا ہوا ہے ؟۔

دیر آیددرست آید کے مانند ہی سہی خدا کا شکر ہے کہ ہندو نوازوں کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے نے ان فرقہ پرستوں کو منہ کھانے پر مجبور کردیا جو بڑے شد ومد سے بولتے تھے ،”اگرچہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ، مگر سارے دہشت گرد مسلمان ہی ہیں ، چنانچہ ان پر کڑی نگاہ رکھی جائے “لیکن یہی افراد نظرے جھکائے اورپیشانی پر پسینہ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ۔ واقعی دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ، کا ش یہ حقیقت ہمارے برادران وطن کے دلوں اور انتظامیہ کے رگ وپے میں پیوست ہوجائے ۔ فی الواقع دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ارباب سیاست ، سراغ رساں ایجنسیاں اور پولس ودیگر اعلٰی حکام کو ”اگرچہ کی روٹی ، مگرچہ کی دال ، چنانچہ کی چٹنی “سے پرہیز کرناہوگا ۔ یہ بات تو ضرور ہے کہ اگرچہ روٹی ، مگرچہ کی دال اورچنانچہ کی چٹنی بڑے مزے دار ہوتی ہے ۔ یہ یاد رکھیں کہ اس کا مزہ ملکی انتظام وانصرام کے لئے ”سم قاتل “ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسی مزیدار کھانے سے دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے ۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ارباب سیاست کو یہ کڑوا گھونٹ ”دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں“صدق دل پینا ہی پڑے گا ۔ ہمارے حکام نے اگراس کا پیالہ اپنے ہوٹنوں پر رکھ لیا ہوتا تو قطعاً مالیگاؤں اوردیگر دھماکوں میں شک کی بنیادپربے گناہ مسلم نوجوان قید وبند کی صعوبتیں نہ جھیلتے ، عاطف و ساجد کا یہ حشر نہ ہوتا ، مفتی ابوالبشر ناکردہ گناہوں کی سزا نہ بھگتتے ، مسلم نوجوانوں کے لئے تعلیم کی راہیں اس درجہ مسدود نہیں ہو تیں ، ان بے گناہوں کے والدین پیکر فکر والم نہیں بنتے ۔

ملک کا سیکورٹی ڈھانچہ کس قدر مضمحل ہے اس کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے دھماکہ کا اشارہ پہلے ہی کردیا جاتاہے ۔ دہلی ہائی کورٹ دھماکہ کے بعد دہشت پسندوں نے 9\11کے طرز پر ممبئی اور دہلی میں دھماکہ کا عندیہ ظاہر کردیا ہے ۔ اسی خفیہ اطلاعات کے مدنظر آئی بی نے الرٹ جاری کردیاہے، جس کے مطابق مہاراشٹر ، گجرات اورملک کے مختلف علاقوں کو حسا س رہنا ہے ۔ اسی کے ساتھ آئی بی نے ان کمپنی مالکان کو چوکنا رہنے کی تلقین کی جو اپنی کمپنیاں کرایہ پر لگاتے ہیں ۔ آئی بی نے یہ بھی کہا ہے کہ دہشت گردوں کی 3امبیسڈر کار راجستھان سے گجرات کی سرحد میں داخل ہوئی ہیں ۔ ممبئی میں اس انکشاف کے تناظر میں سیکورٹی نظام کے مدنظر مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم، مہاراشٹر کے وزیراعلٰی اور پولس کمشنر نے مشترکہ طور پر گفت و شنید کی ہے اورسیکوریٹی نظام کا جائزہ بھی لیا ہے ۔

اس طرح دہشت گردوں کی جانب سے دھمکی آمیز ای میل یا خط کا موصول ہوناحکومت کی پشت پنا ہی کا ہی نتیجہ ہے ، کیونکہ اگر سیکورٹی نظام مستحکم ہوتا اور انصاف پسندی کے سایہ تفتیش ہوتی تو قطعاً اس طرح سے دھمکی آمیز پیغام بھیجنا اچھے اچھوں کے بس میں نہیں ہوتا ۔ اگران مقامات پر جہاں پر دھماکہ کے لئے منصوبہ بنایاجارہاہے ، آئندہ دنوں میں دھماکے ہوجائےں تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت کی ہوگی ۔ کیونکہ اسے سیکورٹی نظام کو اس طرح منظم ومستحکم کرنی چاہئے کہ شہ زور اورفرقہ پرست بنانگ دہل دھماکوں کا اعلان توکجا چوری چھپے بھی اس تعلق سے کوئی بات نہ کرسکےں ۔ ان کااس طرح جڑی ہونا بہت سے سوالات اٹھاتے ہیں ۔ حدتویہ ہے کہ آئی بی اس سے واقف ہے کہ دہشت گردوں کی 3امبیسڈر کار راجستھان سے گجرات آئی ہے ،مگر ان دہشت گردوں کی گرفتاری نہیں ہوسکی ۔ اگر آئی بی اس حقیقت سے بے اعتنائی کا مظاہرہ کرے یا اس پرلیپاپوتی کرے تو ملک کا بس اللہ حافظ !
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100800 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More