حامد میر کے خلاف حقائق تین دعوے
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
اطہر مسعود وانی
حامد میر کا ایک وڈیو کلپ سوشل میڈیا پہ چل رہا ہے کہ جس میں وہ دعوی کر رہے ہیں کہ سردار ابراہیم اور چودھری غلام عباس نے حکومت پاکستان کے ساتھ معاہدہ کراچی پہ دستخط نہیں کئے ۔ اس وڈیو کلپ میں حامد میر یہ دعوی بھی کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اس کا ثبوت موجود ہے تاہم ان کی طرف سے اپنے اس دعوے کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔سردار ابراہیم اور چودھری غلام عباس کا ایک بیان بھی ایسا نہیں ہے کہ جس میں انہوں نے کہا ہو کہ ان کی مرضی کے بغیر معاہدہ کیا گیا ہے یا یہ کہ معاہدے پہ انہوں نے دستخط نہیں کئے۔ سردار ابراہیم کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کسی ایک کو نجی گفتگو میں کہا کہ انہوں نے معاہدہ کراچی پہ دستخط نہیں کئے لیکن میڈیا میں ان کا ایک بیان بھی ایسا نہیں ہے کہ جس میں انہوں نے یہ بات کہی ہو کہ انہیں معاہدہ کراچی کا علم نہیں اور انہوں نے اس پہ دستخط نہیں کئے اور نہ ہی اس حوالے سے انہوں نے کسی معتبر شخصیت سے ایسی کوئی بات کہی۔ معاہدہ کراچی پہ چودھری غلام عباس نے اپنے دستخط کے ساتھ اپنے قلم سے یہ بھی لکھا کہ میرا اتفاق صرف ان امور سے ہے جو مسلم کانفرنس سے متعلقہ ہیں۔سردار ابراہیم نے بھی ایک بیان بھی ایسا نہیں دیا کہ جس میں انہوں یہ بات کہی ہو جس کا حامد میر صاحب دعوی کر رہے ہیں۔
حامد میر نے 3جولائی2023 کو اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پہ اپنا ایک وڈیو کلپ شیئر کیا جس میں انہوں نے بتایا قائد اعظم محمد علی جناح نے سرینگر سے آتے ہوئے اسلام آباد کے علاقے مل پور میں کشمیری رہنما چودھری غلام عباس سے کہا کہ یہ علاقہ پاکستان کا دارلحکومت ہو گا۔حامد میر نے یہ بات تحریک پاکستان کے کارکن اور معروف صحافی مولانا اسماعیل ذبیح کی کتاب ''اسلام آباد، منزل مراد '' کے حوالے سے کہی۔ مولانا اسماعیل ذبیح نے اپنی اس کتاب '' اسلام آباد منزل مراد، ماضی ، حال ، مستقبل'' کے صفحہ نمبر56سے صفحہ نمبر62پہ 6نامور شخصیات کے بیانات شامل کئے ہیں جنہوں نے قائد اعظم کی طرف سے اسلام آباد کو پاکستان کا دارلحکومت بنانے کی بات کہے جانے کو بیان کیا۔ان شخصیات میں'' تحریک پاکستان کے نامور کارکن خواجہ محمود احمد منٹو کابیان۔ خواجہ محمد امین مختار سیکرٹری جنرل آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کابیان۔ خواجہ عبدالصمد وانی ایڈیٹر کشیر راولپنڈی کا بیان۔تحریک پاکستان کے نامور فرزند پروفیسر کرم حیدری کا بیان۔قائد اعظم کے نیشنل گارڈ میجر صادق نسیم کا بیان۔راجہ عبدالحمید سکنہ مل پور کا بیان'' شامل ہیں۔چھتر کے مقام پہ قائد اعظم کی طرف سے چودھری غلام عباس کو یہ بات کہنے کا بیان دینے والوں میں خواجہ عبدالصمد وانی، خواجہ محمد امین مختار ،پروفیسر کرم حیدری اور میجر صادق نسیم شامل ہیں۔
کتاب میں شامل ان تمام6شخصیات کے بیانات پڑہنے سے حقائق سامنے آ جاتے ہیں کہ قائد اعظم نے اسلام آباد کو پاکستان کا دارلحکومت بنائے جانے کی بات چھتر کے مقام پہ کہی جہاں سے اسلام آباد کا میدانی علاقہ صاف نظر آتا ہے ۔ خواجہ عبدالصمد وانی نے اس تمام واقعہ کی مکمل تفصیل بیان کی ہے۔ قائد اعظم کی طرف سے یہ بات چودھری غلام عباس سے کہی گئی اور اس متعلق چودھری غلام عباس کا بیان1960میں راولپنڈی سے شائع ہونے والے روزنامہ کوہستان میں شائع ہوا۔ مختصر یہ کہ قائد اعظم نے مل پور میں، بقول حامد میر، ایک چھوٹی سے پہاڑی کو دیکھ کر نہیں بلکہ چھتر کے مقام سے اسلام آباد کے میدانی علاقے کو دیکھتے ہوئے اس علاقے کو پاکستان کا دارلحکومت بنائے جانے کی بات کہی تھی۔کتاب میں شامل تمام6شخصیات کے بیانات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلام آباد علاقے کو پاکستان کا دارلحکومت بنائے جانے کی بات چودھری غلام عباس کو چھتر کے مقام پہ کہی تھی۔
تیسرا واقعہ یہ کہ حامد میر نے چند سال قبل یہ دعوی کیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کو ریاست جموں وکشمیر کے پاکستان میں شامل ہونے کا اس قدر یقین تھا کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے سرینگر میں جائیداد خریدنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ بات سراسر حقائق کے منافی ہے۔اصل واقعہ یوں ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ستمبر1946میں چند دن آرام کرنے کی غرض سے سرینگر جانے کے خواہاں تھے۔انہوں نے نئی دہلی میں سرینگر کے چند افراد سے ملاقات میں اپنے اس دورے کے متعلق بتایا اور ان سے کہا کہ ان کے قیام کے لئے سرینگر میں کوئی موزوں جگہ ، کوئی ہائوس بوٹ یا کوئی گھر تلاش کیا جائے۔قائد اعظم سے نئی دہلی میں ملاقات کرنے والے افراد میں سرینگر میں کارپٹس کے ایک بڑے تاجر غلام محمد نے 13جولائی 1946کو قائد اعظم کو ایک خط میں' ایچ بی ' نامی ہائوس بوٹ میں موجود سہولیات کی تفصیل سے آگا ہ کیا اور قائد اعظم کو سرینگر کے شیو پورہ رام منشی باغ علاقے میں واقع جدید سہولیات سے آراستہ اپنے ''گھر'' جیول ہائوس'' میں قیام کی دعوت بھی دی۔ غلام محمد کے13جولائی کے اس خط کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے 9اگست1946کو اپنے خط میں لکھا کہ '' میں آپ کے13جولائی کے خط پر آپ کا بہت شکر گزار ہوں ،اور میں کچھ آرام کرنا پسند کر سکتا ہوں ،مجھے اس وقت کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کہ میں ایسا کر سکوں گا۔بمہربانی اپنے والد کو میرا شکریہ پہنچائیں ، 'جیول ہائوس' کی مہمان نوازی کی پیشکش اور کسی ہائو س بوٹ کی تیار ی کے لئے بھی،اگر میں ترجیح دے سکا ،اگر بعد ازاں ایسا کرنے کی سیاسی صورتحال نے اجازت دی ،تو میںکوشش کروں گا کہ ستمبر میں وہاں پہنچوں گا اور آپ کومطلع کروں گا''۔ اس طرح یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح قیام پاکستان سے پہلے سرینگر میں جائیداد خریدنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے بلکہ چند دن آرام کی غرض سے سرینگر قیام کرنا چاہتے تھے۔(یہ خطوط ریکارڈ میںموجود ہیں)
ایک ہوتا ہے بے بنیاد جھوٹ بولنا،ایک ہوتا ہے کسی واقعہ کو غلط انداز میں پیش کرنا، ایک اور صورت یہ کہ سچ کے ساتھ غلط بیانی یوں شامل کرنا کہ جس سے اس واقعہ کی تعبیر و تشریح ہی تبدیل ہو جائے۔حامد میر مکمل معلومات حاصل ہوئے بغیر یوں پورے اعتماد سے بات کرتے ہیں کہ عام لوگ ان کی بات کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔پاکستان کے نامور اور عالمی شہرت یافتہ صحافی حامد میر کے بزرگوں کا تعلق مقبوضہ جموں سے ہے اور اس حوالے سے حامد میر خود کو کشمیر کے موضوع پہ اتھارٹی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں نظر آتے ہیں۔حامد میر پاکستان کے ایک معروف صحافی ہیں ، انہیں صحافت میں ایک بڑا پلیٹ فارم مہیا ہے اور لوگ ان کی باتوں یہ یقین رکھتے ہیں۔ یوں حامد میر کو اپنے بیان میں حقائق کو بیان کرنے کے حوالے سے پوری احتیاط سے کام لینا چاہئے اور ایسی بات نہیں کرنی چاہئے کہ جس سے اصل حقائق مسخ ہوتے ہوں۔حامد میر صاحب سے درخواست ہے کہ وہ تاریخی واقعات کے بیان میں ذمہ داری کا احساس و ادراک رکھیں۔
اطہر مسعود وانی 03335176429
|