مودی جی نےبلا اعلان امریکہ میں2024 کا انتخابی بگل پھونک
دیا۔ آئندہ قومی انتخاب سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے خود کو وشوگرو
(عالمی رہنما) کے طور پر پیش کرنے کی کوشش تو کی لیکن ہوا یہ کہ ایک ہندی
محاورے کے مطابق ’چوبے جی چلے تھے چھبےّ بننے اور دوبے بن لوٹ آئے ‘، یعنی
موصوف گئے تو تھے پرائم منسٹر سے سُپر پرائم منسٹر بننے مگر کرائم منسٹرکا
اضافی خطاب لے کر واپس ہوئے۔ ممبئی کی زبان میں اسے کہتے ہیں ’کھایا پیا
کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنا‘۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے قبل کئی وزرائے
اعظم دنیا بھر کا دورہ کرتے رہے ہیں ۔ وہ لوگ امریکہ بھی سرکاری و غیر
سرکاری دورے پرجاتے تھے لیکن اس طرح کی مخالفت کبھی نہیں ہوئی ۔ آخر مودی
جی کے ساتھ ہی بار بار مختلف ممالک میں اس طرح کے سانحات کیوں ہوتے ہیں ؟
اس سوال پر سنگھ پریوار کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے لیکن اس کے لیے جو
مزاج درکار ہے ان لوگوں میں اس کا فقدان ہے نیز حقائق کو تسلیم کرکے اسباب
و علل کی تفتیش و تحقیق ان بیچاروں کے بس کا روگ نہیں اس لیے آسٹریلیا کے
بعد پھر سے ناخوشگوار واقعات کا اعادہ ہوگیا۔
عالمی سطح پر وزیر اعظم کی رسوائی کا بنیادی سبب ان کا داغدار ماضی ہے ۔ اس
کی وجہ سے ان پر امریکہ میں داخلہ پر پابندی لگائی گئی تھی ۔ سنگھ پریوار
اگر چاہتا تو دہلی کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی شبیہ سدھار سکتاتھا لیکن
انتخابی مفاد کی خاطر وہ اسے بد سے بدتر کرتا چلا گیا اور وقت کے ساتھ ان
کی ابن الوقتی و نااہلی اظہر من الشمس ہوتی چلی گئی۔ یہ سوالات اہم ہیں کہ
آخر وزیر اعظم نریندر مودی اور سنگھ پریوار نے اپنی شبیہ سدھارنے کا یہ
نادر موقع کیوں گنوادیا ؟ وہ لوگ اپنی ان غلطیوں سے درس عبرت کیوں نہیں
لیتےجن کے سبب انہیں بار بار عالمی سطح پر رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟؟
ویسے تو اس کی کئی وجوہات ہیں مگر سب سے اہم یہ ہے کہ سنگھ پریوار کے یہ
لوگ اپنی شاکھا سے نکل کر سیدھے اقتدار پر فائز ہوگئے۔ ان لوگوں کی حالت
کنوئیں کے اس مینڈک جیسی ہے جس کو دنیا دیکھنے کا موقع نہ ملا ہو۔
اقتدار کے نشے میں چور یہ لوگ اپنے ملک میں اظہار رائے کا بے دردی سے گلا
گھونٹتے وقت بھول جاتے ہیں کہ دنیا دیکھ رہی ہے۔ عالمِ انسانیت گودی میڈیا
کے پروپگنڈ سے بہکانا ممکن نہیں ہے ۔دنیا کی آنکھوں پربھگتوں والی زعفرانی
پٹیّ نہیں بندھی ہے۔ وہ کھلی آنکھوں سے حقائق کو دیکھ کر اپنی رائے قائم
کرتی ہے۔ انسانی حقوق کو بزورِ قوت کچلنے والی مودی سرکار یہ بھول جاتی ہے
کہ سی بی آئی، ای ڈی اور پولیس کے زور سے دیگر ممالک میں رہنے والے باضمیر
لوگوں کو ڈرایا دھمکایا نہیں جاسکتا اور نہ انہیں اڈانی کی مدد سے خریدا
جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کے اعتراف سے انکارغیر ملکی دوروں پر وزیر اعظم کی
رسوائی کا سبب بن جاتا ہے لیکن انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا اور نرگسیت
کا شکار مودی اپنی غلطیاں دوہرائے چلے جاتے ہیں۔
اس حقیقت کی سب سے روشن مثال امریکہ کے اندر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن
رائٹس واچ نامی تنظیموں کی جانب سے وزیر اعظم مودی کے دورے کی شام کو بی بی
سی کی گجرات ڈاکیومنٹری کو نشر کرنے کا اہتمام ہے۔ یہ عالمی تنظیمیں انسانی
حقوق کی پامالی پر سرکار اور عوام کو خبردار کرنے کام کرتی ہیں۔ مثل مشہور
ہے کہ عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ مختلف ممالک کے سمجھدار حکمراں ان کی
رپورٹ سے اپنے انتظامیہ کو چاک و چوبند کرنے اور اپنی کوتاہیوں کو درست
کرنے کا کام لیتے ہیں مگر مودی سرکار اس کو اپنی توہین سمجھتی ہے۔ ان کی
رپورٹس کو جھوٹ کا پلندہ کہہ کر مسترد کردیتی ہے۔ ان پر قوم دشمن سازش میں
شریک ہوکر ملک کو بدنام کرنے کا الزام لگادیتی ہے اور اس سےآگے بڑھ کر گلا
گھونٹنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ ایسا کرتے وقت سرکار دربار کے لوگ بھول
جاتے ہیں کہ یہ حرکت چور کی داڑھی میں تنکا کی مصداق ہے۔ اپنی گلی میں شیر
کی طرح دہاڑنے والے اور بھیڑئیے کی مانندکمزوروں پر حملہ کرنے والے یہ بھول
جاتے ہیں کہ کبھی ان کو اپنے کچھار سے نکل کر باہر بھی جانا پڑے گا اور
وہاں وہ لوگ شیر ہوں جائیں گے ۔ اس کے بعد بھیگی بلی بن کر عالمی رسوائی کو
سہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
حکومت ہند اگر ایمنسٹی انٹر نیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ بدسلوکی
نہیں کرتی تو وہ مودی کے امریکہ میں آمدپر دیگر تنظیموں کے اشتراک سے
نیویارک ٹائمز میں پورے صفحے کا اشتہار شائع کرکے ان کا کچاّ چٹھاّ نہیں
کھولتی ۔ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری پر پابندی لگا کر حکومتِ ہند ان تنظیموں
کو اپنی مخالفت کا نادر موقع عنایت کردیا۔ بی بی سی نے ویسے بھی اس
دستاویزی فلم کو مکمل کرنے غیر معمولی تاخیر کی اور بیس سال کے بعد ان
حقائق کو پیش کیا جن کو سب جانتے تھے ۔ حکومت ہند کی بھلائی اس کو نظر
انداز کردینے میں تھی لیکن اس نے خود اپنے ہاتھوں سے پیروں پر کلہاڑی مارلی
۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کشمیر فائلس جیسے جھوٹ کے پلندے کو سرکاری
آشیرواد مل جاتا اور وزیر داخلہ سے وزیر اعظم تک اس کے پروموشن میں حصہ
لیتے ہیں۔ کیرالہ اسٹوری نامی پروپگنڈا کا ٹیکس معاف کرکے بی جے پی وزرائے
اعلیٰ اپنے لوگوں سے مفت شو کرواتے ہیں۔ آدی پوروش جیسی بکواس فلم کے خالق
سے ملنے کے لیے وزیر اعظم وقت فارغ کرتے ہیں اور ان پر پابندی کی درخواست
کو ٹھکرا دیا جاتا ہے بی بی سی کی دستاویزی فلم کو روکنا نہایت شرمناک حرکت
ہے اور اس حماقت کی قیمت مودی جی چکا رہے ہیں۔ اس کی پہلی قسط آسٹریلیا کے
ایوان پارلیمان اور دوسری قسط واشنگٹن میں انہیں مل چکی ہے۔
وزیر اعظم اس سے قبل ۶؍ مرتبہ امریکہ کا دورہ کرچکے ہیں۔ ان کی ہر مرتبہ
مخالفت ہوئی تو انہوں نے سوچا ہوگا کہ اس کی وجہ دورے کا غیر سرکاری ہونا
تھا۔ وہ چونکہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہونے کے لیے امریکہ جاتے تو
اس کے ساتھ دوسری سرگرمیوں کو بھی جوڑ دیا جاتا تھا۔ اقوام متحدہ کے حفاظتی
کونسل کا دفتر چونکہ نیویارک میں واقع ہے اس لیے دنیا بھر کے سربراہ وہاں
آتے ہیں ۔ امریکی انتظامیہ کے لیے ان سب کو سرکاری مہمان بنانا ممکن نہیں
ہے اس لیے وہ اس کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دیتا۔ اس بار چونکہ سرکاری
دعوتنامہ پر وزیر اعظم مودی امریکہ گئے ہوئے ہیں اس لیے انہیں توقع رہی
ہوگی کہ امریکہ بھی اپنے سرکاری مہمان کی توہین برداشت نہیں کرے گا۔ وہ
احتجاج کرنے والے مظاہرین کو سختی سے کچل دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ
حکومت ہند کے ہاتھوں کی کمائی کے سبب اس بار مخالفت پہلے سے زیادہ ہوئی۔
وزیر اعظم کے خلاف نیویارک کے اندر جو جلی حرفوں میں ہورڈنگس لگائی گئی
تھیں ان میں سے ایک میں بی جے پی کو بھارتیہ بلاتکاری(عصمت دری کرنے والی)
پارٹی کا لقب دیا گیا تھا اورپوسٹر پر ان بی جے پی رہنماوں کی تصاویر لگائی
گئی تھیں جن پر آبروریزی کے الزام لگے۔ اس میں برج بھوشن سرن سنگھ نامی
رکن پارلیمان پر عالمی شہرت یافتہ پہلوانوں کے الزامات نے آگ میں تیل کا
کام کیا۔ اس کے علاوہ یلغار پریشد کے نام پر گرفتار شدہ دانشوروں کی حراست
پر بھی ہورڈنگس لگائی گئی۔ معروف طالب علم رہنما ڈاکٹر عمر خالد کے ایک
ہزار دن سے طویل حراست پر جو بائیڈن سے کہا گیا کہ وہ مودی سے سوال کریں۔
ذرائع ابلاغ کی آزادی کا مسئلہ بھی زور شور کے ساتھ اٹھایا گیا۔ صحافتی
آزادی کی علمبردار عالمی تنظیم آئی پی آئی نے ہندوستان کے اندر صحافیوں
کے حقوق پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس نے کہا ہندوستان میں صحافیوں کے خلاف
قانون کا استعمال ایک ہتھیار کے طور پر کیا جارہا ہے۔ اس طرح وزیر اعظم
مودی کو عالمی تنظیموں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
ہندوستان کے اندر رہنے والی سکھ برادری اور کشمیری مسلمان تو اپنے حقوق کی
پامالی کو لے کر ہمیشہ احتجاج درج کراتے ہیں کیونکہ وطن عزیز میں اسے آہنی
جوتوں سے کچل دیا جاتا ہے اس لیے بیرونِ ملک مظاہرے کے سوا کوئی چارہ نہیں
ہے۔ اس بار ان میں منی پور کا اضافہ ہوگیا۔ اس ننھی سی ریاست کے لوگوں نے
وزیر اعظم پر ان کے صوبے کو آگ میں جھونکنے کا سنگین الزام لگایا۔ وہاں پر
موجود کوکی سماج کے لوگوں نے اس طویل تشدد پر وزیر اعظم کی پر اسرار خاموشی
کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ حیر ت انگیز بات ہے ۵۵؍دنوں کے بعد وزیر
داخلہ نے منی پور کے مسئلہ پر جو کل جماعتی نشست طلب کی ہے اس میں وزیر
اعظم مصر میں ہونے کے سبب خود شریک نہیں ہوں گے۔ اس سے ان کی عدم دلچسپی کا
اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ وزیر اعظم میں اپنی ناکامی سے روبرو ہونےکا
حوصلہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ دس دنوں سے دہلی کے اندر براجمان منی پوری
رہنماوں کے وفد کو انہوں نے ملاقات کے لیے وقت نہیں دیا۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے تشدد کے پچیس دن بعدریاست کا دورہ کیا تھا مگر
لوگوں کو اعتماد میں لینے کے بجائے دھونس دھمکی دے کر لوٹ آئے۔ ان کا دورہ
ناکام رہا کیونکہ اس کے بعد پھر سے تشدد کی دوسری لہر پھوٹ پڑی اور وسط جون
میں ایک ہی دن نو لوگ ہلاک کردیئے گئے۔ اب انہیں مختلف سیاسی جماعتوں کو
بلا کر کیا کر نشست کرنے اخلاقی حق نہیں ہے۔ وزیر اعظم مودی اگر اس میٹنگ
کی صدارت کرتے تو اور بات تھی۔ اس وزیر اعظم کی اثر پذیری پر بھی ایک بہت
بڑا سوالیہ نشان لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو سیاسی رہنما اپنے ملک کے اندر
ایک ننھے سے صوبے میں تشدد پر قابو پانے سے قاصر ہے بلکہ اس کی جماعت پر
اسے بھڑکانے کا سنگین الزام ہے۔جہاں اس کی ڈبل انجن سرکار پوری طرح ناکام
ہوگئی ہے۔ وہ بھلا یوکرین میں امن کی بحالی کے لیے کیا کرسکتا ہے؟ صدر جو
بائیڈن نے وزیر اعظم مودی کو ہاتھ سے بنا ایک قدیم کیمرہ تحفہ دے کر یہ
ثابت کردیا کہ وہ ان کی پرانی کمزوری سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ اس میں شک
نہیں کہ پرائم منسٹر سے کرائم منسٹر تک کا یہ سفر نامہ اگر اس کیمرے سے شوٹ
کی تو آدی پوروش سے دلچسپ فلم بنے گی اورٹیکس کی معافی کے بغیر سُپر ڈوپر
ہٹ ہوجائے گی۔
|