شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - ( قسط نمبر 32) سکول کی زندگی کا بقیہ حصہ

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

جب میں گھر پہنچا تو سب سے پہلے والدہ کو یہ خوشخبری سنائی ،وہ بہت خوش ہوئیں لیکن والد صاحب گھر پر موجود نہ تھے۔ وہ لاہور کینٹ اسٹیشن ڈیوٹی پر گئے ہوئے تھے ان کی واپسی سہ پہر چار بجے متوقع تھی۔ اس وقت تک کون انتظار کرتا ۔ میں بھاگم بھاگ ریلوے اسٹیشن پر جا پہنچا اور والد صاحب کو تلاش کر کے انہیں یہ خوشخبری سنائی ۔وہ بھی بہت خوش ہوئے اور خوشی سے انہوں نے میرا ماتھا چوما۔ بے شک ماتھا چومنا ہی میرے لئے بہت بڑا انعام تھا۔ اپنے باپ کی آنکھوں میں خوشی کے ستارے ٹمٹماتے ہوئے دیکھ کر میری بھی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل آئے۔ وہاں موجود ریلوے ملازمین والد صاحب کو مبارکیں دے رہے تھے، جنہیں وہ بڑے فخر سے وصول بھی کر رہے تھے۔
....................
جب ہم گھر سے ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی پگڈنڈی پر پیدل چل کر سکول جایا کرتے تھے تو ایک خوبرو لڑکا جو عمر میں مجھ سے دو سال بڑا تھا‘ بڑی شان و شوکت سے سائیکل چلاتا اور گھنٹیاں بجاتا ہوا ہمارے قریب سے گزر جاتا تھا، اس شاہانہ انداز میں سائیکل چلاتے ہوئے اسے دیکھ کرمجھے بھی حسرت ہوا کرتی تھی کہ کاش ہمارے پاس بھی کبھی سائیکل ہوگی اورمیں بھی سائیکل چلایا کروں گا ۔ حسن اتفاق سے وہی لڑکا بعد میں میرا برادر نسبتی بنا جس کا نام مشتاق احمد خاں ہے۔
اس وقت میرے پاس سائیکل نہیں ہوا کرتی تھی، اس لیے گھر کا کوئی فرد جب بھی کوئی چیزبازار سے منگواتا تو میں سائیکل کے رم کے ساتھ ایک چھڑی لگا کر ایسا دوڑتا، جیسے میں پیدل نہیں ،سائیکل پر سوار ہوں ۔میں چھک چھک کرتا ہوں گھر سے نکل کر پی ڈبلیو ڈی کی دیوار کے ساتھ ساتھ بھاگتا ہوا بازار پہنچ جاتا اور مطلوبہ سودا لے کر اسی رفتار سے گھر واپس آ جاتا ۔ دن میں کتنی بار مجھے بازار کے چکر لگانے پڑتے ۔لیکن تھکاوٹ کا دور دور تک تصور بھی نہیں تھا۔ اپنے ہم جماعت لڑکوں کو مزے سے سائیکل چلاتا ہوا دیکھ کر میرے بھی دل میں سائیکل چلانے کی حسرت پیدا ہونے لگی تو میں نے سوچا پہلے سائیکل چلانا سیکھ لیا جائے ،پھر والد صاحب سے سائیکل خریدنے کی مشکل ترین فرمائش کی جانی چاہئے ۔ مجھے یاد ہے کہ جہاں آجکل شیرپاؤ پل موجودہے، اس کے نیچے اشرف سائیکل والے کی بہت پرانی دکان ہوا کرتی تھی ۔ جہاں خراب سائیکلوں کی مرمت بھی کی جا تی اور چار آنے گھنٹہ سائیکل کرائے پر وہاں سے مل بھی جاتی تھی ۔ ہمارے پاس ضمانت کا کوئی انتظام تو تھا نہیں ۔ صرف ابا کا نام لے کر وہاں سے سائیکل لے آتا ۔ ایک مرتبہ میں کسی اونچی جگہ سے سائیکل پر سوار ہوکر سائیکل چلانے کی جستجو کررہا تھاکیونکہ میرے پاؤں ابھی پیڈلوں تک نہیں پہنچ پارہے تھے ۔ سامنے دیکھنے کی بجائے میری نگاہیں سائیکل کے پیڈلوں کی جانب تھی ۔ابھی میں تھوڑی ہی دور چلا ہوں گا کہ مجھے ماسی بھٹی والی بڑی سی کڑاہی ( جس میں وہ دانے بھونتی تھی ) اٹھا کر لے جاتی دکھائی دی ۔ ایک تو کڑاہی بھی خاصی بڑی تھی اس پر وہ خود بھی خاصی موٹی تازی تھی ۔جیسے ہی میری نظر ماسی پر پڑی تو میرا اور اس کے درمیانی فاصلہ بہت کم ہو چکا تھا ۔ میں نے آواز دی۔ ماسی بچ جا ، ماسی بچ جا ۔اب ماسی کہاں بچتی ۔ چنانچہ اگلے ہی لمحے میں سائیکل سمیت ماسی کے ساتھ جا ٹکرایا ۔ایک طرف ماسی کڑاہی سمیت زمین پر چت گری پڑی تھی تو دوسری جانب میں سائیکل سمیت میں زمین بوس ہو چکا تھا ۔ بھاری بھرکم ماسی کے زمین پر گرنے سے شاید کوئی چوٹ لگی ہوگی تب ہی وہ مجھے گالیاں بھی دے رہی تھی اورساتھ ساتھ میرے باپ کو شکایت لگانے کی دھمکی بھی دے رہی تھی ۔ میں نے ماسی کے سامنے ٹکرانے کی کئی وجوھات بیان کیں لیکن ماسی کو میری کسی بات پر یقین نہیں آرہا تھا ۔اس کی زبان سے صرف گالیاں ہی نکل رہی تھیں اور ساتھ ساتھ کہے جارہی تھی کہ میں شکایت لگانے گھر جارہی ہوں ۔سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنے والد کے غصے سے بھی بہت خوف آتا تھا کیونکہ جب بھی کوئی انہیں میری شکایت لگاتا تھا اور ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی کہ غلطی ان کے بیٹے کی ہے تو پھر وہ میری اس قدر دھلائی کرتے کہ خدا کی پناہ ۔ایک مرتبہ وہ مجھے اٹھا کر دور پھینک رہے تھے کہ میرے ہاتھ میں ان کے گلے میں پڑے ہوئے تعویز کی ڈوری آگئی ۔ جیسے ہی میں نے سہارے کے لیے اس ڈوری کو پکڑا انہوں نے سمجھا کہ میں نے دانستہ ان کا گریبان پکڑا ہے ۔ اس وقت میری والدہ بھی مجھے بچانے کے لیے درمیان میں آ گئی تھی لیکن بہت پھینٹی کھانے کے بعد جان نہیں چھوٹی بلکہ کافی دنوں تک وہ مجھ سے ناراض بھی رہے ۔اس لیے مجھے ڈر تھا ، کہ ماسی واقعی میرے گھر نہ پہنچ جائے۔اگر میرے والد کو پتہ چل گیا کہ میں نے جان بوجھ کر ماسی کو ٹکر ماری ہے تو میری کمبختی شروع ۔ اس لیے بھٹی والی ماسی سے چند منٹ گالیاں کھا کر جان چھوٹ گئی ۔جس پر میں رب کا شکر ادا کیا ۔
.......................
ایک دن میں کسی اونچی جگہ پر کھڑا ہوکر سائیکل پر سوار ہوکر بازار جا رہا تھا ۔ حسن اتفاق سے بازار میں بھی میں نے ایک اونچے پتھر کو اپنی لینڈنگ کے لیے استعمال کیا کرتا تھا ۔ایک دن
جب میں سائیکل پر سوار ہو کر گھر سے سودا سلف لینے کے لیے بازار پہنچا تو جس پتھر پر پاؤں رکھ کر میں سائیکل سے اتر اکرتا تھا ، اس پر ایک پٹھان نے مجھ سے پہلے قبضہ کررکھا تھا ۔اردگرد نظر دوڑائی تو مجھے کوئی اور اونچی جگہ دکھائی نہ دی ۔ مجبورا مجھے سائیکل سے اترنا پڑا ۔ میں نے جیسے ہی زمین پر پاؤں رکھا تو خود کو سنبھال نہ سکا اور سڑک کی جانب جا گرا ۔ ابھی میں اٹھا بھی نہیں تھا کہ پیچھے سے ایک ٹانگہ جو سواریوں سے بھرا ہوا تھا، میرے اوپر سے گزر گیا ۔جیسے ہی یہ منظر لوگوں نے دیکھا تو شور مچ گیا۔ لڑکا مر گیا لڑکا مر گیا ۔کچھ لوگ مجھے اٹھانے کے لیے بھاگے تو کچھ لوگ ٹانگے والے کو پکڑنے پہنچ گئے ۔قدرت خدا کی ۔کہ مجھے معمولی سا زخم بھی نہیں آیا تھااور میں کپڑے جھاڑ کراٹھ کھڑا ہوا ۔لوگ حیرت سے مجھ دیکھ رہے تھے کہ تم بچ کیسے گئے ۔ اس لمحے میں بہت نروس ہو چکا تھا ،میں نے لوگوں کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ سائیکل پکڑی اور گھر کی جانب دوڑپڑا ۔ گھر والوں نے جو سودا منگوایا تھا ، جب اس کے بارے میں پوچھا ، تومیں نے کہا امی جان شکر کریں میری جان بچ گئی اے ۔سواریوں سے بھرا ہوا ٹانگہ میرے اوپر سے گزر گیا ۔جب یہ بات والدہ نے سنی تو وہ سودا بھول گئی اور میری قمیض اتار کر دیکھنے لگی، کہیں زخم تو نہیں آیا ۔جب والدہ نے تسلی کرلی تو وہ حیرت سے کہنے لگی۔بیٹا اسلم تم پر واقعی اﷲ کا بڑا فضل ہے ۔ اﷲ نے تمہیں اتنے بڑے حادثے سے بچا لیا ہے ۔
یہ بات تو آئی گئی ہوگئی لیکن مجھے اس پٹھان لڑکے پر بہت غصہ تھا جس نے میرے لینڈنگ مقام پر مجھ سے پہلے قبضہ کررکھا تھا ۔میں روزانہ اس تاک میں رہتا کہ جیسے ہی وہ ریلوے کوارٹروں کے پیچھے سے گزریگا تو میں بھی اسے سائیکل کی ٹکر ماردوں گا ۔ کئی دن انتظار کے بعد ایک دن جب میں خفیہ مقام پرکھڑاتھا تو وہ پٹھان لڑکا بھی مزے سے سائیکل چلاتا ہوا بازار کی جانب جارہا تھا ۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔ سائیکل کو تیزی سے چلاتا ہوا اس کے ساتھ جا ٹکرایا ۔میری ٹکر سے وہ گربھی گیا اور میں بھی زمین پر جا گرا۔ لیکن گرنے سے پٹھان کو چوٹ بھی لگی۔ وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر کہہ رہا تھا تم نے مجھے ٹکر ماری ہے، میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا ۔ میں اٹھا اور سائیکل پر سوار ہو کر یہ گیا وہ گیا ۔وہ مجھے کافی دیر تک اردگرد تلاش کرتا رہا لیکن اپنے ماں باپ کی محفوظ پناہ گاہ میں پہنچ چکا تھا ۔
.......................
میرے والدین کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں تھے کہ وہ سائیکل خرید سکتے۔اس لیے گھر کے سبھی افراد جہاں جاتے، پیدل ہی سفر کرتے یا اگر ٹانگہ میسر آتا تو اس پر دو چار آنے دے کر منزل مقصود پر پہنچ جاتے۔یہ بھی عجیب اتفاق تھا کہ اس وقت گنگا آئس فیکٹری کے بازار میں پرچون کی صرف چار دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ان میں ایک دوکان محشربھائی کی بھی تھی۔ جو عمر میں تو مجھ سے خاصے بڑے تھے لیکن بطور خاص مجھ پر بہت شفقت کیا کرتے تھے ،انہیں مجھ پر اندھا اعتماد تھا ، والد صاحب کو تنخواہ تو مہینے میں ایک ہی بار ملتی تھی جو پہلے ہفتے ہی میں ختم ہو جاتی ۔پھر سارا مہینہ ادھار چلتا رہتا ۔ میں گھر سے سودے کی جو لسٹ بنوا کر لاتا تو محشر بھائی وہ سودا مجھے ادھار دے دیا کرتے تھے اور پیسے اپنے رجسٹر میں میرے نام پر لکھ لیتے ۔مہینے بعد جب والد صاحب کو تنخواہ ملتی تو وہ سب سے پہلے ادھار کے پیسے مجھے دے کر کہتے جاؤ محشر بھائی کو دے آؤ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ محشر بھائی نہ میرے والد کو جانتے تھے اور نہ ہی انہوں نے ہمارا گھر دیکھا تھا ۔ اس اندھے اعتماد پر میں محشر بھائی اور اپنے رب کا شکر گزارہوں ۔ کئی سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ پھر پتہ نہیں کیا ہو ا محشر بھائی دوکان سے غیب رہنے لگے اور ان کی جگہ ان کے بڑے وارث بھائی نے دکان سنبھال لی ۔ان کی مدد کے ایک لڑکا جس کا نام جبار تھا ،اسے دوکان پر ملازم رکھ لیا ۔پھر ایک دن یہ منحوس خبر سننے کو ملی کہ محشر بھائی کسی ناگہانی بیماری کا شکار ہوکر اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں ۔محشر بھائی کی موت کا دلی طور پر مجھے بہت دکھ ہوا بلکہ اب بھی جب میں گنگا آئس فیکٹری کے بازار سے گزرتا ہوں تو محشر بھائی کی دوکان کی جانب میری نگاہ بے ساختہ اٹھ جاتی ہے ۔اب اس دوکان پر جبار بھائی بیٹھے نظر آتے ہیں ، جو اب ساٹھ سترسال کے ہوچکے ہیں ۔ افسوس کہ محشر بھائی ، وارث بھائی اور اصغربھائی تینوں ہی منظر سے غیب ہو چکے ہیں ۔ وہ جہاں بھی ہیں اﷲ سے دعا ہے کہ وہ عافیت سے ہوں ۔بہت اچھے اور ملنسار انسان تھے ۔
.....................
ان دنوں ریلوے اسٹیشن لاہور کینٹ پر بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں پر گروپ کا حملہ ہوا کرتا تھا ۔گروپ میں سفید وردیوں والے ٹکٹ چیکر اور پولیس والے بھی شامل ہوا کرتے تھے ۔وہ اچانک کسی بھی ٹرین پر یلغار کردیا کرتے تھے ۔ان کے چھاپے سے اس قدر افراتفری پھیل جاتی ہے کہ جائز اور ناجائز لوگ بھی ان کے ہتھے چڑھ جاتے ،جن کو لاہور لے جا کر حوالات میں بند کردیا جاتا تھا ۔پھر چند روپے جرمانہ کرکے چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ چونکہ ہمارا سکول میں آنا اور واپس جانا بھی لاہور چھاؤنی کے پلیٹ فارم ہی سے ہوا کرتا تھا۔ ایک دن ہمیں بروقت گروپ کے چھاپے کی خبر مل گئی، اس لئے ہم تو بچ گئے لیکن جب ہم پلیٹ فارم کی حدود سے باہر سے گزر کر اپنے گھر جا رہے تھے تو ایک ٹرین آ کرلاہور چھاونی کے پلیٹ فارم پر آ رکی۔ ٹرین کے رکتے ہی ٹکٹ چیکر اور پولیس اہلکاروں نے ٹرین کے مسافروں پر شہد کی مکھیوں کی طرح حملہ کر دیا۔ بعض مسافرجو ٹکٹ کے بغیر ٹرین میں سفر کررہے تھے، آسانی سے پکڑے گئے اورکچھ بھاگنے کے راستے تلاش کرنے لگے۔ اسی اثناء میں ایک ایسا شخص بھاگتا ہوا دکھائی دیا جس نے تہمند اور کرتہ پہن رکھا تھا ،وہ آگے آگے بھاگ رہا تھا جبکہ پولیس والے اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ جب راستے میں کھڑے ہوئے کسی پولیس والے نے کرتا پکڑ کر اسے روکنے کی کوشش کی تو اس کا کرتا اتر گیا لیکن اس شخص کے بھاگنے کی رفتار میں کوئی کمی نہ آئی۔ پلیٹ فارم کے آخری حصے میں ایک اور پولیس والا اس شخص کو پکڑنے لگا تو اس کے ہاتھ میں اس کا تہمند آ گیا۔ نتیجتاً تہمند بھی پولیس والے کے ہاتھ میں رہ گیا اور وہ شخص ننگا ہی بھاگتا ہوا ریلوے کی حدود سے باہر نکل آیا۔ اسے ننگا دیکھ کر وہاں موجود افراد کی ہنسی نہ رکتی تھی۔ جب وہ اپنے کپڑے واپس لینے گیا تو پولیس والوں نے اسے پکڑ لیا۔ تب اس نے پولیس والوں سے پوچھا کہ تم نے مجھے کیوں پکڑا ہے تو انہوں نے کہا کہ تم بغیر ٹکٹ ریل گاڑی میں سفر کررہے تھے۔ اس نے کہا کون کہتا ہے کہ میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے۔ میرا کرتا لاؤ جب کرتہ لایا گیا تو اس نے جیب سے ٹکٹ نکال کر پولیس والوں کے حوالے کر دیا، جس پر سبھی لوگ حیران رہ گئے۔
( جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785377 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.