بھتّہ خوری کا خاتمہ کون کرے گا؟؟؟

کسی دھمکی میں آکر ڈر کے مارے دل کے نہ مانتے ہوئے اگر کچھ ادا کیا جائے تو وہ بھتہ کہلاتا ہے اگر ہم آسان الفاظ میں یہ کہیں کہ بھتہ وہ ہے جو نہ چاہتے ہوئے کسی حقوق اور قرض کے بغیر ادا کیا جائے،بھتہ اور بھتہ خوری کا جب ذکر آتا ہے تو ذہن میں عروس البلاد کراچی کا نام گردش کرنے لگ جاتا ہے کیونکہ وہاں پہ بھتہ خوری کا راج ہے ویسے تو پاکستان میں ہر کہیں بھتہ چلتا ہے لیکن کراچی ان میں سر فہرست ہے ایک تو یہ پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے اور دوسرا یہاں پر بسنے والے لوگ باہر سے آکر آباد ہوئے ہیں باہر سے مراد پاکستان کے مختلف اضلاع میں بسنے والے لوگ ہیں جو بسلسلہ روزگار یہا ں رہائش پذیر ہیں یہ بات تو روز اوّل سے ہے اور تقریباََ زمانہ اسی پہ کاربند ہے کہ کمزور کو دباﺅ ،اس کا استحصال کرو اور خود اس کی محنت سے حاصل کئے گئے رزق سے عیش کرو،یہ بھتہ کلچر کو فروغ اس لئے ملتا ہے جب عادل حکمران اس دنیا سے رخصت ہوجائیں جب انصاف کا حصول مشکل ہوجائے جب طبقاتی تفریق بڑھتے ہوئے یہاں تک پہنچ جائے کہ امراء کے لئے علیحدہ انصاف نگریاں بن جائیں اور غرباء کے لئے علیحدہ انصاف نگریاں بن جائیں،یہ بھتہ خوری کا راج تب بڑھ جاتا ہے جب ظلم بڑھ جاتا ہے اور مظلوم کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہوتا،بھتہ خور ان جگہوں پر عیش کرتے ہیں جہاں امراءکی بات تو سنی جاتی ہو لیکن غریبوں کا مسیحا کوئی نہیں ہوتا،بھتہ خور وہاں حکمرانی کرتے ہیں جہاں ظالم کا راج ہوتا ہے جہاں مظلوم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ،جہاں انصاف بکتا ہو جہاں ظلم کا دور دورہ ہو جہاں حق کا پرچم لہرانے والے سو جاتے ہوں جہاں ظلم کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے ہونٹوں کو سی لی جاتا ہو،بھتہ خوری کی بھی کئی قسمیں ہیں اور ان کے مانگنے کے مختلف انداز ہوتے ہیں ویسے تو بھتہ ہر کہیں چلتا ہے لیکن ہم اگر بھتہ خوری کے گڑھ(کراچی) کی بات کریں تو وہاں پہ بھتہ مافیا کافی مضبوط ہے بھتہ خوروں نے مختلف علاقے آپس میں بانٹ رکھے ہیں جہاں سے انہوں نے فی ریڑھی،فی دکان یا فی آفس رقم مختص کر رکھی ہے جو اس غریب ریڑھی والے کو ،دوکان والے کو یا دفتر والے کو طوعاََ و کرہاََ ادا کرنا پڑتی ہے چاہے ان کا کام چلے یا نہ چلے ان کے پیٹ کا ایندھن بجھے یا نہ بجھے انہیں اس سے سروکار نہیں، اگر کوئی بندہ یہ بھتہ ادا نہ کرے یا اس کے خلاف بولنا شروع کرے تو اس کا کاروبار تباہ کر دیا جاتا ہے یہاں پر ایک بات اور کی بھی وضاحت کر دوں کہ جن کا کام تھوڑا زیادہ چلنا شروع ہوجائے اور پیسوں کی ریل پیل ہونے لگے تو ان بھتہ خوروں کو جب اس کی بھنک پڑتی ہے تو وہ ایک پرچی پر کوئی رقم اور وقت لکھ کر بھیج دیتے ہیں کہ اس وقت ہمیں اتنی رقم چاہیئے جو کہ لاکھوں میں ہوتی ہے اگر کوئی ذرا حیلے بہانے سے کام لے تو ان بھتہ خوروں کی انفارمیشن اتنی تیز ہوتی ہیں کہ انہیں پتا چل جاتا ہے اور پھر اس بندے کو یا اس کے کسی عزیز کو اغوا کر لیا جاتا ہے یا پھر وارننگ کے طور پر اسے دھمکایا جاتا ہے جس کی وجہ سے مجبور ہو کر اس بندے کو ان کی مطوبہ رقم دینا پڑجاتی ہے جو کہ اس نے کافی محنت سے کمائی ہوتی ہے اور اگربات کریں کہ ان کے خلاف کوئی بولتا کیوں نہیں ہے اور اس ظلم کو کیوں چپ چاپ سہ لیتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کی آواز بلند ہونے سے پہلے اسے خاموش کروا دیا جاتا ہے ان بھتہ خوروں کی وجہ سے کراچی میں بزنس پر کافی اثر پڑا ہے اور اکثر سرمایہ کار یہاں سے سرمایہ نکال کر باہر کی جانب رخ کر رہے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت اس کے خلاف کوئی موثر کاروائی کیوں نہیں کر رہی ؟اور بھتہ خوروں کو چھوٹ کیوں دے رہی ہے ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان بھتہ خوروں کی پشت پر کافی بااثر شخصیات ہوتی ہیں جنہیں اپنا حصہ باقاعدگی سے ملتا رہتا ہے جس کی وجہ سے ان کے خلاف کاروائی نہیں ہوتی اور یہ بھتہ خور عناصر جدید اسلحہ سے لیس کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے ان دیکھ رہے ہیں ان عناصر کو کچلنے کے لئے حکومت کو کوئی سخت حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی کیونکہ
کہیں ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لا دوا
کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

ان بھتہ خور عناصر کے خلاف سخت اور بلاتفریق کاروائی کر کے حکومت کو سرمایہ کاروں کو محفوظ بنانا ہو گا تاکہ میرا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے ۔۔

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔آمین
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 201573 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.