خوشیاں بانٹنے کی عادت ڈالیجیے


زندگی ایک بار ملتی ہے مگر ہم دکھوں، پریشانیوں اور مصیبتوں کی نذر کرکے دنیا میں ہی اپنی زندگی کو عذاب بنا لیتے ہیں اور ہماری زندگی میں آنے والی اکثر مشکلات خود ہماری پیدا کی ہوئی ہوتی ہیں کیونکہ ہم اکثر دوسروں کو ٹینشن،تکلیف اور دکھ پہنچانا چاہتے ہیں ایک دوسرے کا برا سوچتے ہیں منافقت میں ایک دوسرے پر بازی لے جانا چاہتے ہیں اور کسی کو ترقی کرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے اسکی ٹانگیں کھینچنا اپنا فرض سمجھتے ہیں غیبت ایک عام بیماری بن چکی ہے جہاں چار دوست جمع ہوں وہاں کسی نہ کسی غیر موجود فرد کی برائی کرنا ضروری ہوتا ہے. ہر کام میں کوئی نہ کوئی سفارش،تعلق اور دوستی ڈھونڈ کر سب سے پہلے اپنا کام کروانا چاہتے ہیں بغض اور حسد ہم ہر وقت اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں اور موقعہ ملتے ہی ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں کھانے میں زہر ،لفظوں میں زہر اور اپنی حرکتوں میں زہر لیے ہم دوسروں کی خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں اور تو اور اچھے کام کرنے والوں کو بھی ہدف تنقید اور انکے اچھے کاموں میں کیڑے تلاش کرنا ہم نے اپنی عادت بنا لی ہے. انسان کا احترام انسان ہونے کی بنا پر نہیں کیا جاتا رہا بلکہ اس کی پارٹی اورمعاشرتی رتبے کو دیکھ کر اس کے مطابق عزت و توقیر دی جاتی رہی ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اﷲتعالیٰ نے انسان کو باقی تمام موجودات کے اوپر شرف و عزت کا اعلیٰ رتبہ اور مقام عطا کر کے پیدا کیا ہے ۔ آج ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں ، اپنوں سے دوری بڑھتی جا رہی ہے، معمولی سی بات، معمولی سے اختلاف، معمولی سی کج فہمی پر معاشرے کی رگوں میں نفرتیں ناممکن حد تک سرائیت کر چکی ہیں۔ برداشت نام کا مادہ ختم ہوچکا ہے۔ایک دوسرے کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ تعصب کی عینک کسی طور اترتی ہی نہیں۔ دیکھئے اختلافات بجا ہیں۔ ہر شخص کی نظر، فکر جدا ہے۔ ہرانسان کے درمیان اختلافات ہوں گے اور ضرور ہیں لیکن ان اختلافات کو آپسی رنجشوں اورنفرتوں کا سبب تو نہ بنائیں۔


خوشی ایک ایسا لفظ ہے جس کو زبان سے ادا کرنے کے بعد ایک خوشگوار احساس جنم لیتا ہے۔ آنکھوں میں چمک اور دل میں رمق پیدا کرنے والا یہ لفظ ہماری زندگیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔کبھی کسی کو مسکرا کر دیکھنے سے، کبھی کسی کا احساس کرنے سے، کبھی کسی کے غم کا مداوا کرنے سے، کسی کی کامیابی پر اس کی حوصلہ افزائی اور ستائشی کلمات سے نواز کرہم بہت ساری خوشیاں ہر طرف بکھیر سکتے ہیں۔ کئی دلوں کو موہ سکتے ہیں، کئی نفرتوں کو محبتوں کے پیراہن میں ڈھال سکتے ہیں. خوشی کی کوئی مادی حیثیت نہیں ہے۔ وہ انسان کے اندر پھوٹنے والا ایک احساس ہے، جس کے محرکات مختلف ہوسکتے ہیں۔ خوشی کا انحصار ہمارے گردوپیش کے حالات سے بھی ہے۔ ایک چیز جو کسی خاص وقت میں خوشی دیتی ہے، ضروری نہیں کہ دوسری بار ملنے پر بھی وہ خوشی کے احساس کو گدگدائے۔ خوشی ایک احساس ہے جو آپ کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ خوش رہنے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس دولت ہو۔ ہر انسان خوش رہ سکتا ہے اور اس کے لیے اسے زیادہ تگ و دو کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو اپنی سوچ اور اپنے انداز میں تھوڑی سے تبدیلی پیدا کریں۔دوسروں سے خوشی سے ملیں، کبھی کسی سے نفرت نہ کریں، سادہ زندگی گزاریں، دوسروں سے کم سے کم توقعات رکھیں، دوسروں کو زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کریں۔

“خوشیاں بانٹنے کی عادت ڈالیجیے ”۔ زندگی ایک بار ملتی ہے مگر ہم دکھوں، پریشانیوں اور مصیبتوں کی نذر کرکے دنیا میں ہی اپنی زندگی کو عذاب بنا لیتے ہیں اور ہماری زندگی میں آنے والی اکثر مشکلات خود ہماری پیدا کی ہوئی ہوتی ہیں کیونکہ ہم اکثر دوسروں کو ٹینشن،تکلیف اور دکھ پہنچانا چاہتے ہیں ایک دوسرے کا برا سوچتے ہیں منافقت میں ایک دوسرے پر بازی لے جانا چاہتے ہیں اور کسی کو ترقی کرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے اسکی ٹانگیں کھینچنا اپنا فرض سمجھتے ہیں غیبت ایک عام بیماری بن چکی ہے جہاں چار دوست جمع ہوں وہاں کسی نہ کسی غیر موجود فرد کی برائی کرنا ضروری ہوتا ہے. ہر کام میں کوئی نہ کوئی سفارش،تعلق اور دوستی ڈھونڈ کر سب سے پہلے اپنا کام کروانا چاہتے ہیں بغض اور حسد ہم ہر وقت اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں اور موقعہ ملتے ہی ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں کھانے میں زہر ،لفظوں میں زہر اور اپنی حرکتوں میں زہر لیے ہم دوسروں کی خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں اور تو اور اچھے کام کرنے والوں کو بھی ہدف تنقید اور انکے اچھے کاموں میں کیڑے تلاش کرنا ہم نے اپنی عادت بنا لی ہے. انسان کا احترام انسان ہونے کی بنا پر نہیں کیا جاتا رہا بلکہ اس کی پارٹی اورمعاشرتی رتبے کو دیکھ کر اس کے مطابق عزت و توقیر دی جاتی رہی ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اﷲتعالیٰ نے انسان کو باقی تمام موجودات کے اوپر شرف و عزت کا اعلیٰ رتبہ اور مقام عطا کر کے پیدا کیا ہے ۔ آج ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں ، اپنوں سے دوری بڑھتی جا رہی ہے، معمولی سی بات، معمولی سے اختلاف، معمولی سی کج فہمی پر معاشرے کی رگوں میں نفرتیں ناممکن حد تک سرائیت کر چکی ہیں۔ برداشت نام کا مادہ ختم ہوچکا ہے۔ایک دوسرے کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ تعصب کی عینک کسی طور اترتی ہی نہیں۔ دیکھئے اختلافات بجا ہیں۔ ہر شخص کی نظر، فکر جدا ہے۔ ہرانسان کے درمیان اختلافات ہوں گے اور ضرور ہیں لیکن ان اختلافات کو آپسی رنجشوں اورنفرتوں کا سبب تو نہ بنائیں۔


خوشی ایک ایسا لفظ ہے جس کو زبان سے ادا کرنے کے بعد ایک خوشگوار احساس جنم لیتا ہے۔ آنکھوں میں چمک اور دل میں رمق پیدا کرنے والا یہ لفظ ہماری زندگیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔کبھی کسی کو مسکرا کر دیکھنے سے، کبھی کسی کا احساس کرنے سے، کبھی کسی کے غم کا مداوا کرنے سے، کسی کی کامیابی پر اس کی حوصلہ افزائی اور ستائشی کلمات سے نواز کرہم بہت ساری خوشیاں ہر طرف بکھیر سکتے ہیں۔ کئی دلوں کو موہ سکتے ہیں، کئی نفرتوں کو محبتوں کے پیراہن میں ڈھال سکتے ہیں. خوشی کی کوئی مادی حیثیت نہیں ہے۔ وہ انسان کے اندر پھوٹنے والا ایک احساس ہے، جس کے محرکات مختلف ہوسکتے ہیں۔ خوشی کا انحصار ہمارے گردوپیش کے حالات سے بھی ہے۔ ایک چیز جو کسی خاص وقت میں خوشی دیتی ہے، ضروری نہیں کہ دوسری بار ملنے پر بھی وہ خوشی کے احساس کو گدگدائے۔ خوشی ایک احساس ہے جو آپ کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ خوش رہنے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس دولت ہو۔ ہر انسان خوش رہ سکتا ہے اور اس کے لیے اسے زیادہ تگ و دو کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو اپنی سوچ اور اپنے انداز میں تھوڑی سے تبدیلی پیدا کریں۔دوسروں سے خوشی سے ملیں، کبھی کسی سے نفرت نہ کریں، سادہ زندگی گزاریں، دوسروں سے کم سے کم توقعات رکھیں، دوسروں کو زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کریں۔

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 191749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.