کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا لیکن اب مسائل
کا گڑھ سمجھا جارہا ہے،وہ شہر جہاں ہر ایک اسی امید سے آتا تھا کہ یہاں
امن و امان کے ساتھ روزگار بھی آسانی سے مل جاتا ہے،یہاں بھائی چارہ اور
محبت ہی سب کا مذہب تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا۔
اب روشنیوں کے شہر کو تقسیم کردیا گیا ہے اب یہاں قومیتوں کی جنگ ہے،یہاں
اب اقتدار کی خاطر سیاسی لیڈرز مسائل کے حل کےلئے ساتھ بات کرنے کو تیار
نہیں ہے،میئر کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے مرتضی وہاب کامیاب ہوگئے لیکن
اب تک جماعت اسکامی کے حافظ نعیم نتائج ماننے کو تیار نہیں ہے۔
شہر میں سیوریج کے مسائل سے لیکر سڑکوں کی بدتر حالت سب کے سامنے ہے،رات کو
سفر کرتے ہوئے کراچی روشنیوں کا شہر نہیں بلکہ ویرانے کا منظر پیش کررہا
ہوتا ہے،شہری آئے روز پانی کے حوالے سے احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،کے
فور منصوبہ کب مکمل ہوگا شہریوں کے اس سوال کا جواب کسی کے پاس
نہیں،ٹرانسپورٹ کے مسائل پر حکومت سندھ نے کافی حد تک قابو پالیا ہے جو کہ
خوش آئند ہے۔
اس شہر کے ساتھ سوتیلی ماں جتنا سلوک جتنا کرنا تھا کرلیا،اب وقت آگیا ہے
کہ سب ساتھ بیٹھ کر فیصلہ کرے ۔ایک بار پھر اس شہر کی روشنیاں بحال کرنی ہے،
پھر سے کراچی کو کراچی بنانا ہوگا،اس کےلئے ہم سب کو میئر کراچی کو وقت
دینا ہوگا بطور ایڈمنسٹیریٹر ان کی کارکردگی قابل تعریف تھی،اسی بناہ پر
مرتضی وہاب کو میئر نامزد کیا گیا،
وقت آگیا ہے کہ ہم سب بااختیار میئر کو سپورٹ کرے،سندھ حکومت سے مکمل
حمایت حاصل ہے،فنڈ کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے،خود پاکستان پیپلز پاٹی
کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہہ چکے کہ میئر ڈپٹی میئر کی کارکردگی کا
میں خود جواب دونگا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بطور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو
خود بھی کراچی کی روشنیاں بحال کرنا چاہینگے تاکہ یہ تاثر ختم ہوجائے کہ
پیپلز پارٹی کراچی میں کام نہیں کرنا چاہتی ہے۔
بطور اپوزیشن لیڈر کے ایم سی حافظ نعیم ایک مظبوط اپوزیشن کرے اور شہر میں
مسائل کی نشاندہی کرے ضلع وسطی سمیت جہاں جہاں ان کے ٹاون چئیرمینز ہے وہاں
کام کرے میئر کراچی بھی فنڈ یکساں تقسیم کرے۔سب اپنی اپنی جگہ کام کرینگے
تو وہ دن دور نہیں جب یہاں ایک بار پھر روشنیاں ہوگی امن و محبت سب کا مذہب
ہوگا۔
|