بلوچستان مسئلہ جس کا حل بلوچ
قومی سوال سے جڑا ہے ریاست کے عاقبت نا اندیش اقدام کے باعث ہر ڈھلتے سورج
کے ساتھ مسلسل الجھتا جارہا ہے۔ ریا ست کی عاقبت نا اندیشی کا سبب گمان یہی
ہے کہ انہیں تا حال یہ سمجھنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے کہ بلوچستان میں
امن اوامان کی بد ترین صورتحال کا بلوچ قومی سوال کے تاریخی ومادی حل سے
کیا اور کس نوعیت کا تعلق ہے ریاست معاملے کی گہرائی و گیرائی سے صرف نظر
کرکے امن و امان کی بہتری کیلئے سطحی مگر فاش غلطی کررہےہیں جس کی ایک جھلک
بقول بلوچ سیاسی حلقوں اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے “مارو اور پھینک
دو“ کی پالیسی میں نظر آتی ہے جس کے تحت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے
بلوچوں کو بلا تحصیس جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے اور بعد ازاں ان کی
تشدد زدہ لاشیں بلوچستان کے طول و عرض میں پھینک دی جاتی ہیں اس مبینہ
پالیسی کا ایک اور مظہر گزشتہ دنوں نظر آیا جب بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او
(مینگل) کے جوان سال کارکن خلیل بلوچ جنھیں اگست کے اواخر میں خضدار سے
اغواء کیا گیا کی تشدد زدہ اور گولیوں سے چھلنی لاش خضدار کے علاقے سنی سے
برآمد ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ خلیل بلوچ کا قصور بھی یہی تھا کہ وہ بلوچ قومی
سوال کے حقیقی حل پر یقین رکھتا تھا۔ مبصرین کے مطابق پاکستانی فورسز کے
باتھوں معصوم بلوچ کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ
بلوچ مزاحمت کاروں سے بری طرح شکست کھا چکے ہیں اور اپنی اس شکست کو چھپانے
کے لیے انسانی حقوق کے خلاف ورزی کے موجب بن رہیں ہیے۔ بالکل بنگلا دیش کی
طرح جہاں جب انھیں اپنی شکست واضح طور پر دکھائی دی تو انھوں نے لاکھوں
بنگالیوں کو قتل سے دریغ نہیں کیے۔ مبصرین کے مطابق شاید ریاست اسی غلطی
میں ہیں کہ وہ بلوچوں کو بنگالی سمجھ بیٹھے ہیں پر یہ ان کی خام خیالی ثابت
ہوگی۔
مبصرین کا کہنا ہے بلوچوں کی گرتی لاشیں اور صورتحال پر حکمرانوں کا سرد
اظہار لاتعلقی بلوچ عوام میں پائی جانے والی نفرت کو دو آتشہ کررہی ہے اور
یہ صورتحال اس امر کی غمازی کررہی ہے کہ اگر معاملہ جوں کا توں رہا تو
تاریخ خود بلوچ قومی سوال کے حقیقی حل کا اعلان کردے گی کیونکہ تاریخ کسی
کو معاف نہیں کرتی- |