انگریزی کی ایک کہاوت ہے کہ (Can
Get Away With It) سیاسی تجزیہ کاروں نے اس جملے کی تشریح کچھ اس طرح بیان
کی ہے کہ ‘ جو قوم و حکومت جتنی زیادہ طاقتور ہو وہ اُتنی زیادہ اپنے قول و
فعل میں تضاد کے متحمل ہوسکتی ہے۔‘ دور حاضر میں یہ مفروضہ امریکہ پر بلکل
فِٹ بیٹھتا نظر آتا ہے ۔ امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے تحت
ہر قسم کی بد معاشی کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے ۔ امریکہ کے قول و فعل میں
تضاد ہو اور کو ئی ملک اُس کی نشاندہی کرنے کی جسارت کرے تو امریکہ نفرت و
حقارت سے اُس تنقید کو نظر انداز کرسکتا ہے ۔ کیونکہ اُسے معلوم ہے کہ وہ
طاقت کے بل پر وہ اپنے دعوؤں اور عمل کے تضاد پر ناصرف پردہ ڈال سکتا ہے
بلکہ اپنی من چاہی کاروائیاں بھی جاری رکھ سکتا ہے ۔
پاکستان کے ساتھ امریکہ کے قول و فعل کا تضاد کا سلسلہ اُس وقت سے چلا آرہا
ہے ۔ جب امریکہ دنیا میں واحد سپر پاور نہیں تھا ۔ بلکہ اُس کے ناک میں
نکیل ڈالنے کے لیے پاکستان کے پڑوس میں ہی ایک عالمی طاقت سوویت یونین کی
شکل میں موجود تھی ۔ ١٩٥٠ ء کی دبائی میں کمیونزم کے خلاف امریکہ کہنے پر
پاکستان نے سیٹو اور سینٹو کے دفاعی معاہدوں میں شرکت کی ۔ لیکن ١٩٦٥ء اور
١٩٧١ء کی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ کیے گئے وعدوں اور دفاعی
معاہدوں کی پاسداری نہیں کی حتٰی کہ امریکی ہتھاروں کے پرزوں کی فراہمی بھی
بند کردی ۔ ١٩٧١ ء میں پاکستان دو لخت ہوا اور امریکہ خاموش تماشائی بنا
رہا ۔
١٩٧١ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے دفاع کو مظبوط کرنے کے
لیے ایٹمی صلاحیت کا حصول شروع کیا تو امریکہ نے ناصرف اس کی بھرپور مخالفت
کی بلکہ فرانس کے ساتھ کیے گئے دفاعی معاہدوں کو بھی ختم کرادیا ۔ ء انیس
سو اُناسی میں کے اوائل میں امریکہ نے فوجی آمریت و ایٹمی توانی کا بہانا
بناکر پاکستان پر سمنگٹن ترمیم کے تحت سخت پابندیاں عائد کردی۔ لیکن دسمبر
انیس سو اناسی میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو امریکہ نے اپنے مفادات
کی خاطر پاکستان پر عائد ناصرف تمام پابندیاں ختم کی بلکہ فوجی وردی میں
ملبوس صدر کو جمہوری صدر قرار دے دیا ۔
١٩٨٩ء میں روس ٹکڑے ٹکڑے ہوا تو امریکہ یکدم پاکستان کو نا صرف تنہا چھوڑا
بلکہ پھر ایٹمی جواز بناکر پاکستان پر پابندیان عائد کردیں۔ گیارہ مئی انیس
سو اٹھانوے کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے اٹھائیس مئی
انیس سو اٹھانوے کو چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کرکے خطہ میں طاقت کے
توازن برقرارکردیا ۔ ایٹمی توانائی کے حصول پر امریکہ نے اپنے کہنے کے عین
مطابق جس طرح بھٹو کو عبرت کا نشان بنایا تھا ۔ اسی طرح میاں نوازشریف کو
حکم عدولی کی بناء پر نا صرف اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ دس سالہ جلا
وطنی کی سزا کا مزا بھی چکھنا پڑا۔ دنیا بھر میں بھر فوجی آمریت کے خلاف
آواز اٹھانے والا امریکہ دس سال تک فوجی آمر کو پالتا رہا ۔
ٹوئن ٹاورز کی دوسری برسی کے موقع پر نائن الیون ٢٠٠٢ ء کو اس وقت نائب
وزیر خارجہ رچرڈ آرمینج نے جنرل مشرف کی وردی کے حوالے سے ایک جواب میں کہا
کہ صدرمشرف کے وردی میں رہنے سے امریکہ کو تکلیف نہیں۔ فوجی وردی میں ملبوس
صدر اور جمہوریت کے تقاضوں میں ایک تضاد ہے ۔ امریکہ اس تضاد سے باخبر تھا
لیکن اس کے قول و فعل میں تضاد سپر طاقت ہونے کی بناء پر ہے ۔
انیس مارچ دو ہزار چار کو امریکہ کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول پاکستان کے
دورے پر آئے تو انہوں نے دہشت گرد کے خلاف عالمی مہم میں پاکستان کے کردار
کو سراہتے ہوئے نیٹوسے بڑا قابل اعتبار اتحادی قراردیتے ہوئے دہشت گردی کے
خلاف جنگ میں کامیابی کو پاکستان کے مرہون منت قرار دیا ۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ ٢٨ اکتوبر دوہزار نو کی امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلٹن
نے پاکستان یاترا کے موقع پر پاکستان کو ماضی میں تنہا چھوڑنے عہد و پیماں
توڑنے کا برملا اعتراف کرتے ہوئے پاکستانی قوم سے معذرت طلب کرتے ہوئے اس
بات کا اعادہ کیا تھا کہ مستقبل میں امریکہ پاکستان کے ساتھ کیے عہد و
پیماں ناصرف نبھائے گا بلکہ پاکستان کو ہرگز تنہاء نہیں چھوڑے گا ۔ دہشت
گردی کے خلاف جنگ میں موصوفہ نے پاکستان کی قربانیوں کا عتراف کرتے ہوئے
امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی قرار دیا تھا ۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اثرات جب امریکی معشیت پر اثرانداز ہونے لگے اور
امریکی معشیت زوال پزیر اور دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچی تو امریکہ کے قول و
فعل میں پھر تضاد آنا شروع ہوگیا ۔ چند سال قبل جہاں امریکہ دہشت گردی کے
خلاف پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتا تھا اور پاکستان کو
نیٹو سے بڑا اتحادی گردانتا تھا ۔ آج اس کی نظر میں پاکستان دہشت گردوں کی
محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے ۔ وہی امریکن انتظامیہ جو بش و اوباما کی صورت
میں دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں پاکستان کے کردار کو سراہتے تھے آج
لعن طعن کر رہے ۔ پاک فوج اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گرد،
عسکریت پسند تنظیموں سے پاک فوج کا تعلق جوڑرہے ہیں ۔
ٹوئن ٹاورز کی دسویں برسی کے موقع پر امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن کا
پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے پاک فوج کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے
جوڑنا ، پاکستان کو بد اعتماد اتحادی قرار دینا ، افغانستان میں امریکی
فوجیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار پاک فوج کو قرار دینا ، واضح الفاظ میں پاکستان
کو دھمکانا کے امریکہ اپنے ملک کی سالمیت اور دہشت گردوں کے خاتمہ کے لیے
پاکستان کی حدود میں فوجی آپریشن کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ حکمرانوں کو نیندیں
غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کافی ہے ۔
اگر حاکم بیدار نا ہوئے اس نیندیں غفلت سے
تو پھر کو سانحہ مشرق پاکستان جیسا رونما نا ہوجائے |