إنما الأعمال بالنيات

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ انماالاعمال وبنئیات یعنی ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے آپ کسی بھی کام کے لئے جیسی نیت کروگے وہ ویسے ہی ہوگا جیسے

باب قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ». وَأَنَّهُ يَدْخُلُ فِيهِ الْغَزْوُ وَغَيْرُهُ مِنَ الأَعْمَالِ:

سرکار علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ ہر عمل کا ثواب نیت سے ہوتا ہے اج ہم نیت کے متعلق پڑھیں گے کہ اچھی نیت کے کیا اجروثواب ہیں اور بری نیت کے کیا عذابات ہیں اس سلسلے کی ایک حدیث جو صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4927 ہےاور جس کے راوی ہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ اپ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ " اعمال کا مدار نیت پر ہی ہے اور آدمی کے لیئے وہی اجر ہے جس کی اس نے نیت کی ۔جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی طرف تھی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی ہے اور جس کی نیت دنیا یا کسی عورت کے حصول کے لیئے تھی تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف یے جس کی طرف اس نے ہجرت کی "۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مذکورہ حدیث کے مطابق جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مومن کو اس کی نیت کے مطابق ہی ثواب عطا ہوتا ہے یعنی جن کے اعمال صرف اللہ تعالی کی رضا کے لیئے ہوں چاہے وہ تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں اور سنت کے مطابق ہوں تو اسے قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے اور اگر کسی کے اعمال اللہ تعالی کی رضا کے بجائے دوسروں کو دکھانے کے لئے ہوں تو بھلے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں رد کردیئے جاتے ہیں لہذہ یہاں دو بات واضح ہوتی ہیں کہ اعمال کی قبولیت کے دو شرائط ہیں ایک تو یہ کہ وہ صرف اللہ کی رضا کے لیئے ہوں اور دوسرا یہ کہ وہ سنت نبوی کے مطابق ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ثابت یہ ہوا کہ انسان کے ہر عمل کے پیچھے اس کی نیت کارفرما ہوتی ہے جیسی نیت ویسا عمل جیسے سرکار علیہ وسلم نے فرمایا کہ " بیشک اعمال کا دارومدار نیت پر ہے "لہذہ نیت اگر اچھی ہوگی تو عمل بھی اچھا ہوگا اور اگر نیت بری ہوگی تو عمل بھی برا ہوگا لہذہ اعمال کے حسن اور قبولیت کا انحصار نیت پر ہوتا ہے اور یہ بات ہمیں صرف احادیث میں ہی نہیں بلکہ قران مجید میں بھی ملتی ہے اللہ رب العالمین نے سورہ العمران کی آیت نمبر 145 میں ارشاد فرمایا کہ
وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا.
ترجمہ کنزالایمان " اور جو دنیا کا انعام چاہے تو ہم اس میں سے اسے دیں اور جو آخرت کا انعام چاہے تو ہم اس میں سے اسے دیں " مطلب یہ ہے کہ کسی نیکی کے بدلے اگر کوئی دنیا کا انعام (اجر ) چاہے تو اسے وہ دنیا کا اجر عطا ہوگا اور جو اخرت کا اجر چاہے گا اسے آخرت کا اجر ملے گا نیت اور عمل کا بڑا گہرا تعلق ہے کیوں کہ انسان کا کیا ہوا کوئی بھی عمل حسن نیت کے بغیر قابل قبول نہیں اب دیکھیں اگر ہم کسی اچھے کام کی نیت کرلیں اور کسی وجہ سے وہ کام نہ کرسکے تو بھی پاک پروردگار ہمیں ایک نیکی عطا کردیتا ہے یہ ہے اس رب ذوالجلال کا کرم خاص اور نیت کا کمال ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صحیح مسلم کی ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ترجمعہ ۔۔ اگر کوئی شخص کسی نیک کام کی نیت کرلے لیکن کسی مجبوری کے باعث نہ کرسکے تب بھی اس کے نامئہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر وہ عمل کرلے تو اس کے اس عمل کرنے پر اس کے لیئے دس گناہ اجر لکھا جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب زرا غور کیجیئے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " ابن آدم میں کسی کو دس نیکیوں کا اجروثواب ملتا ہے تو کسی کو 16 نیکیاں کسی کو 166 کسی کو 766 اور کسی کو اس سے بھی زیادہ اجروثواب ملتا ہے " اب سوال یہ ہے کہ ایک ہی نیکی ایک ہی عمل اور اجروثواب الگ الگ آخر ایسا کیوں ہے ؟ تو یاد رکھیئے کہ اجروثواب میں کمی یا زیادتی ہو یا اس درجات کے کم و بیش ہونے کا معاملہ ہو یہ سب حسن نیت کی بدولت ہی ممکن ہے نیت کا یہ چراغ جس قدر روشنی دے گا اس کو اتنا ہی اجروثواب حاصل ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام ہڑھنے والوں مطلب یہ ہے کہ ہماری اچھے اور نیک کام کرنے کی نیت میں جتنی سچائی اور لگن ہوگی ہمیں اس عمل پر اتنا ہی اجر ملے گا اور اللہ تعالی ہمارے درجات کو اتنا ہی بلندی عطا کرے گا اور اگر ہماری نیت صرف اللہ تعالی کی رضا اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی خوشنودی کے لئے ہوگی تو ان شاء اللہ ہماری اس نیت کے سبب ہماری یہ عارضی دنیا اور ہمیشہ قائم رہنے والی آخرت کی دنیا بھی سنور جائے گی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی نے اپنے ہر بندے کے لیئے الگ الگ درجات رکھے ہوئے ہیں جو وہ انہیں اپنی مرضی منشاء اور مصلحت کے تحت عطا کرتا یے یہاں تک کہ جنت اور دوزخ میں بھی اس کے پاس اہنے بندوں کے الگ الگ درجات ہیں جہاں انہیں رکھا جائے گا جیسے سورہ احقاف کی آیت نمبر 19 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ " ہر ایک کے لئے اپنے اپنے عمل کے درجے ہیں اور تاکہ اللہ ان کے کام انہیں پورے بھردے اور ان پر ظلم نہ ہوگا " یعنی جنت اور دوزخ میں جو نیکوکار ہوں گے ان کے لیئے الگ درجات ہوں گے اور جو گناہگار ہوں گے ان کے لیئے الگ درجات ہوں گے سب کو اپنی نیت اور ان کے اعمال کے مطابق جزا و سزا کا حقدار مانا جائے گا کسی کے ساتھ ظلم نہ ہوگا مطلب جو دنیا میں جیسا کرے گا ویسا وہ وہاں بھرے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اپ نے سنا ہوگا کہ " نیت صاف منزل آسان " اپنے ہر کام میں اچھی اور نیک نیت کرلینے سے نتائج بھی اچھے آتےہیں اور اس کے سبب منزلیں بھی آسان ہوجایا کرتی ہیں جیسا کہ ایک شخص جس نے 99 قتل کیئے ہوئے تھے لیکن بعد میں اسے اس بات کا احساس ہوا اور وہ سوچنے لگا کہ مجھے اللہ رب الکائنات سے اپنے اس گناہوں کی معافی مانگ لینی چاہیئے گویا وہ ایک عالم دین کے پاس پہنچ گیا اور اس سے کہا کہ کیا میرے اس گناہ کے سبب مجھے اللہ تعالی کی بارگاہ سے معافی ملے گی ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس عالم نے اس سے کہا کہ 99 انسانوں کو قتل کرنے والے کو کیسے معافی مل سکتی ہے ہر گز نہیں تمہیں کوئی معافی نہیں مل سکتی تو اس شخص کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے اس عالم کو قتل کرکے اپنے ہاتھوں قتل ہونے والے انسانوں کی سنچری مکمل کرلی اور پھر وہ ایک اور عالم کے پاس پہنچ گیا جب اس سے اپنی داستان سنائی تو اس نے بڑے تحمل اور آرام سے اس کو بٹھایا اور کہا کہ پہلے تم سچی نیت کرلو کہ تم اپنے کیئے گئے گناہوں سے معافی مانگنا چاہتے ہو اور آئندہ ایسا کرنے سے توبہ کرتے ہو اور وہ بھی صدق دل سے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے کہا کہ میں واقعی توبہ کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے اس پر استقامت چاہتا ہوں تو اس عالم دین نے کہا کہ یہاں سے کچھ کلومیٹر دور ایک بستی ہیں جہاں صرف دین کی باتیں اور تبلیغ دین کا کام ہوتا ہے تمہیں وہاں جانا پڑے گا اور کچھ دن ان کے ساتھ گزارنے ہوں گے پھر تم اللہ تعالی کی بارگاہ میں جو دعا مانگو گے وہ قبول ہوگی ان شاء اللہ اس عالم دین کی بات سن کر وہ شخص علم دین کے حصول اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے سفر پر روانہ ہوگیا میرے معزز یاروں جب وہ کم و بیش آدھا راستہ پار کرچکا تو اس کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ سفر جاری رکھنے سے قاصر ہوگیا لہذہ وہیں تک گیا اور پھر موت نے اسے آگے جانے کی مہلت نہ دی اور وہ وہیں انتقال کرگیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اتنے میں جہاں سے وہ چلا تھا وہاں سے بدی کے فرشتے آنا شروع ہوگئے اور جہاں تک وہ جانا چاہتا تھا وہاں سے نیکی کے فرشتے آنا شروع ہوگئے بدی کے فرشتوں نے کہا کہ یہ قاتل ہے اور ابھی اس کی توبہ قبول نہیں ہوئی اس لئے اسے ہم لیکر جائیں گے جبکہ نیکی کے فرشتوں نے کہا کہ یہ ہمارا مہمان ہے اسے ہم لیکر جائیں گے اب دونوں طرف کے فرشتوں میں بحث چھڑ گئی پھر ایک بات پر دونوں متفق ہوگئے کہ جہاں اس کا انتقال ہوا اس جگہ سے جہاں سے وہ چلا تھا اس کا فاصلہ گن لیا جائے اور اسی طرح جہاں تک اسے جانا تھا وہاں تک کا فاصلہ بھی گن لیا جائے جہاں کا فاصلہ کم ہوگا وہاں کے فرشتے اسے لیجائیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب اللہ کسی کی توبہ قبول کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے راستہ بھی خود ہی پیدا فرمادیتا ہے بظاہر جہاں سے وہ چلا تھا وہاں سے اس کے انتقال کی جگہ کا فاصلہ کم تھا لیکن جب گنتی شروع ہوئی تو اللہ تعالی نے اس جگہ کو حکم دیا کہ وہ بڑی ہوجائے تو وہ جگہ اللہ تعالی کے حکم سے بڑی ہوگئی اور جہاں تک جانا تھا وہاں کا فاصلہ کم ہوگیا یوں نیکی کے فرشتے اسے اپنے ساتھ لیجانے میں کامیاب ہوگئے اور اسے اللہ تعالی کے حکم سے پاک صاف کفن پہنا کر خوشبو لگا کر تدفین کردی گئی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ سب حسن نیت کا نتیجہ تھا اس نے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی سچی نیت کرلی تھی اس لئے اللہ تعالی نے اسے ایک مقام عطا کردیا اور اسے بخشش پانے والوں میں شامل کردیا اسی لیئے کہا گیا کہ عمل کا پورا دارومدار نیت پر منحصر ہے کوشش یہ کرنی چاہیئے کہ ہم اپنے ہر کام میں اچھی نیت کریں تاکہ کام اچھا بھی ہو اور اچھی نیت کی وجہ سے اس میں برکت بھی ہو جو ہمارے لیئے بے حد ضروری ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں انسان کی نیت پر ہی جزا و سزا کا فیصلہ ہونا ہے اچھی نیت اچھا فیصلہ بری نیت برا فیصلہ اب دیکھیں حدیث کی ایک مستند کتاب بخاری شریف کی پہلی حدیث ہمیں اخلاص نیت کی تعلیم دیتی ہے اور اللہ تعالی نے بخاری شریف کو وہ شہرت اور مقبولیت عطا کی ہے آج کم و بیش بارہ سو سال گزرنے کے باوجود یہ کتاب احادیث مبارکہ کی کتابوں میں اپنی ایک سند رکھتی ہے اس کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں لیکن بنیادی وجہ حضرت امام بخاری کا اخلاص اور نیک نیتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حسن نیت کے بارے میں ارشاد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہے کہ بروز قیامت ایک شخص کو حاضر کیا جائے گا جس کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا جس میں وہ حج زکوہ جہاد عمرہ صدقہ لکھا ہوا دیکھے گا تو کہے گا کہ میں نے تو اس میں سے کچھ بھی نہیں کیا ضرور یہ نامہ اعمال میرا نہیں ہوگا تو اللہ باری تعالی فرمائے گا کہ یہ تمہارا ہی نامہ اعمال ہے کیوں کہ تم زندگی میں دعا کیا کرتے تھے کہ میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرتا اگر میرے پاس اسباب ہوتے تو میں بھی صدقہ کرتا جہاد کا فریضہ ادا کرتا اور چونکہ تم اپنی نیت میں سچے تھے تمہیں مال و دولت سے نہ نوازا اس میں میری مصلحت تھی لیکن اس لیئے میں نے تمہیں ان سب اعمال کا ثواب عطا کردیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہے نیت کا اجروثواب سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بروز قیامت ایک ایسا شخص بھی لایا جائے گا جس کے پاس پہاڑوں جیسی نیکیاں ہوں گی ہھر اعلان ہوگا کہ جس کے پاس نیکیاں کم ہیں وہ یہاں سے لے جائے تو وہاں پر سارے لوگ آجائیں گے اور اس کی نیکیاں سمیٹ کر لےجائیں گے یہاں تک کہ اس کی نیکیوں کا پلڑا بلکل خالی ہوجائے گا نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور وہ حیران و پریشان کھڑا دیکھ رہا ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تب اللہ تعالی فرمائے گا کہ میرے پاس تمہارا ایک خزانہ ہے جس کی خبر نہ میرے فرشتوں کو ہے نہ ہی کسی اور مخلوق کو بندہ عرض کرے گا وہ کیا ہے میرے مالک ؟ رب تعالی فرمائے گا وہ ہیں تیری ہر کام میں نیک نیتی جو تو دنیا میں یر کام کے لئے کرتا تھا میں نے وہ ساری نیکیاں ستر گناہ بڑھا کر لکھ دی ہیں جو تیرے نجات اور بخشش کے لئے کافی ہیں اب آپ اندازہ لگائیں کہ مومن کی نیت نے مومن کو بروز محشر رسوا ہونے سے بچایا اور اس کی بخشش ہوگئی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کی اس تحریر سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ کسی بھی اچھے اور نیک کام کے کرنے سے پہلے ہم اگر اس کی سچی نیت کرلیں تو ہمیں اس کا کتنا اجروثواب ملتا ہے اور وہ کام جو ہماری استطاعت سے باہر ہیں تو دل میں اس کام کی آرزو رکھتے ہوئے اس کی بھی سچی نیت کرلیں تو ہوسکتا ہے کہ ہمیں بھی نیک نیتی کی وجہ اللہ تعالی اپنے خاص اور مقرب بندوں کی طرح اجروثواب عطا کردے جو ہماری بھی بخشش کا ذریعہ بن جائے ان شاء اللہ ہم دل میں آج سے یہ عہد کرلیں کہ صرف اللہ تعالی کی رضا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کی خاطر ہر نیک اور اچھے کام کی سچی نیت کریں گے اور زیادہ سے زیادہ اجروثواب کمانے کے حقدار بن جائیں گے ۔
ان شاء اللہ العزیز ۔۔۔

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 166 Articles with 133604 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.