امریکہ کی طرف سے پاکستان پر پے
درپے الزامات کا ایک اور پنڈورا بکس کھول دیا گیا ہے ، ڈرانے دھمکانے کا
نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اعلیٰ امریکی عہدیداروں نے ایکا کر کے اپنی
توپوں کا رخ پاکستان کی جانب موڑ لیا ہے جب کہ پاکستانی عوام کی بدقسمتی
اور بد بختی کہ اس کی قیادت تو عملی طور پر اپنا ناطہ اور تعلق اس ملک سے
توڑ کر دشمن کو اپنا دوست تصور کر کے اس کی صفوں میں شامل ہوچکی ہے اور
مملکت کے اٹھارہ کروڑ عوام کو نہ جانے کس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا
ہے۔ریڈیو پاکستان کو انٹرویو دیتے ہوئے اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر
کیمرون منٹر نے کہا ہے کہ سراج الدین حقانی گروپ اور پاکستانی حکومت میں
مضبوط تعلق ہے اسلام آباد اس طرح کی پالیسی ختم کرے اور یہ سلسلہ بند ہونا
چاہیے ، منٹر نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہے
ہیں۔ادھر وائٹ ہاﺅس کے سینئر مشیر برائے انسداد دہشت گردی جان برینن
اورامریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونز نے بھی اس نئی مہم میں اپنا حصہ
ڈالتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہم کہیں بھی کارروائی کا حق محفوظ
رکھتے ہیں اور اب پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات آسان نہیں رہے کیونکہ اسلام
آباد نے حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے امریکی مطالبات کو نظر انداز کیا
ہے،اس سے چند روز پیشتر ہی امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا نے کابل میں طالبان
کے حالیہ حملے میں حقانی نیٹ ورک کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پاکستان کو خبر
دار کیا ہے کہ وہ اس گروپ کے خلاف کاروائی نہیں کر رہا اور اب امریکہ خود
حقانی گروپ کے خلاف کاروائی کر ے گا ، دریں اثناءامریکی سفیر ریان سی کروکر
نے بھی پاکستان کو کھلی دھمکی دینے کا انداز اپناتے ہوئے کہا کہ کابل میں
ناٹو ہیڈ کوارٹر پر حملے کرنے والے ماسٹر مائنڈ پاکستان میں چھپے بیٹھے ہیں
اور القاعدہ راہنماءایمن الظواہری کاجو حالیہ پیغام نشر ہوا ہے اس میں وہ
مواد استعمال کیا گیاجو ایبٹ آباد میں اسامہ کی پناہ گاہ پر چھاپے کے دوران
پکڑا گیا۔ اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے ان بیانات کے سامنے آنے کے بعد حالات
کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہماری قیادت کی آنکھیں کھل جانی چاہییں اور اب انہیں
امریکی عزائم کا علم ہو جانا چاہیے مگر ابھی تک کہیں سے بھی ان امریکی
دھمکیوں کا ہلکا سا جواب تک نہیں آرہا ۔ ان نئے بیانات سے امریکہ کی حواس
باختگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اب افغان طالبان سے بری طرح سے
مات کھانے کے بعد سارا غصہ پاکستان پر نکالنا چاہ رہا ہے اور افغان دھرتی
سے رسوا ءہو کر جانے سے پہلے پہلے وطن عزیز کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل
دینا چاہتا ہے اور بعینہ ہی ویت نام میں اپنی شکست کا بدلہ کمبوڈیا سے لینے
کی تاریخ دہرا نے کی خطرناک تیاری کی جار ہی ہے۔ چند روز قبل کابل میں
طالبان نے ناٹو ہیڈ کوارٹر اور امریکی سفارتخانے کے قریب حملہ کیا جس میں
بے شمار غیر ملکی مارگئے اگر چہ امریکہ نے چند ہی ہلاکتوں کااعتراف کیا،
امریکہ ان حملوں سے اس حد تک بوکھلا گیا کہ اب اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ
اس صورتحال میں کیا کرے اور کس طرح کے رد عمل کا اظہار کرے ۔اس کے سفیر اور
وزارت دفاع ، وزارت خارجہ کے سنیئر لوگ کھلم کھلا دھمکیوں پر اتر آئے اور
غیر سفارتی زبان استعمال کر نے لگے حالانکہ اس طرح کی زبان استعمال کرنے
اور کسی بھی آزاد ملک کو دھمکیاں دینا عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے جو
ہماری قیادت کی نااہلی اور کمزوری کو ظاہر کرتی ہے ۔ پاکستان میں ہر روز
ڈرونز حملے ہو رہے ہیں اور بم حملوں میں ہزاروں لوگ مارے جا رہے ہیں جن سے
واضح اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ان حملوں کی پشت پناہی امریکہ اور اس کے
اتحادی کررہے ہیں لیکن کیا پاکستانی عہدیداروں نے بھی کبھی جرات اور حب
الوطنی کامظاہر ہ کر کے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا
ہے جس طرح سے امریکہ مسلسل کر تا آرہاہے اور وہ دنیا میں کہیں بھی
رونماءہونے والے واقعے کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر اس پر چڑھ دوڑتا ہے
، اب دیکھیں کہ امریکہ کے وزیر برائے انٹیلی جنس مائیکل ورکر نے کہا ہے کہ
پاکستان کے قبائلی علاقے پوری دنیا کے لیے خطرناک ہیں جہاں دہشت گرد گروپس
اپنے ٹھکانے مضبوط کر رہے ہیں۔ ان حالات کے رونما ہونے کے بعد کم از کم
پاکستان کی قیادت کو واضح طور پر اب تو امریکہ کو کہہ دینا چاہیے کہ وہ
پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے اور پاکستان ہر طرح سے
اپنے دفاع کا پورا پورا حق رکھتا ہے ، کسی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی ہونی
چاہیے یا نہیں ؟ کون سا گروپ پاکستان کے لیے خطرناک ہے اس کا فیصلہ صرف اور
صرف پاکستانی اداروں کو خود ہی کرنا ہے ۔ اب تو بعض حلقے یہ بھی خدشہ ظاہر
کرنے لگے ہیں کہ حقانی گروپ محض امریکی اختراع ہے جس کا سہار ا لے کر وہ
پاکستان کو وفتا فوقتا آنکھیں دکھا تا رہتا ہے اور پاکستان پر دباﺅ ڈالنے
کے لیے استعمال کر تا ہے ، امریکی وزیر دفاع نے دوٹوک الفاظ میں ہمیں دھمکی
دی ہے کہ اگر پاکستان نے اس گروپ کے خلاف کاروائی نہ کی تو ہم اپنی فورسز
کے دفاع کے لیے بھر پور قدم اٹھائیں گے اور پاکستان کی سرحدوں میں مداخلت
سے بھی باز نہیں آئیں گے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان
کی پوری قیادت کو جواباً ایسے ہی اعلان کرنے چاہئیں کہ ہم بھی اپنے شہریوں
کے دفاع کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے جو اس وطن کی حدود میں بس
رہے ہیں اور آئندہ اس دھرتی کی جانب بڑھنے والا کوئی بھی ڈرون مار گرا دیا
جائے گا ، پاکستانی فوج بہر صورت اس دھرتی کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اور یہ
ذمہ داری پور ی کرنے کی خاطر ہمیں کسی بھی ملک سے سر ٹیفکیٹ لینے کی کوئی
ضرورت نہیں ہے کیونکہ وطن عزیز کے کروڑوں عوام کی دل کی آواز ہے کہ اب
امریکہ اور اس کے اتحادی کو آنکھیں دکھادی جائیں اور امریکی تسلط سے آزادی
کا اہم قدم اٹھاکر اس پاک امریکہ ”بازاری دوستی“ سے خلاصی حاصل کی جائے۔
ہماری بقاءاسی میں ہے کہ اس نام نہاد جنگ سے خود کو الگ کر نے کی پالیسی
وضع کی جائے اور اس میں اپنے ملک اور قوم کی حفاظت کو ترجیحی بنیادوں پر
رکھا جائے اور آئے روز کے حملہ آور ڈرونز اور اتحادی افواج کو منہ توڑ جواب
دیا جائے۔ امریکہ کی اعلیٰ قیادت اور امریکی سفیر ریان سی کرو اور کیمرون
منٹر کی دھمکی کا بھی جواب آنا چاہیے اور انہیں سفارتی حدودو قیود کا پابند
بنایا جائے اور ہمیں واشنگٹن پر واضح کر دینا چاہیے کہ وہ ایسے سفیر
پاکستان میں تعینات نہ کرے جو خطے میں اپنی چودھراہٹ کے خواب دیکھتے پھریں
اور وطن کے شہریوں کے لیے د ل آزاری کا باعث بنیں،اب تو نوبت بایں جا رسید
کہ ادھر امریکہ کہتا ہے کہ مزید تعاون کیا جائے اور ادھر ہم اس کی ہاں میں
ہاں ملانے میں ذرا بھی دیر یا کوتاہی برداشت نہیں کرتے اور ہماری وزارت
خارجہ کے رٹے رٹائے بیانات آ تے ہیں کہ جی ہاں! اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ
مرتے دم تک دیا جا تا رہے گا ، یہ آخر کس طرح کی پالیسی ہے جسے جاری رکھ کر
ہم اپنے ہی پاﺅں پر کلھاڑی کے وار کررہے ہیں اوراپنے ہی گھر کو آگ لگار ہے
ہیں ۔ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو اس جنگ میں اپنے پانچ ہزار فوجی
جوانوں سمیت تیس ہزار عام شہریوں کی قربانی دے کر آخر کیا ملا ؟ کیا اس بات
کا جواب سابقہ یا موجودہ قیادت دے سکے گی ؟امریکہ آج بھی ہمیں للکا ر رہا
ہے اور مزید تعاون کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں اور ہم سر جھکائے ان احکامات
کی تعمیل میں لگے ہوئے ہیں ۔ یہ ایک کڑوی اور تلخ حقیقت ہے کہ اگر بہت جلد
ہم نے غلامی کی اس عباءکو اتار نہ پھینکا تو من حیث القوم ہمارا انجام بہت
ہی عبرت ناک ہونے والا ہے |