بلوچستان کے ساتھ ہمیشہ ہر معاملے پر سوتلی ماں کا سلوک
رہا ہے ۔چاہئے ملازمتوں کا کوٹہ ہو ۔یا پھر سوئی گیس سیندک اور کوئلے کی
رائلٹی ہو ۔دستیاب وسائل کی تقسیم میں بلوچستان کا حصہ کبھی بھی پوری طرح
سے نہیں ملا ہے جبکہ ہر معاملے میں واضع طور پر قانون سازی بھی کئی ہے اس
کے باوجود ہمیشہ سے بلوچستان کی آواز کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے
بلوچستان کو ہر معاملے میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔پاکستان کی44 چوالیس
فیصد رقبے پر مشتمل یہ صوبہ ہمیشہ سے وفاق کی ذیادتیوں نا انصافیوں کا شکار
ہوتا آرہا ۔یہاں تک کہ سندھ ۔ بلوچستان نے سندھ کو ہمیشہ اپنا بڑا بھائی
مان کر وفاق میں ہر موڑ ہر مسلے پر ہر وقت سندھ کا ساتھ دیا وہی سندھ ایک
عرصے سے بلوچستان کے ساتھ ذیادتی کرتا آرہا ہے پورے ملک کے رقبے کا نصف حصہ
رکھنے والے اس صوبے کو پانی کی تقسیم میں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا
تاہم اس کے باوجود (ارسا)انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے تحت چاروں صوبوں کے
درمیان 1991میں ایک معاہدہ ہو جو کہ بلوچستان نے اس معاہدے کو خوشی خوشی
قبول کیا ۔ملک کی 44فیصد رقبے کا مالک اس پورے صوبے میں صرف دو ہی نہریں
ہیں چونکہ یہ دونوں نہریں دریا ئے سندھ سے نکالی گئی ہیں اور سندھ سے گزرتے
ہوئے بلوچستان میں داخل ہوتیں ہیں راستے میں کئی ایک جگہوں سے محکمہ انہار
سندھ کے اہلکار پانی چوری کرکے سندھ کو پانی فروخت کرتے آرہے ۔ اور پھر
بلوچستان کو اس کے حصے کے پانی سے یہ کہہ کر محروم کیا جاتا ہے کہ پنجاب
ہمیں پانی کم دے رہا ہے ۔ اس لئے ہم مجبور ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ
پنجاب بھی اس طرح کی حرکتیں کرتا ہے لیکن اس کا یہ تو مقصد ہر گزنہیں بنتا
ہے کہ کرے کوئی بھرے کو ئی ۔سندھ کی جانب سے ۔اس حق تلفی اور ذیادتی کے
خلاف بلوچستان کی ہر حکومت نے ہر فورم پر آواز بھی اٹھائی کئی مواقعوں پر
بھر پور احتجاج بھی کیا جبکہ نصیرآباد کے زمیندار تو آئے روز احتجاج پر
ہوتے ہیں وفاق ہو ۔چاہئے سندھ کی جانب سے صرف طفیل تسلیوں کے سوا کچھ بھی
نہیں ہوتا ہے خریف ہو یا ربیع کی سیزن ایسی نہیں گزری ہو جس میں ہمارے
منتخب نمائندوں اور بلوچستان کی قیادت نے سندھ کے اعلی ارباب سے اس بارے
میں ملاقاتیں نہ کئی ہوں ہر بار سندھ کی طرف سے یہی یقین دیہانی کرائی جاتی
رہی اس بار ذیادتی نہیں ہوگئی بلوچستان کو اس کے حصے کا پورا پانی دیا جائے
گا لیکن آج تک یہ وعدہ وفا نہیں ہوا ہے ۔آج بھی مورخہ 3جون 2023کو بلوچستان
کا ایک اعلی سطح کا وفد اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد خان جمالی کی
قیادت میں وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ ملے اس موقعہ پر
سیکریٹری ایریگشن سندھ ۔چیف انجینئر سکھر بیراج ۔چیف انجینئر گڈو بیراج ،سندھ
ایریگشن کے اعلی ٰ حکام سے ملاقات کی بلوچستان کے وفد میں سیکریٹری ایریگشن
عبدالفتاح بھنگر بلوچستان ایریگشن کے اعلیٰ آفیسران کے علاوہ پاکستان
پیپلزپارٹی بلوچستان کے صدر سابق وفاقی وزیر میر چنگیزخان جمالی بلوچستان
کے آبپاشی کے وزیر محمدخان لہڑی سابق ایم پی اے میر حیدر خان جمالی
سردارذادہ میر فیصل خان جمالی نوابذادہ سالار خان جمالی زمیندار ایسوسی
ایشن کے میر حاجی شبیر احمد خان عمرانی میر جمیل احمد رند حاکم علی خان
جمالی سمیت زمیندار ایسوسی ایشن کے دیگر رہنماوں سمیت نصیرآباڈ ڈویژن کے
سرکردہ قبائلی شخصیات وفد میں شامل تھے ۔اس موقعہ پر وفاقی وزیر سید خورشید
شاہ اور سیکریٹری ایریگشن نے وفد کو یقین دیہانی کرائی کہ اس بار نہ صرف
دریاوں میں پانی کی پوزیشن بہتر ہے بلکہ ہمارے آبی ذخائر کی صورت حال تسلی
بخش ہیں لہذا ہر حال میں بلوچستان کو اس کے حصے کا پورا پانی ملے گا۔ اﷲ
کرے ایسا ہی ہو ۔ویسے میں دیکھ رہا ہوں کہ پانی کے مسلے پر بلوچستان کے
لوگوں کی صبر برداشت کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے سندھ کو اپنا بڑا بھائی
ماننے والے کہیں پانی کے مسلے کو لے کر سندھ کو اپنا بڑا دشمن نہ مان لیں
اس طرح ہوا تو یہ نہ صرف وفاق کو نقصان ہے بلکہ سندھ بلوچستان کے لوگوں میں
اس معاملے پر نفرت پیدا ہوگئی تو اس کو صاف کرنا بہت ہی مشکل ہوگا کیونکہ
میں سن رہا ہوں ایک عرصے سے آوازیں آرہی ہیں ہیں کہ اگر سندھ ہمارے حصے کا
پانی نہیں دے رہا ہے تو حب ڈیم سے کراچی کو پانی کی سپلائی بند کرو ۔ پانی
کے معاملے پر ایک قسم کا لاوا پک رہا ہے اﷲ نہ کرے اگر یہ مطالبہ ضرور پکڑ
گیا اور حکومت بلوچستان ایسا کرنے پر مجبور ہوا تو یہ نقصان سندھ اور
بلوچستان کے عوام کا ہی ہوگا نہ کہ کرپٹ اہلکاروں یا نہ اہل حکمرانوں کا ۔اس
لئے ضرورت اس امر کی سندھ حکومت فوری طور پر ہوش کے ناخن لے محکمہ انہار کو
پابند کرے کہ بلوچستان کے حصے کا پانی ہر صورت میں مکمل دینا ہے لہذا ۔چاہئے
کچھ بھی ہو اس میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں ہونا چاہئے ۔نیز بلوچستان
حکومت کو چاہئے کہ ایریگیشن سسٹم سمجھنے والے ماہرین کی خدمات حاصل کرکے
تنیکی بنیادوں پر نہروں میں پانی کی بہاو کو سمجھتے ہوئے سندھ کے کسی بھی
اعتراض کا موثرجواب دینے کی صلاحیت موجود ہوں تاکہ سندھ ایریگشن والوں کا
کوئی بہانہ ۔نہ چل سکے
|