آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کیامل گئے اس پر حکمران طبقہ
اوران کے حامی " صحافی" ایک دوسرے کو مبارکباد دے دے کر پھاوے ہو رہے ہیں ،
سال چھ ماہ کے بعد پھر کیا ہوگا کیا انہوں نے تین سو ارب ڈالر کوکسی
پروڈکٹیو کام میں استعمال کرنا ہے یا اسے بھی اپنی عیش وعشرت پر صرف کرنا
ہے۔جو اپنا سرمایہ ،گھر بار محلات، بیوی بچے اور بزنس دوسرے ممالک میں رکھ
کر قرض مانگتے ہیں وہ حکمران کبھی بھی قوم کے مخلص نہیں ہو سکتے۔ اس کی
واضح مثال روس سے تیل کا دوسرا جہاز آنے کے ساتھ ہی ڈیزل کی قیمتوں میں ایک
بار پھر اضافہ کر دیا گیا ہے۔اب تو لوگ دعا کر رہے ہیں کہ کہیں سستے تیل کا
تیسرا جہاز بھی نہ آ جائے کیونکہ اس کے ثمرات بھی غریب مزدور ،کسان ،عوام
کو تو ملنے سے رہے، ملیں گے ہاں اشرافیہ اور مقتدر قوتوں کی آل اولاد بیوی
بچوں کی عیاشیوں ، اندرون اور بیرون ملک تفریحی دوروں گاڑیوں پر صرف ہوں گے
اشرافیہ اور اقتداریہ کی طرف سیڈاکہ پڑے گا توصرف اور صرف عوام کی جیبوں پر
پڑے گا کیونکہ سرمایہ دار وڈیرے تو ٹیکس دینے سے رہے انہیں تو ہر چیز پر
سبسڈی مل جاتی ہے اور سدا ملتی رہے گی جیساکہ پچھلے دنوں پہلے سے مراعات
یافتہ طبقہ مزید مراعات کے حصول کے لیے سینٹ میں بل پاس کرتا رہا تاکہ
چیئرمین سینٹ تاحیات مزید سہولیات سے مستفید ہو سکے۔ میرے خیال میں ہونا تو
یہ چاہیے تھا لگے ہاتھوں ایک بل یہ بھی پاس کر لینا چاہیے کہ یہ اشرافیہ کا
طبقہ زندہ رہتے ہوئے تو ملکی دولت اپنے تصرف میں لا ہی چکا ہے مرنے کے بعد
بھی ان کی قبروں ان کے مجاوروں کیلئے کوئی ایسا پیکج اناؤنس کر لے تاکہ ان
کی قبروں کی مٹی "مال مفت دل بے رحم" کا نمونہ تا قیامت پیش کرتی رہے اور
غریب عوام جھولی اٹھا اٹھا کر ان کے "حق" میں لعن ونفرین بھیجتی رہے، مقتدر
قوتیں اور اشرافیہ کے تمام طبقے عیاشی کرتے رہیں وہ بھی عوام کے پیسوں پر
اور غریب عوام اچھی زندگی، روزگار، صحت تعلیم کے لیے ایڑیاں رگڑتے ہوئے مر
جائییا پھر یونان کشتی میں ڈوب مرے،یونان کا سانحہ جس میں ساڑھے تین سو کے
قریب پاکستانی اس دنیا سے رخصت ہوئے یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں اور نہ ہی یہ
اخری ہوگا کیونکہ نہ تو حکمرانوں نے اپنی روش بدلنی ہے اور نہ ہی کمزور بے
بس مزدور کسان عوام نے ان ظالم حکمرانوں کے خلاف کسی پلیٹ فارم پہ متحد ہو
کر اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہے اسی طرح یہاں سے فرار ہوتے رہیں گے اور کبھی
یونان ترکی اٹلی کہ ساحلوں پہ مارے جاتے رہیں گے اور حکمران ٹولہ عوام کے
نام پہ عالمی قوتوں سے حاصل کردہ قرض پر عیاشی کرتا رہے گا جس نے عوام اور
ریاست کے ڈھانچے کا انجر پنجر ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ
مقتدر قوتوں نے 7 لاکھ 96ہزار96 مربع کلومیٹر کی اس ریاست کو ایک خوبصورت
پنجرے میں بدل دیا ہے کوئی بتائے گا کہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں 12 سے 14
لاکھ نوجوان اس پنجرے سے کیوں فرار ہو گئے ،کیوں نکل گئے، کیا انہیں اچھا
روزگار پر امن زندگی یہاں دستیاب نہیں ہو سکتی تھی؟ وہ کیوں دیار غیر میں
خاک چھاننے پر مجبور کر دیے گئے وہ کیوں سمندر کی لہروں میں ڈوب کر مارے
گئے وہ کیوں اپنے بیوی بچے گھر بار ماں باپ وطن سے دور ہونیپر مجبور کر دیے
گئے کیوں ایسے حالات انہوں نے پیدا کیے اور پیدا کیے جا رہے ہیں تاکہ پیچھے
رہ جانے والے ان مقتدرہ کی نالائقی کم عقلی بے حسی غلط پالیسیوں پر انگلی
نہ اٹھانے والا رہ جائے،سننے میں آرہا ہے کہ سٹیل مل،بندر گاہیں،کراچی
اسلام آباد ائرپورٹس،موٹرویز گروی رکھے جا چکے ہیں یا رکھنے کی مکمل تیاری
ہے۔
سناتھا کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے لیکن یہاں تو " سوتیلی ماں" بھی ثابت
نہ ہو سکی اشرافیہ نے خوبصورت ریاست کو ایک خوف صورت ڈائن میں بدل دیا ہے۔
یہاں تحفظ ہے تو صرف زورآ ور کو یہاں روٹی کپڑا مکان تعلیم صحت باعزت
روزگار اور وسائل دستیاب ہیں تو صرف مقتدر قوتوں کو یا ان کے چھچھوندر
کارندوں کو غریب مزدور کسان کیلئے اس ریاست میں صرف دھکے رہ گئے ہیں ،ہاں
بچاہے تو صرف یہاں سے زندہ بھاگ جانا اگر کوئی ڈھیٹ اس حبس زدہ ماحول سے بچ
گیا تو سانس لینے کے چکر میں کہیں تاریک راہوں میں مارا جائے گا ہاں یہاں
بچے گا وہی جو ظالم ہوگا۔شریف النفس حساس، عزت دار، سمجھدار کا یہاں کیا
کام رہ گیا یا رہنے دیا گیاہے بس ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ظالم کے ساتھ مل
جاؤ جو اس کی ہاں میں ہاں ملائے وہ جان کی امان پائے ورنہ رسوائی ذلت
تنہائی قید کی چکی میں بسنے کے لیے تیار رہے۔ یہاں اشرافیہ اور اقتداریہ کا
ہر طبقہ ملکی وسائل پر قابض ہے اور عیاشی میں مصروف ہے ،امیر، امیر تر اور
غریب، غریب تر ہو گیا ہے۔ درسی کتابوں میں تو یہی لکھا ہے کہ ہم نے یہ ملک
بڑی قربانیوں کے بعد ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزت و تار تار کروانے کے بعد
حاصل کیا تھا تاکہ ہم پر امن باعزت زندگی کے مستحق ٹھہریں لیکن ہوا تو ان
75سالوں میں اس کے برعکس ہے اگر لاکھوں قربانیاں دے کے بہتر مستقبل کے لیے
1947 میں یہ وطن حاصل کیا تھا تو پھر آج لاکھوں نوجوان بہتر مستقبل کے لیے
انھیں انگریزوں کے پاس کیوں جا رہے ہیں آمروں سے لے کر جمہوری آمروں تک اور
خاص مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے درسی نصابی کتابوں کے ذریعے سمومی ذہن سازی
اور دولیشاہی بند دماغوں سے ہٹ کر اگر سوچا، سمجھا ،پرکھا، خوب پڑھا جائے
تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے اور افسوس صد افسوس ایسا محسوس ہوتاہے کہ واقعی
یہ ملک غریب مزدور کسان کے لیے نہیں بلکہ اس وقت کی عالمی اسٹیبلشمنٹ نے
اپنے خاص مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں کے " کاٹھے انگریزوں"وڈیروں
جاگیرداروں رساگیروں سرمایہ داروں کے لیے بنایا گیا جن کی نسلیں اور لگتے
لانے آج بھی اقتداریہ و اشرافیہ میں شامل ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر
عوام کو ان کی قربانیوں کے وہ فیوض و ثمرات کیوں نہیں مل پا رہے۔صاف واضح
ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے پیش نظر عوام کی فلاح و بہبود اور خوشنودی نہیں
بلکہ اپنے اصلی یعنی برطانوی اور امریکی سامراج کی خوشنودی حاصل کرنا ٹھہرا
ہے پاکستان کی سیاسی معاشی ابتری کو دیکھتے ہوئے شاید ولی خان سے کسی نے
پوچھا کہ پاکستان کے مسائل کا حل کیا ہے تو انہوں نے بڑا ہی مختصر اور جامع
جواب دیا کہ" امریکہ سے پوچھو" اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
دراصل ہمارے اوپری طبقے اور ریاست کا مالک امریکہ، برطانیہ ہے نہ کہ عوام،
ہمارے ریاستی ذمہ داران نے ہمیشہ عوام کی بجائے ظالم استعماری قوتوں کے
حقوق کی نگہبانی کی ہے بظاہر تو ہم 1947ء میں گورے انگریز سے آزاد ہو گئے
لیکن ہم اب بھی ان کے پروردہ ان کے ذہنی غلام کالے اور کاٹھے انگریزوں کے
غلام ہیں جو انہی کی زبان بولتے انہی کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں نہ کہ غریب
مزدور کسان کے بات اگر ایسا ہوتا تو یقینی بات ہے کہ یہاں کی پالیسیاں بھی
آزاد ہوتیں، عوام کیلئے ہوتیں، عوام میں سے ہوتیں عوام کیلئے ہوتیں نہ کہ
عوام دشمن۔ عجب بدقسمتی ہے کہ ہم آج بھی ان کیہی سیاسی معاشی غلام ہیں انہی
کے پے رول پہ کام کرنے والے ہم پر حاکم ہیں لیکن اب وقت قریب ہے سامراجی
ظلم نا انصافی کا خاتمہ جلد ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ایسے ہی جیسے مولانا
ظفر علی خان ازادی سے پہلے انگریز سامراجیت کے حوالے سے کہا تھا کہ ان کا
دنیا میں خاتمہ ہو کر رہے گا سرمایہ دارانہ جاگیر درانہ سوچ اپنی منطقی
انجام کو پہنچنے کو ہے۔
ڈھائی جائے گی بنا، یورپ کے استعمار کی
ایشیاء آپ اپنے حق کا پاسباں ہو جائے گا
نغمہ آزادی کا گونجے گا حرم اور دیر میں
وہ جو دارالحرب ہے دارالاماں ہو جائے گا
اگر بغور دیکھا جائے جس طرح چین نے ایران سعودی عرب تعلقات کو بحال کروایا
ایسے ہی ہوش مندی تدبر اور فہم و فراست سے اگر اس خطے کے ساتھ ساتھ عالمی
امن کیلئے راہیں ہموار کرنا ہیں توپھر پاکستان اور انڈیا کو بھی اپنے
معاملات اور تعلقات کو نئے سرے سے دیکھنے کی ضرورت ہے اگر انڈیا پاکستان
سمارٹ اینڈ وائزلی ایکٹ کریں تو یقینی بات ہے کہ ایشیا یورپی یونین کی طرز
پر اپنے مفادات امن اور عوام کی جان و مال فلاح و بہبود بہتری کے بہت
نمایاں اثار پیدا کر سکتے ہیں لیکن مسئلہ وہی ظالم سرمایہ دارانہ، ورلڈ
بینک، ائی ایم ایف، اور انگریز چٹی چمڑی کی چاترحاضر دماغی ،چستی اور اس کی
شاطرانہ بچھائی گئی معاشی و سیاسی شطرنج کے مہروں کی مانند چال ہے، جب تک
ان کو سمجھیں گے نہیں اور اس کے تحت لائحہ عمل اختیار نہیں کریں گے یقینی
بات ہیانڈوپاک کے ساتھ ساتھ ایشیا اپنے حق کا پاسبان ہونے سے رہا، کیونکہ
اس کے نمائندے ہر روپ میں یہاں وافر مقدار میں دستیاب ہیں ان کے پٹھو
جمہوری اور غیر جمہوری قوتیں امریکہ برطانیہ کی آشیرباد کو ریاست عوام ان
کی فلاح و بہبود اور تحفظ کی بجائے مقدم سمجھتے ہیں جب تک ان کی بچھائی
بساط کے مہرے کھسکا نہیں دیے جاتے یا کھسک نہیں جاتے، اصل حقیقی آزادی اور
عوامی راج اور فلاح و بہبود کا خواب، خواب رہے گا۔ دیکھنیوالا ہوگا جب بھی
کوئی کڑا وقت ملک و قوم پر آیا تو یہ کاٹھیانگریز اپنے پینٹ کوٹ نکٹائیاں
جھاڑتے ہوئے ان کی گود میں جا پناہ لیں گے کیونکہ یہ لوگ اپنامال، اولاد،
جائیداد سب کچھ پہلے ہی سے یہ وہاں شفٹ کر چکے ہیں انہیں غریب عوام کی کوئی
پروا نہیں نہ ہی کبھی ہوگی کیونکہ ان کے خمیر میں ہی نہیں اگر انہوں نے
کوئی سبق سیکھنا ہوتا تو انہی71ء میں دو لخت ہوئے پاکستان کے بعد جمہوری
اور غیر جمہوری طبقہ سبق سیکھ لیتا وہ امریکہ کے بحری بیڑے کی امداد اور
آمد کے چکر میں ملک کا بیڑا غرق کروا بیٹھے اور پھر بھی اس کی جھولی سے
نکلے نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم ان استعماری قوتوں کے چنگل سے نکلنے کی
کوئی سبیل سوچتے خاکم بدہن ان کے کرتوتوں کی وجہ سے دو لخت کی بجائے ریاست
چار لخت بھی ہو جائے تو ان ظالموں کی جوتی کو پروا نہیں ہوگی یہ بوریابستر
سمیٹیں گے اور جا ان کے کتے نہلائیں گے۔
ہاں یہ بڑا مشکل ہے کہ انڈو پاک ان کے چنگل سے نکل پائیں اور اپنی آذادانہ
حکومتیں بنائیں اور عوام کی فلاح بہبود پر توجہ دیں اگر ایسا ہو جائے کہ
انڈیا پاکستان، چین، روس، سعودی عرب ایران یہ ساراخطہ جو کہ افرادی ،معدنی،
بری و بحری ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے اکٹھے ہو کر" ایشین یونین "بنا
لے تو یورپ ، امریکہ ،برطانیہ ہمارے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے
اور اسی طرح جیسے ماضی میں یونانی پرتگیزی، فرانسیسی، برطانوی اس خطے میں
روزی روٹی اور تجارت کی غرض سے آیا کرتے تھے اب بھی وہ ہماری طرف آئیں گے
لیکن ناک رگڑتے ہوئے گھٹنوں کے بل اور ان کے نوجوان ہمارے نوجوانوں کی طرح
اپنے سی وی تیار کر رہے ہوں گے ایشیائی ممالک میں نوکری کی تلاش میں۔فطری
ماحول کے مطابق رہنے کے قابل یہ ایشیائی خطے ہی ہیں یورپ تو سخت برفیلے
تودوں میں گرا ہوا ہے انہوں نے تو دنیا بھر کی دولت کو لوٹ کر اس ماحول کے
مطابق خود کو ایڈجسٹ کیا ہے۔چٹی چمڑی والے گورے انسان دوست نہیں ہو سکتے
اور نہ ہی وہ ہیں تاریخی طور پر دیکھ لیں کہ پہلی عالمی جنگ 1914ء سے 18ء
تک پھر دوسری عالمی جنگ 1939ء سے 45ء تک کروڑوں انسان بیچارے ان کی جنگلی و
جنگی پالیسیوں کی نظر ہوگئے جب وہ خودتھک ہار کر آپس میں مل بیٹھے بہ امر
مجبوری تو انہوں نے دنیا بھر میں جنگ و جدل کا بازار گرم کر دیا چاہے وہ
عراق، افغانستان شام، لیبیا ہو یا اور دوسرے ممالک، ہر جگہ وہ جنگ و جدل
اسلحہ ظالم سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے دنیا بھر کے امن کے لیے خطرہ بنے
ہوئے ہیں۔
ہاں یہ سچ ہے اگر کبھی دنیا میں امن اشتی فلاح بھلائی کا کوئی سراغ ملا تو
یہ انڈو پاک چین روس اورایشیائی ممالک سے ہی وہ سراغ ملے گا کیونکہ تاریخ
اٹھا کے دیکھی جائے تو کبھی بھی ہندوستان، چین نے دنیا پر اپنی زبردستی
ظالمانہ جابرانہ قوت کو منوانے کی کوشش نہیں کی ہندوستان نے تو کبھی باہر
حملہ ہی نہیں کیا یہ دھرتی ماتا کو چھوڑنے تصور ہی نہیں رکھتے کیونکہ
انڈوپاک انسان دوست صوفی، بھگتوں درویشوں کی دھرت ہے ان کی پرانی تہذیبیں
ہیں موہنجوداڑو ہڑپہ ٹیکسلا گنگا جمنی تہذیب یہ مل بانٹ کے کھانے والے ہیں،
کھلانے والے ہیں بلکہ دوسروں کو کھلا کر زیادہ راضی ہونے والے اس خطے کے
جینز میں شامل ہے جبکہ آج کے سو کالڈ ترقی یافتہ مہذب چٹی چمڑی انگریز اگر
دیکھا جائے تو وہ اپنی نفسا نفسی خود غرضی کی بدولت اپنے ماں باپ آل اولاد
تک کو بوجھ سمجھتے ہیں اور بالاخر ان کا مقدر فیملی کی بجائے اولڈ ایج ہوم
ٹھہرتا ہے۔مگر سوال وہی ہے کہ
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
کیونکہ" ایشین یونین" بننے کے راستے میں جو دیوار ہے وہ انڈو پاک ہی ہیں یہ
دونوں امریکن بلاک کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ
سرمایہ دارانہ سامراجی قوتوں کا جوا تار پھینکا جائے، ورلڈ بینک، ائی ایم
ایف کے بچھائے معاشی جال سے نکلنے کے لیے حوصلہ اور پلاننگ کی بہت ضرورت ہے
نہیں تو عوام کا مقدر ایسی ہی مہاجرت بے بسی بھوک ننگ ذلت رہے گی نوجوان
آگے بھی یونان کی سمندروں میں ڈوب کر مرتیرہیں گے ،تو کبھی اٹلی کے ساحلوں
میں زندہ درگور ہوں گیاور یہاں تو مقتدر قوتوں کی چاندی ہی رہے گی کیونکہ
ان کی جیبوں میں تو ہر سال چھ ماہ کے بعد تین چار سو ارب ڈالر آتیرہیں گے
موج مستی ہوتی رہے گے اور عوام مہنگائی غربت بے روزگاری کی چکی میں پستے
رہیں گے، بہتر یہی ہے کہ اس خطے کی فلاح و بہبود عوامی خوشحالی اور امن کے
ساتھ ساتھ عالمی ایکتا برابری کی راہ ہموار کرنے کے لیے نئے فیصلے ،نئے
سوشل کنٹریکٹ، نئی سوچ کو اپنانا ہوگا نہیں تو سدا کی ذلت و رسوائی تو ہے
ہی۔یہ خطہ بھوک ،افلاس ،جہالت بڑھتی آبادی و بیروزگاری کیایٹم بم پر سوارہے
جو اپنے ساتھ ساتھ عالمی امن کو بھی نگل سکتا ہے۔
|