ہیگ ، ہالینڈ میں قائم مستقل عدالت برائے ثالثی یاعالمی
ثالثی عدالت نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا اور رتلے پن بجلی
منصوبوں سے متعلق پانی کی تقسیم کے6 دہائیوں پرانے معاہدے سے جڑے تنازع
پربھارت کا پرمیننٹ کورٹ آف آربیٹریشن کے دائرہ اختیار پر اعتراض مسترد
کرتے ہوئے سات سال بعد پاکستان کی درخواست منظور کرلی۔جو کہ حکومت پاکستان
کو بڑی کامیابی ہے۔اس پیش رفت کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات پر
اپنی اہلیت کو آگے بڑھانے کا راستہ قراردیا جا رہا ہے جو کہ سندھ طاس
معاہدے کی تشریح اور اطلاق پر مبنی ہے۔ثالثی عدالت نے اہلیت کو برقرار
رکھتے ہوئے یہ طے کیا کہ اب وہ تنازعات اور مسائل حل کرنے کے لیے آگے بڑھے
گی۔ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک
بنیادی معاہدہ ہے، پاکستان تنازعات کے حل کے طریقہ کار سمیت معاہدے کے نفاذ
کے لئے پرعزم ہے۔بھارت سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ بھی نیک نیتی کے ساتھ
معاہدے پر عمل درآمد کرے گا۔پاکستان نے 19 اگست 2016 کو سندھ طاس معاہدے کے
آرٹیکل 9 کے مطابق ایڈہاک ثالثی عدالت کے قیام کی درخواست کرکے قانونی
کارروائی کا آغاز کیا تھا۔پاکستان نے یہ قدم بھارت کی جانب سے 2006 میں کشن
گنگا (دریائے نیلم)پراجیکٹ اور 2012 میں دریائے چناب پر رتلے پروجیکٹ کے
لئے شروع ہونے والے ’پرمننٹ انڈس کمیشن‘ میں اپنے تحفظات کو سختی سے اٹھانے
اور پھر جولائی 2015 میں نئی دہلی میں ہونے والے حکومتی سطح کے مذاکرات میں
ناکامی کے بعد اٹھایا ۔پاکستان نے کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ تحفظات دور
کرنے سے بھارت کے مسلسل انکارکے ردعمل میں کیا۔یہ معاہدہ تنازعات کے حل کے
لئے دو فورم فراہم کرتا ہے، ایک ثالثی عدالت ہے جو قانونی، تکنیکی اور
انتظامی مسائل حل کرتی ہے اور دوسرا ایک غیر جانبدار ماہر ہے جو صرف تکنیکی
مسائل کو حل کرتا ہے۔مستقل عدالت برائے ثالثی کا خیال ہے کہ کشن گنگا، رتلے
پروجیکٹس کے تنازعہ میں ثالثی کرنا اس کے دائرہ اختیار میں ہے۔اہم بات یہ
ہے کہ تمام فریق اس عدالت کے متفقہ فیصلے کے پابندہیں جس کے خلاف اپیل نہیں
کی جاسکتی ہے۔
پاکستان نے اگست اور بھارت نے جولائی 1950میں عالمی ثالثی عدالت کے پہلے
کنونشن پر دستخط کئے ہیں۔عدالت ریاستوں کے مابین ثالثی اور تنازعات کے حل
کے لئے 1899 میں قائم کی گئی۔ پی سی اے ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو بین
الاقوامی برادری کی تنازعات کے حل کی ضروریات کے لئے ایک فورم کا کام کرتا
ہے۔جس کے رکن ممالک کی تعداد122ہے۔ اس عدالت میں اس وقت 200سے زیادہ کیس
زیر سماعت ہیں۔جن میں قابل ذکر روس اور یوکرائن ، بحرین اور قطرکے کیس ہیں۔
مرشس کی ایک ٹیلی کام کمپنی نے بھی بھارت کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیا
ہوا ہے۔ وقت عدالت کے سربراہ سیکریڑی جنرل ڈاکٹر مرسن چپلاک ہیں جنھیں
گزشتہ سال پانچ برس کے لئے ایڈمنسٹریٹیو کونسل نے منتخب کیا ہے۔ ان کا تعلق
پولینڈ سے ہے۔ وہ ایک سفارتکار، ماہر قانون اور کیمرج یونیورسٹی کے ریسرچ
فیلو رہ چکے ہیں۔امریکہ، برطانیہ، روس،فرانس، جرمنی، جاپان جیسے ممالک
سنہ1900 جب کہ چین1904سے عدالت کے رکن ہیں۔ بھارت کا موقف عدالت نے اس لئے
مسترد کر دیا کہ یہ عدالت ممالک کے درمیان ثالثی اور تنازعات کے حل کی دیگر
صورتوں میں سہولت فراہم کرنے کے لئے ہی قائم نہیں کی گئی بلکہ یہ ایک جدید،
کثیر جہتی ثالثی ادارے کے طور پر کام کر رہی ہے جو بین الاقوامی برادری کی
بڑھتے ہوئے تنازعات کے حل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہے۔اس کا تین
حصوں پر مشتمل تنظیمی ڈھانچہ ہے جو ایک انتظامی کونسل پر مشتمل ہے جو اس کی
پالیسیوں اور بجٹ کی نگرانی کرتی ہے۔ دوم،آزاد ممکنہ ثالثوں کا ایک پینل
جسے ممبرز آف کورٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، اورسوم، اس کا سیکرٹریٹ ہے، جسے
انٹرنیشنل بیورو کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ بین الاقوامی ثالثی میں انتظامی
مدد فراہم کرتا ہے جس میں ریاستوں، ریاستی اداروں، بین الاقوامی تنظیموں
اور نجی گروپوں کے مختلف امتزاج شامل ہیں۔اس کا کام صرف ثالثی تک ہی محدود
نہیں بلکہ اس میں بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل کی دوسری شکلوں میں مدد
فراہم کرنا بھی شامل ہے، بشمول ثالثی، مفاہمت، اور متبادل تنازعات کے حل کی
دیگر اقسام۔اسے اپنے بین الاقوامی دفاتر اور دنیا بھر میں سماعت کی سہولیات
تک رسائی حاصل ہے۔یہ ریاستوں، ریاستی اداروں، بین الاقوامی تنظیموں اور نجی
جماعتوں کے مختلف امتزاج پر مشتمل حقائق کی کھوج/انکوائری کمیشنوں میں
انتظامی مدد فراہم کرتا ہے۔پی سی اے اپنی سہولیات بعض بین الاقوامی ثالثی
اداروں کے قواعد کے تحت قائم کردہ ٹربیونلز کی درخواست پر، یا ایڈہاک پر
متفق ہونے والے قوانین کے مطابق فراہم کرتا ہے۔
عدالت بھارتی موقف مسترد کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ، ''ایک متفقہ فیصلے
میں، جس کے فریقین پابند ہیں اور اپیل نہیں کی جا سکتی، عدالت نے ہندوستان
کے ذریعہ اٹھائے گئے ہر اعتراض کو مسترد کردیا اور اس بات کا عزم کیا کہ
عدالت پاکستان کی ثالثی کے لئے درخواست میں پیش کردہ تنازعات پر غور اور اس
کا تعین کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔'' پاکستان کی نمائندگی بین الاقوامی
ماہرین کی ایک ٹیم نے کی۔ بیرسٹر احمد عرفان اسلم نے پی سی اے میں پاکستان
کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کیا۔بھارت دریائے نیلم یا کشن گنگا کا رخ موڑ کر
اس پر 330 میگا واٹ ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ تعمیر کر رہا ہے۔بھارت دریائے
چناب پر 850 میگاواٹ رتلے پن بجلی گھر تعمیر کر رہا ہے۔اسلام آباد نے 19
اگست، 2016 کو انڈس واٹرس معاہدے کے آرٹیکل IX کے تحت ثالثی کی ایک ایڈہاک
کورٹ کے قیام کی درخواست کرتے ہوئے قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔ پاکستان
نے جولائی 2015 میں نئی دہلی میں منعقدہ سرکاری سطح کے مذاکرات کے ذریعہ
ایک قراردادپیش کی۔عدالت جانے کا فیصلہ ہندوستان کی طرف سے اٹھائے جانے
والے خدشات کو دور کرنے سے انکار کے جواب میں کیا گیا۔ 12 دسمبر، 2016 کو
ورلڈ بینک نے ثالثی عدالت کے قیام یا غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے عمل کو
معطل کردیا اور دونوں ممالک کو ایک فورم پر بات چیت اور اتفاق رائے کی دعوت
دی۔تاہم، پاکستان اور ہندوستان، اس سے اتفاق نہ کر سکے اور ورلڈ بینک، چھ
سال کے بعد آخر کار معطلی ختم کردی ، ثالثی کی عدالت تشکیل دی اور غیر
جانبدار ماہر مقرر کیا۔تا ہم بھارت نے معطلی کے دوران کشن گنگا پروجیکٹ کی
تعمیر مکمل کر لی - عدالت نے اپنے بیان میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں، لیکن
بتایا کہ ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں سے متعلق دفعات کے ساتھ دو طرفہ سندھ طاس
معاہدے کی تشریح اور اطلاق پر توجہ دی جائے گی۔پی سی اے کے فیصلے کے
بعدپاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان انڈس واٹرس معاہدے پر عمل کے
لئے پوری طرح پرعزم ہے، جس میں اس کے تنازعات کے تصفیے کا طریقہ کار بھی
شامل ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے امید ظاہر کی کہ ہندوستان بھی اس معاہدے
کو نیک نیتی سے نافذ کرے گا۔مگربھارت نے ثالثی کی مستقل عدالت کے اس فیصلے
کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔عدالت کا 2016 کے مقدمے پر ایک ایوارڈ سندھ
طاس معاہدے کے آرٹیکل IX اور Annexure G کے تحت لایا گیا تھا۔ ہندوستان نے
اسی سال عالمی بینک سے اسی معاملے پر ایک غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے لئے
کہا۔دسمبر 2016 میں، ورلڈ بینک نے ثالثی عدالت اور غیر جانبدار ماہر کے
چیئرمین کی تقرری کے عمل کو روک دیا۔ چھ سال کے بعد پابندی ہٹا دی گئی اور
دونوں عمل – ثالثی عدالت اور غیر جانبدار ماہر – کو قائم کیا گیا۔ہندوستان
نے دسمبر 2022 میں عالمی بینک کو ایک خط لکھا جس میں ثالثی عدالت کی اہلیت
پر شک ظاہر کیا گیا۔ اس کے بعد یہ خط ثالثی عدالت کو پہنچایا گیا۔ ہندوستان
نے عدالتی کارروائی میں حصہ نہیں لیا اور پینل میں دو ثالثوں کی تقرری کے
اپنے حق کا استعمال بھی نہیں کیا۔خط میں ہندوستان کے اعتراضات کی بنیاد پر،
ثالثی عدالت نے ایک پریس ریلیز میں مشاہدہ کیا کہ وہ اس معاملے پر فیصلہ دے
سکتی ہے۔عدالت نے کہاــ’’عدالت ہندوستان کی طرف سے اٹھائے گئے ہر اعتراض کو
مسترد کرتی ہے اور یہ طے کیا جاتا ہے کہ عدالت پاکستان کی ثالثی کی درخواست
میں درج تنازعات پر غور کرنے اور ان کا تعین کرنے کی مجاز ہے''۔ہندوستان کی
وزارت خارجہ نے کہاکہ یہ نئی دہلی کا ''مسلسل اور اصولی'' موقف رہا ہے کہ
''نام نہاد ثالثی عدالت کا آئین سندھ طاس معاہدے کی دفعات کے منافی ہے''۔
''ہندوستان کو غیر قانونی اور متوازی کارروائیوں کو تسلیم کرنے یا اس میں
حصہ لینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے جس کا اس معاہدے میں تصور نہیں کیا
گیا ہے''۔ ہندوستانی حکومت پاکستان کے ساتھ ''معاہدے کے آرٹیکل XII (3) کے
تحت سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کے بارے میں'' بات چیت کر رہی ہے۔ ''یہ
حالیہ پیش رفت صرف اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس طرح کی ترمیم کیوں
ضروری ہے،'' ۔ہندوستان کا کہنا ہے کہ کشن گنگا اور رتلے پراجیکٹس سے متعلق
تنازعہ پر ایک غیر جانبدار ماہر پہلے ہی ''موجود'' ہے۔غیر جانبدار ماہرین
کی آخری میٹنگ 27-28 فروری 2023 کو دی ہیگ میں ہوئی تھی۔ غیر جانبدار
ماہرین کے عمل کی اگلی میٹنگ ستمبر 2023 میں ہونے والی ہے۔بھارت اس بہانے
ہیگ کی عدالت کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا کر حقائق پر پردہ دالنے اور
سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ بھارت کے پاس
ایک طاقتور اور تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہے جو جنوبی ایشیا میں آئیندہ
چند برسوں میں ایٹم بم سے بھی زیادہ موثراسلحہ کے طور پر متعارف ہو رہا
ہے۔جدوجہد آزادی کو کچلنے کی سرتوڑ کوشش اورمسلہ کشمیر کی ہئیت تبدیل کرتے
ہوئے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں کا پانی روک کر یا ان کا رخ موڑ کر
بھارت یہ ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔ چین کے بارے میں بھی
بعض رپورٹس میں بتایا گیا کہ وہ بھارت کی جانب بہنے والے دریاؤں کا پانی
روکنے یا ان کا رخ موڑرہا ہے۔چین کی طرف سے تبت کے راستے جو دریا بھارت کی
جانب بہتے ہیں ان پر متعدد مقامات پر چین نے بجلی پروجیکٹ قائم کئے
ہیں۔بھارت نے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں کا رخ موڑنے کا عمل کئی سال
پہلے شروع کیا ہوا ہے۔ برفانی وسعت اور شفاف پانی کے وسیع ذخائر کی وجہ سے
تبت کو قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد ''تیسرا قطب'' کہا جاتا ہے۔ چین کو
تبت کے پانیوں پر واضح ملکیت حاصل ہے، اسی وجہ سے چین جنوبی ایشیاء کے سات
تیز ترین دریاؤں یعنی دریائے سندھ، گنگا، برہما پیترا، اراواڈی، سالوین،
یانگسی اور میکونگ کا کنٹرولر ہے۔ یہ دریا پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش،
میانمار، لاؤس اور ویتنام میں بہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تبت کے سطح
مرتفع اور چین کے زیر انتظام علاقوں سنکیانگ اور اندرونی منگولیا سے ہر سال
718 بلین مکعب میٹر سطح کا پانی پڑوسی ممالک کی جانب بہتا ہے۔اس میں سے بھی
تقریباًنصف پانی، 48فیصد براہ راست انڈیا میں جاتا ہے۔
لاہور میں دریائے راوی میں کشتیاں چلتی تھیں، وہاں آج صرف ریت دکھائی دیتی
ہے۔بھارت نے خطے میں پانی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کی پہل کی
ہے۔دریائے جہلم، دریائے چناب اور دریائے نیلم پر پہلے لا تعداد ڈیم تعمیر
کئے اور پھر ان دریاؤں کا رخ موڑنے کا سلسلہ شروع کیا۔ سندھ طاس معاہدے کی
خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کا پانی بھی بند کردیا۔ اس معاہدے کی
آڑ میں پاکستان کی جانب بہنے والے تین دریا مکمل خشک کر دیئے گئے۔ ہندوستان
وسائل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی راہیں ہموار کر رہا ہے۔جب
کہ اس خطے میں چین کے بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹس جیسے ساؤتھ شمالی واٹر
ڈائیورژن پروجیکٹ اور ویسٹ ایسٹ پاور ٹرانسفر پروجیکٹ دریاؤں کا رخ موڑتے
ہوئے قائم ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس کی آبپاشی اور بجلی کی ضروریات کو
پورا کرنے کے لئے پانچ سالہ منصوبے کے مطابق چینی حکومت سالوین، اپر
میکونگ، اپر یانگزی اور برہما پترا پر 120 گیگا واٹ نئے پن بجلی گھر
تعمیرکر رہی ہے۔آزاد کشمیر میں، چین پانچ ڈیموں کی مالی اعانت اور تعمیر
کررہا ہے۔پانی کے اشتراک سے متعلق باہمی طے شدہ تنازعات کے حل کے میکانزم
کی موجودگی، اور بین الاقوامی تنازعات کے حل سے انکار کے ساتھ، بھارت کے
پاس کون سے سفارتی حل دستیاب ہو سکتے ہیں۔ مگرچین نے بھارت کی طرح بین
السرحدی دریاؤں کو آلودہ کرکے ان کوناقابل استعمال کرنے جیسی تخریب کاری
نہیں کی ہے۔ سیانگ دریا جو برہما پترا کی تشکیل کے لئے لوہت اور دیبنگ کو
ملاتا ہے، تین سال قبل کیچڑ کی شکل اختیار کر گیا اور 2017اور اس کے پانی
کا رنگ بھی سیاہ ہو گیا تھا۔ یہ پانی انسانی استعمال کے قابل نہ رہا۔اس سے
وادی سیانگ،جسے اروناچل پردیش کے چاولوں کا ایک پیالہ کہا جاتا ہے، میں
زراعت کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی، ، اور اس کا ماہی گیری پر بھی نقصان
دہ اثر پڑا ۔دریا کا رنگ نومبر 2017 میں آنے والا زلزلہ کی وجہ سے سیاہ ہو
گیا تاہم بھارت نے پروپگنڈہ کیا کہ زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے سے پہلے ہی
دریا کے پانی میں بدلاؤ آگیا تھا۔جب پاکستان کے ماہرین کشن گنگا ڈیم کا
جائزہ لینے سائٹ پر گئے تو اس کے فوری بعد بھارت نے پلوامہ دھماکے کئے جس
میں اپنے ہی 50سے زیادہ فوجیوں کا ہلاک کر دیا گیا۔ پلوامہ کو مودی نے اپنی
سیاست اور سفارتکاری کے لئے استعمال کیا۔ اس کے بعد پاکستان کے ماہرین کے
دوروں پر روک لگا دی اور کشن گنگا ڈیم تعمیر کر لیا۔ دریا کا رخ بھی موڑا
گیا۔ اگر چین بھی مصنوعی جھیل نما پانی چھوڑے توبھارت کے کئی علاقے زیر آب
آکر تباہ ہو سکتے ہیں۔ پریچو جھیل کے جون 2020 میں اس وقت ٹوٹنے کا خدشہ
پیدا ہوا جب دریا میں 12 سے 14 میٹر تک اضافے کا مشاہدہ کیا گیا۔بھارت نے
بھی تعمیر کردہ ڈیموں کو ضرورت سے زیادہ اونچا کیا ہے۔ کشمیر اور آبی
تنازعات کو بین الاقوامی تنازعہ کے تصفیے کے طور پر حل کرنے سے گریز کی راہ
اختیار کی ہے۔ پاکستان اس صورتحال میں بہنے والے ندی نالوں، بارش کے پانی
اور سمندر کے پانی کو پینے اور آبپاشی کے لئے بروئے کار لانے کی طرف ہنگامی
طور پر توجہ دے۔ پاکستان ایسے ممالک کے اتحاد کی رہنمائی کر سکتا ہے جنھیں
مشترکہ پانی سے متعلق ایسی صورتحال کا سامنا ہے۔اس طرح کا اتحاد اجتماعی
طور پر کسی بھی طرح کی خلاف ورزیوں پر معاشی پابندیاں عائد کرسکتا ہے۔
مشترکہ آبی وسائل کے باہمی تعاون اور مساویانہ استعمال کے لئے بھارت، جنوبی
اور جنوب مشرقی ایشیاء کے دیگر ممالک پانی کو جنگی ہتھیار کے بطور استعمال
نہیں کرسکیں گے۔
بھارت کے جیو پولیٹیکل شطرنج میں پانی ایک ہتھیار بن رہا ہے۔بھارت کا ڈیمز
بنانے کا پروگرام ماحول کو بھی تباہ کر رہا ہے اور اسے اپنے ہمسایہ ممالک
کو زیر کرنے کے قابل بنا رہا ہے۔کئی صدیوں پہلے، عظیم چینی فلسفی سن زو نے
مشاہدہ کیا کہ فوج کی شکل پانی سے ملتی ہے۔ دشمن کی تیاریوں سے فائدہ
اٹھائیں۔ اس پر حملہ کرو جب اسے امید نہ ہو۔ اس کی طاقت سے بچو اور اس کے
خالی پن پر حملہ کرو اور پانی کی طرح کوئی بھی آپ کا مخالف نہیں ہوسکتا۔چین
نے لاؤس، کمبوڈیا، ویتنام اور تھائی لینڈ پر آبی جنگیں مسلط نہیں کیں۔ قوی
میکونگ دریا کی ابتدا تبتی سطح مرتفع سے ہوتی ہے۔جس سے نچلی میکونگ بیسن
ناقابل یقین حد تک زرخیز اور جنوب مشرقی ایشیاء کے چاولوں کا کٹورا بنتا
ہے۔یہ دریا اس کے نچلے حصے میں رہنے والے تقریبا 60 ملین لوگوں کو رزق
فراہم کرتی ہے۔ یہ مچھلی، پرندوں اور جنگلی حیات کے ساتھ مل کر دنیا کے سب
سے فائدہ مند دریاؤں میں سے ایک ہے۔اسی طرح2019 میں، میکونگ خشک ہونا شروع
ہوا۔ سوکھے کی وجہ سے 100 سے زیادہ سالوں میں پانی کی سطح اپنی نچلی سطح پر
آگئی۔ اگرچہ میکونگ ڈیلٹا میں زبردست فصل تھی، لیکن خشک سالی اس زرخیز خطے
میں پانی کی قلت ظاہر کرتی ہے۔خشک سالی نے چاول کی فصل کو متاثر نہیں کیا
ہے، لیکن اس نے تھائی لینڈ کی چینی کی پیداوار کو ختم کردیا ہے۔ برازیل کی
طرح تھائی لینڈ بھی بہت زیادہ گنے اگاتا ہے۔مگرگزشتہ سال کے 14.57 ملین ٹن
کے مقابلہ میں یہاں چینی کی پیداوارصرف 9.55 ملین ٹن ہوئی۔بھارت کے پاس چین
کی طرح معاشی اور فوجی عضلہ ہے۔ دوسرے ممالک کوبھارتی سرمایہ کاری کی ضرورت
نہیں ہے۔بھارت نے چین کی طرح بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے
ذریعہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں بھاری سرمایہ کاری نہیں کی ہے۔ وہ
بحیرہ جنوبی چین میں مصنوعی جزیرے بھی نہیں تعمیر کر سکتا۔اس لئے نئی دہلی
خود کوچین کا ہم پلہ نہیں کہہ سکتا۔چین کی تبت پر فتح ہونے کے بعد سے، یہ
جنوب اور جنوب مشرقی ایشیاء میں سے گزرنے والے کچھ بڑے دریاؤں کو کنٹرول
کرتا ہے۔اس نے بڑے پیمانے پر پن بجلی ڈیمز تعمیر کئے ہیں۔بھارت بھی ایسا کر
رہا ہے۔ اب یہ بات مشہور ہے کہ ڈیموں سے ندیوں کا بہاؤ بند ہوجاتا ہے،
زلزلے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، قیمتی ماحول تباہ ہوجاتا ہے اور لاکھوں
افراد کی زندگی تباہ ہوتی ہے۔ وہ خشک سالی اور سیلاب دونوں کو بڑھاتے ہیں۔
انہوں نے دریا کے ماحولیاتی نظام کا خاتمہ کیا، ''آزاد بہہ رہے آبی
گزرگاہوں کو بے جان جھیلوں میں تبدیل کیا، پودوں اور درختوں کو ہلاک کیا،
مچھلیوں کی نقل مکانی اور افزائش کو روکا، انواع کو ناپید کردیا، اور
انسانی زندگی کے تباہ کن نمونوں کو تباہ کیا۔بھارت کے ڈیم ماحول کے لئے
خوفناک ہو سکتے ہیں۔ بھارت کوئی ایسا ملک نہیں جو معلومات کا اشتراک کرتا
ہو یا بین الاقوامی اصولوں کا احترام کرتا ہو۔جہلم، چناب، نیلم پر تعمیر
کردہ بھارتی ڈیم بھی جیو پولیٹیکل ہتھیار ہیں۔
سند ھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے نیلم پر کشن گنگا
ڈیم،چناب اور جہلم پر درجنوں ڈیم تعمیرکرنے سے پاکستان کی طرف بہنے والا
پانی کم ہوگیا ہے ۔ پنچاب میں ہزاروں ایکٹر زمین کے لئے آبپاشی ناممکن بن
کر رہ گئی ہے اور اس طرح یہ زمین بنجر ہوتی جارہی ہے۔ غرض دونوں ملکوں کے
درمیان دوسرے تنازعات سمیت آبی تنازعہ دیرینہ اورسرفہرست ہے جس کو حل کرنے
کی ضرورت ہے۔ بھارت کو عالمی ثالث عدالت نے نیلم دریا میں 9کیوبک میٹر پانی
فی سیکنڈ رواں رکھنے کو کہا تھا جس پر عمل نہیں ہو ا۔ یہی وجہ ہے کہ نیلم
میں پانی کا بہاؤ بہت کم ہو چکا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی
دھمکیوں کی جانب دنیا متوجہ نہ ہوئی۔ عالمی بینک کا کردار بھی مثبت نہیں
رہا۔ عالمی بینک نے آبی تنازعہ کے حل کے لئے غیر جانبدار ماہر تقرر کرنے کی
بھارتی درخواست منظور کی۔بھارت کو کشن گنگا ڈیم کی تعمیر مکمل کرنے کا موقع
دیا گیا۔
جب نریندر مودی نے کہا کہ وہ سند ھ طاس معاہدہ ختم کر دیں گے اور پاکستان
کا پانی روک دیں کے تو عالمی بینک یا کسی بھی عالمی فورم نے کوئی نوٹس نہ
لیا۔ بھارت یک طرفہ طور پرعاہدے ختم کرنا چاہتا ہے جب کہ ان کی عالمی ضمانت
بھی موجود ہے۔ عالمی بینک سندھ طاس معاہدہ کا ضامن ہے۔ جہلم ، چناب اور
نیلم پر ڈیم اور بجلی گھروں کی تعمیر پر پاکستان اس لئے اعتراض کرتا ہے کہ
یہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کئے گئے۔ دریائے چناب پر بگلیہار
ڈیم پر بھی بھارت نے وہی پالیسی اختیار کی جو 1978میں سلال پروجیکٹ پر
عملائی تھی۔ جہلم، چناب اور نیلم دریا مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی طرف بہتے
ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ ر یاست پرناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ بھارت کو کشمیر کا
پانی، وسائل کی ضرورت ہے۔ اسے عوام سے کوئی غرض نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی
فورسزکشمیریوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ بھارت دریائے چناب پر مجوزہ’’میار‘‘
ڈیم اور بجلی گھر منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کرنے پر رضامند ہوا تھا۔مگر
اس پرقائم نہ رہا۔ بھارت کی سیاست میں پاکستان کو ہر قیمت پر نقصان پہنچانا
سر فہرست رہتا ہے۔ مسلہ ایک میار ڈیم کے ڈیزائن کا ہی نہیں بلکہ چناب پر
تعمیر ہونے والے پکال گل، کلنال منصوبے بھی مسلہ ہیں۔ ان کے ڈیزائن بھی
پاکستان کے مفادات کو شدید نقصان پہنچانے کے لئے تیار کئے گئے۔ اگر بھارت
چناب پر 48میگاواٹ کے لوئر کلنائی منصوبے پر پاکستان کے موقف کی تائید کرتا
، جیسے کہ دعویٰ کیا گیا تو وہ ایسا ڈیزائن تیار ہی نہ کرتا۔ بھارت نے
ہمیشہ پاکستانی ماہرین کو خوش فہمیوں میں مبتلا کرتے ہوئے اپنا الو سیدھا
کر لیا۔ مذاکرات میں چناب پر 1000میگاواٹ کے پکال ڈل منصوبے پر پاکستانی
اعتراضات کو بھارت نے کسی کاخاطر میں نہیں لایا۔ یہ منصوبہ ایک ہزار
میگاواٹ بجلی پہلے فیز میں پیدا کرنے کے لئے شروع کیا گیا ۔اس کے سپل ویز
اور سٹوریج پر پاکستان کو اعتراض ہے۔ میار بجلی گھر کا پہلا فیز 120میگاواٹ
کا ہے۔ اس کے ڈیزائن کا بھی مسلہ ہے۔
پاک بھارت انڈس واٹرز کمیشن کے115ویں اجلاس کے بعد2018میں بھارت نے
پاکستانی ماہرین کو نیلم اور جہلم پر منصوبوں کا معائنہ کرنے کی اجازت دی ۔
تاریخیں بھی طے کیں۔ مگر بعد میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں پنچائتی انتخابات
کا بہانہ بنا کر مکر گیا۔بھارت مون سون بارشوں کے موسم میں پیشگی اطلاعات
اور دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کے اعداد و شمار دینے میں بھی ٹال ومٹول کرتا
ہے۔وہ اچانک پانی چھوڑ کر پاکستان میں تباہی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔وہ
مذاکرات کے دوران پیشگی معلومات فراہم کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود
وعدوں کی پابندی نہیں کرتا۔پاکستانی ماہرین کو زیر تعمیر منصوبوں کا دورہ
کرانے کی اجازت نہ دینا اس کی حکمت عملی ہے۔ماضی میں دریائے نیلم پر کشن
گنگا پروجیکٹ کا دورہ کرانے میں بھی مکاری سے کام لیا گیا۔ کشن گنگا ڈیم کی
تعمیر سے دریائے نیلم کے بہاؤ کوروکا گیا۔ بھارت کا یہ منصوبہ انتہائی
خطرناک ہے۔ یہی راستے چین کی طرف بھی جاتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بانڈی پورہ
سے گریز تک بھارتی انجینئرز کو ہی کام پر لگایا گیا ۔ مزدور بھی کشمیری
نہیں بلکہ بھارت سے لائے گئے۔ اس منصوبے کا مقصد صرف ڈیم کی تعمیر یا بجلی
گھر ہی نہیں بلکہ مبصرین کو خدشہ ہے کہ بھارت زیر زمین سرنگیں اور جنگی
نظام قائم کر رہا تھا۔کشن گنگا منصوبے کے علاقے میں کشمیریوں کا داخلہ
ممنوع تھا۔ بھارت کے اس علاقے میں سخت حفاظتی اقدامات اور رازداری سے نئے
خدشات جنم لے رہے ہیں۔ کشن گنگا ڈیم تنازعہ کو دو طرفہ طور پر طے کرنے کا
بھارتی نکتہ بھی اہم ہے ۔ پاکستان نے اس مسلہ کو ثالثی عدالت میں لے جانا
زیادہ مناسب سمجھا۔ بھارت سندھ طاس معاہدے میں نرمی چاہتا ہے۔ عالمی بینک
کی نگرانی میں دونوں منصوبوں پر پاکستان بھارت کے درمیان سیکریٹری سطح کے
مذاکرات بھی ہوئے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور
ستلج کا پانی بھارت کو دیا گیا اورمغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کو
پاکستان کے حصے میں آیا۔ دریائے راوی صحرا بن چکا ہے۔ جہاں کشتیاں چلتی
تھیں وہاں آج ریت کے ڈھیر ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے حصوں کے دریاؤں کے پانی
کو بھی روک لیا ۔ ان دریاؤں کا رخ موڑا جا رہا ہے۔بھارت میں جن سنگھی حکومت
قائم ہونے کے بعد پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں کا رخ موڑنے اور پانی
روکنے کے لئے 15ارب ڈالرز کے پن بجلی گھروں کی تعمیرجاری ہے۔بھارت مڑوہ
(کشتواڑ)کی35ہزار مسلم آبادی کو بے دخل کرتے ہوئے چناب پر 800میگاواٹ
کابرسار پروجیکٹ بھی تعمیرکر رہا ہے۔اس کے لئے ہزاروں کنال زرعی زمین، میوہ
باغات سمیت جنگلات کو تباہ کیا گیا ہے۔ دریائے چناب اور جہلم پر ڈیم اور
بجلی گھروں کی تعمیر کے لئے بھارت زیر زمین بارودی سرنگوں کے تباہ کن
دھماکے کر رہا ہے۔تین اضلاع پر پھیلی وادی چناب میں زلزلہ کے سیکڑوں جھٹکے
آچکے ہیں۔ یہ وادی مقبوضہ کشمیر کے ڈوڈہ، بھدرواہ، کشتواڑ، رام بن ، گول،
ریاسی، اکھنور جیسے بڑے قصبوں اور سیکڑوں دیہات پر مشتمل ہے۔جو وادی کشمیر
کو اننت ناگ یا اسلام آباد اور جموں خطے کو اودھم پور اور کٹھوعہ جب کہ
بھارتی ریاست ہماچل پردیش کو چمبہ سے ملاتی ہے۔ وادی چناب اور پیر پنچال کا
خطہ زلزلوں سے کئی بار لرز اٹھا۔ 2013میں یہاں زلزلے میں 70شہری جاں بحق
اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ سیکڑوں تعمیرات کو نقصان پہنچا۔یہاں ہمالیہ کا سلسلہ
ہے۔ امریکی اوریگن سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک مطالعہ میں خدشہ
ظاہر کیا ہے کہ ہمالیہ میں زلزلے سے 10لاکھ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔ بھارت
حقائق کو چھپانے کے لئے فرضی ریسرچ کرارہا ہے۔ اس ریسرچ میں ظاہر کیا گیا
کہ زلزلے کے سیکٹروں جھٹکے ڈیموں اور بجلی گھروں کی تعمیر کا شاخسانہ نہیں۔
سچ یہ ہے کہ بھارت نے ڈوڈہ، بھدرواہ اور کشتواڑ ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں
لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ کشمیر کا پانی روکنے کے
لئے بھارت کشمیریوں کا خون بہا رہا ہے۔ کشمیریوں کا لہو جہلم اور نیلم ہی
نہیں چناب اور توی میں بہہ رہا ہے۔ بھارتی ڈیموں اور بجلی گھروں کی تعمیر
سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جنگلی حیات بھی متاثر ہو رہی
ہے۔ وادی چناب زلزلہ زدہ ہی نہیں بلکہ یہاں کثرت سے سیلاب آتے ہیں اور لینڈ
سلائیڈنگ ہوتی ہے۔ بھارتی وزیراعظم کی دھمکی بھی مدنظر رکھی جائے اور اس سے
پہلے بگلیہار ڈیم کے سلسلے میں پاکستان کے بجائے بھارت کے حق میں غیر
جانبدار ماہر کا فیصلہ بھی چشم کشا ہے۔ سندھ طاس معاہدے ختم کرنے کی کوشش
اعلان جنگ سمجھی جاسکتی ہے۔
نریندر مودی نے ایک بار پاک بھارت مذاکرات اور دوستی کے لئے ایک شرط یہ بھی
لگائی تھی کہ پاکستان کو پانی دینا عسکریت پر روک لگانے سے مشروط ہو گا۔
پانی کو ایٹم بم کے متبادل کے طور پر آزما کر بھارت کی ناکامی یا کامیابی
کا حکومت کی حکمت عملی اور بین الاقوامی سفارتکاری پر ہے۔ اگر یہ موثر اور
نتیجہ خیز ہے تو بھارتی کامیابی کے امکانات اس تناسب سے کم از کم ہوں گے۔
اس کے لئے لابنگ کی جا سکتی ہے۔ خارجہ پالیسی اگر متحرک بن گئی اور اسے
عالم مفادات سے منسلک کیا گیا تو اس حکمت عملی کا نتیجہ خیز ثابت ہونا
یقینی ہو سکتا ہے۔ آبی ایشوصرف سندھ طاس واٹر کمیشن تک سکڑ گیا ہے۔ اس کے
لئے کمیشن کے اختیارات، پروفیشنل ماہرین کی خدمات، پارلیمانی کمیشن کی
تشکیل جیسے اقدامات پر غور ہونا چاہیئے۔ ہو سکتا ہے یہ کام کسی سطح پر ہو
رہا ہو کیوں کہ ظاہری طور پر ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ بھارت کے ساتھ آبی
تنازعہ کو قومی مفادات کے عین مطابق بنانا انتہائی ضروری ہے۔ بھارتی حکومت
نے مقبوضہ کشمیر میں ڈیموں اور بجلی گھروں کے تعمیر اور فوری تکمیل کے لئے
ہنگامی بنیادوں پر 16اربوں ڈالر مختص کئے اورلاکھوں عوام کی زندگی داؤ
پرلگا دی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس خطے کو متنازعہ قرار دیا
ہے۔اس لئے پاکستان یہ کیس ماہرین کی مشاورت اور تیاری کے ساتھ عالمی سطح پر
اٹھانے میں آزاد ہے۔
بھارت کا سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کا مطالبہ مغربی دریاؤں کے پاکستان کی
جانب آزادانہ بہاؤ کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ یہ معاہدہ سرحدی پانیوں کے اشتراک
سے پیدا ہونے والے حساس تکنیکی اور قانونی مسائل سے نمٹنے میں قابل ذکر حد
تک کامیاب ثابت ہوا ہے۔ مودی حکومت ملک میں عام انتخابات کے قریب آتے ہی
اپنے پاگل ووٹر بیس کو خوش کرنے کے لئے پانی کے مسئلے پر سیاست کر رہی ہے۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ بھارت تکنیکی اور ماحولیاتی مسائل کو الٹرا نیشنلسٹ
نظریہ کی قربان گاہ پر قربان کر رہا ہے۔ ایک امریکی تھینک ٹینک ادارے کو
خدشہ ہے کہ سندھ طاس میں ایک خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ معاہدے کے تحت
پاکستان اپنے پانی کا آزادانہ استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن یہ معاہدہ اس بات
کی حدیں لگاتا ہے کہ بھارت، جو اوپر کی طرف واقع ہے، ان کے ساتھ کیا کر
سکتا ہے۔ پاکستان اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ہندوستان کے ڈیم
ڈیزائن معاہدے کی شقوں کی اپنی تشریح کے مطابق ہوں۔ بھارت کی بھارتیہ جنتا
پارٹی (بی جے پی) نے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان کے ساتھ
پانی کی تقسیم پر سخت عوامی لائحہ عمل اختیار کیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم
نریندر مودی نے 2019 میں یہاں تک کہا تھا کہ بھارت دریائے راوی، ستلج اور
بیاس - جسے سندھ آبی معاہدہ ہندوستانی استعمال کے لیے تفویض کرتا ہے -میں
پانی کے ''ہر قطرے'' کوپاکستان میں بہنے سے روک دے گا۔ اسی بھارتی حکمت
عملی کے تحت عالمی ثالثی عدالت کے دائرہ کار پر سوالات اٹھائے گئے جسے
عدالت نے مسترد کر دیا۔ بھارت نے ہٹ دھرمی کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جو
عالمی برداری کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ |