معاشرے میں طلاق کا بڑھتا ہوا رحجان


پاکستانی معاشرے میں طلاق کا لفظ کسی گالی سے کم نہیں ہے۔ یہ لفظ ہمارے معاشرے میں کسی لڑکی کے خاندان اور متاثرہ لڑکی کے لئے وبال جان بن جاتا ہے کیونکہ ہمارے یہاں عموما عورت کو ہی طلاق کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ نا جانے لوگ کب سمجھیں گے کہ عورت انسانیت کی معمار ہے۔ اسلام نے عورت کو ہر رشتہ میں معزز مقام عطا کیا ہے، چاہے وہ رشتہ ماں کی صور ت میں ہو یا بیٹی کی، بہن کی شکل میں ہو یا بیوی کی، کوئی بھی رشتہ ہو، مرد کا تحفظ عورت کو حاصل ہوتا ہے اور ہرحالت میں ہوتا ہے۔ کنواری ہو یا شادی شدہ، طلاق یافتہ ہویا بیوہ۔ مگر معاشرتی رویوں کا شکار صرف عورت ہی کیوں؟ اس وقت پاکستان میں طلاق کی شرح میں افسوس ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ صرف سٹی کورٹ کراچی میں اس سال تقریبا پندرہ ہزار سے زائد طلاق کے کیسز دائر کیے گئے. کچھ ماہرین کے خیال میں معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت کا رویہ اس کا ذمہ دار ہے۔ پچھلے چند سالوں میں ہمارے معاشرے میں ایسی کونسی تبدیلی آئی، جس نے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا۔

کسی بھی معاشرے کا خاندانی نظام ہی اس کی بنیادی اکائی ہوا کرتا ہے۔ خاندانی نظام کی مضبوطی ہی معاشرے کی کامیابی کی ضامن ہے۔ مضبوط خاندانی نظام ہی نسل انسانی کی بقا، بچوں کی نشوونما، پرورش اور درست سمت میں تربیت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ناکام شادی صرف دو افراد کے درمیان علیحدگی کا ہی نام نہیں بلکہ یہ یہ اس گھرانے کی آنے والی نسلوں پر بری طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں رشتوں کی بنیاد کس چیز پر رکھی جاتی ہے۔ والدین کیوں اپنے بچوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں؟ یقینا تمام والدین کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ان کے بچے ازدواجی زندگی میں عملی قدم رکھ سکیں۔ لیکن ہوتا کیا ہے ؟ آپ نے بھی اکثر ماؤں کو کہتے سنا ہو گا کہ میں اپنے لڑکے یا لڑکی کی شادی اتنے اونچے خاندان میں کروں گی کہ دنیا دیکھتی رہ جائےگی۔ بہو اتنی خوبصورت لانی ہے کہ دنیا دیکھتی رہ جائے۔ شادی کے انتظامات اور دھوم دھام ایسی ہونی چاہیے کہ دنیا دیکھتی رہ جائے۔ لیکن دنیا واہ واہ پھر بھی نہیں کرتی۔ تنقید کرنے والے ہر حال میں تنقید ہی کریں گے۔ جب آپ کی بنیادی سوچ اور آپ کی ترجیحات صرف دنیا کو دکھانا اور خوش کرنا ہی ہے تو پھر باقی تمام پہلو پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔

لڑکے کا انتخاب کرتے ہوئے سب سے بنیادی چیز اس کا کردار ہے، جسے مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ لیکن ہمارے یہاں کردار کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا بلکہ لڑکے کی دولت دیکھی جاتی ہے۔ لڑکی کو اس کی سیرت یا خوبیوں کی بناء پر منتخب کرنے کے بجائے صرف ظاہری خوبصورتی کو ہی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ظاہری خوبصورتی یا دولت ہمیشگی والی چیزیں ہرگز نہیں ہیں۔ تمام والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بیٹے یا بیٹی کے جیون ساتھی میں لازمی طور پر وہ 'اخلاقی اقدار‘ موجود ہوں، جن 'اخلاقی اقدار‘ کے ساتھ انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش کی ہے۔ رشتے طے کرتے ہوئے جب مطابقت اور ہم آہنگی کو ہی پس پشت ڈال دیا جائے تو نتیجہ پھر طلاق کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر دنیا دکھلاوے کے لیے سمجھوتے والی گھٹن زدہ زندگی کی صورت ہی باقی بچتی ہے۔ پاکستان میں بالعموم اور ہماری برادری میں بلخصوص ساس نندوں کی شکایات کے تڑکے کے ساتھ شوہر کو قابو کرنے کی حکمت عملی پر بھی غور وغوض کیا جاتا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ سب سے گھمبیر ترین مسئلہ، ساس کے اعلی حکومتی انتظامی اختیارات سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی بھی پوری دلجمعی سے کی جاتی ہے۔ ان محفلوں میں شادی شدہ خواتین کے درمیان ہتھیاروں کے تبادلے کے معاہدے بھی طے کر لیے جاتے ہیں. شادی ہمارے معاشرے میں ایک پوری سائنس ہے، جس کے ذریعے علاج معالجے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔

طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں ایک یہ سوچ بھی کارفرما ہے کہ اگر کسی کا بیٹا یا بیٹی کسی طرح کے ذہنی انتشار کا شکار ہے تو بڑے آرام سے اُنہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ 'ارے اس کی شادی کر دو سب ٹھک ہو جائے گا'۔ کوئی لڑکا اگر غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کر رہا ہے تو اس کا علاج بھی شادی میں ڈھونڈا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک لڑکی کی زندگی کا مقصد صرف شادی کو ہی بنا دیا جاتا ہے۔ بچپن سے لے کر شادی کی عمر تک ماں باپ اس کی شادی کے لیے چیزیں بنانا شروع کر دیتے ہین جس کی وجہ سے شادی کو ایک سرمایہ کاری کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ گھر والے شادی پر پیسے خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد اگر لڑکی طلاق لے کر گھر واپس آجائے تو عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ سارا پیسہ بھی ضائع گیا۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق کوئی دھبہ نہیں بلکہ ’یہ ایک ناخوشگوار رشتے سے نکلنے کا ذریعہ ہے، اس لیے ایسے وقت میں اگر گھر والوں کا ساتھ ہوگا تو وہ ایک پریشانی سے نکل کر دہری پریشانی میں مبتلا نہیں ہوں گی۔‘‘ طلاق ایک سماجی مسئلہ اس لیے نہیں بنتا جا رہا ہے کہ بے حیائی، مالی تنگی یا عدم برداشت میں اضافہ ہو رہا ہے. دراصل یہ مسئلہ ہمارے معاشرے کا سماجی ڈھانچہ بکھرنے سے وجود میں آ رہا ہے۔ انا پرستی اور بڑھتی ہوئی مادہ پرستی رشتوں کو کمزور اور خراب کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ہم دکھاوے اور مادہ پرستی کی ایسی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں، جہاں سے نکلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ ۔

ناممکن اس لیے کہ شاید ہم اس دلدل کو ہی زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔ پہلے ہمارا خاندانی نظام مضبوط تھا جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اگر لڑکا طلاق دینے کا سوچتا بھی تھاتو فوراً اس کے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ خاندان والے کیا کہیں گے؟یہ سوچ اس کو کسی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے روکنے کے لئے کافی ہوتی تھی۔ یا ایسا ہوتا کہ اگر میاں بیوی میں کوئی ناچاقی ہوتی تو خاندان کے بڑے فوراً دونوں میں صلح کروادیتے۔ جس سے اختلافات حد سے نہیں بڑھتے تھے لیکن اب خاندانی نظام کی شکست و ریخت کے بعد نہ تو اب بزرگوں میں بزرگ والی بات رہی جو کبھی ہمارے آباواجدا میں تھی نہ ہی اب کوئی بزرگ کسی کو کچھ سمجھانے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی آج کل کی نسل ان کی بات سننے کو تیار ہوتے ہیں۔ کیونکہ آجکل کی نسل نو سماجی برائیوں ، اخلاقی پستیوں سے آرہ اور گراوٹ کا شکار ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوریاں بڑھتی چلی جاتی ہیں اور طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔


انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 191865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.