عمران خان سے برا کون

کسی بھی شخص اور ادارے کی شہرت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ لوگ اس کی اچھائیوں اور برائیوں پہ نظر رکھنے لگیں۔اس کے بارے میں غیبت ہی سہی لیکن بات کرنے لگیں۔دوسرے لفظوں میں اس کا نوٹس لیا جانے لگے۔آج کل یہی حال عمران خان کا ہے۔وہ جو اسے طفل مکتب کہتے نہیں تھکتے۔جو اسے سیاسی طور پہ بچہ سمجھتے ہیں۔ان کا بھی یہ حال ہے کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے وہ نہیں بولتے لیکن عمران کا کوئی لفظ بھی اپنی جگہ سے ہل جائے تو تیر و سناں کی بارش ہونے لگتی ہے۔عمران اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ اسے ابھی ہماری برادری سے تنخواہ دار میسر نہیں ۔لے دے کے ایم مرشدی ہارون الرشید ہیں جن کے قلم سے کبھی عمران کے حق میں کوئی کلمہ خیر بر آمد ہو جاتا ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ برادر بزرگ سے ان کی مرضی و منشاءکے بغیر ایک لفظ لکھوانا بھی جوئے شیر اور موئے شیر لانے کے مترادف ہے۔طعن و تشنیع ہی سہی لیکن سیاسی لیڈر کی کامیابی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ لوگ اس کی مخالفت پہ کمر باندھ لیں۔

ہمارے ہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ اکثر چھاج چھاننی کو طعنے دیتا پایا جاتا ہے۔ہمارے ہاں خود تو لوگ باقاعدہ سیاسی پارٹیوں کے تنخواہ دار ہیں۔ان کے گھر کا چولہا ہی پارٹی لیڈروں کے دسترخوان کے پس خوردہ سے چلتا ہے لیکن دوسروں پہ تنقید کرتے وقت وہ کوثر وتسنیم سے دھلے ہونے کا ناٹک کرتے ہیں۔کچھ تو ایسے ہیں اور نامی گرامی کہ ان کی تحریریں پڑھ کے باقاعدہ ابکائی آتی ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ مافیا ان کی پشت پہ ہے وہ لکھے جاتے ہیں اور ان کی تحریریں نمایاں جگہ پہ چھپ بھی جاتی ہیں۔تقلید اور اندھی تقلید کے مارے یہ لوگ جب اپنے پالنے والوں کی تعریف کرتے ہیں تو صاف دکھتا ہے کہ آج ہی گھر میں سامان خوردو نوش کی نئی کھیپ اتری ہے۔سپلائی رک جائے تو ان کی اشارہ بازیاں بھی دیدنی ہوتی ہیں۔باور کرایا جاتا ہے اور کبھی تو بالکل عریاں لہجے میں کہ راشن اب کے دیر سے اترا تو اگلی دفعہ ہم سے نیکی کی امید نہ رکھی جائے۔اس کے باوجود یہ نابغے آزادی اظہار کے چمپیئن اور حق و صداقت کے علمبردار بھی کہلاتے ہیں۔

تنقیدجائز ہو تو یہ جہاں نقاد کی حسن نیت کو ظاہر کرتی ہے وہیں دوسرے کو اصلاح احوال کا موقع فراہم کرتی ہے۔ہمارے ہاں رسم ہے کہ ہم یاتو حق میں ہوتے ہیں یا خلاف ۔حق میں ہوں تو ہمارا رویہ پالتو جانور کا سا ہوتا ہے اور خلاف ہوں تو جنگلی جانور کا سا۔ہمیں اپنے رویوں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔اگر ہم واقعی حق و صداقت اور ایمانداری کے علمبردار ہیں تو ہمیں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئیے۔جس میں جو اچھا ہے اس کا بھی ذکر ہو اور جس میں جو برائی ہے اس کا بھی۔یہی اصول عوام اور یہی لکھاریوں پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔میرے خیال میں عمران کوئی فرشتہ نہیں لیکن شیاطین کی بستی میں وہ بہر حال ایک بہتر انسان بننے کی کوشش ضرور کر رہا ہے۔اس میں مانا کہ ابھی سیاسی ناپختگی ہے۔اس کے بیانات میں اکثر سقم ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں سیاسی میدان میں باقی کون ایسا دانشور ہے کہ ہمیں عمران کی یہ کمی پہاڑ جیسی لگنے لگتی ہے۔

سیاسی زندگی میں عمران پہ سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ اس نے سیاست میں آتے ہی مشرف کی حمایت کی تھی۔اس کے ریفرنڈم میں کام کیا تھا۔اعتراض بجا ،ہاں یہ اس کی بڑی سیاسی غلطی تھی ۔غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں۔بقول ہمارے ممدوح شیح رشید پاکستان کے سارے سیاستدان فوج ہی کے گملوں میں پلے بڑھے ہیں۔جو غلطی تسلیم کر لی جائے جس پہ معذرت کر لی جائے اس غلطی کو صاحبانِ عقل و فہم معاف کر دیا کرتے ہیں۔عمران اپنی اس غلطی پہ قوم سے بارہا معافی مانگ چکا لیکن غلطی ہے کہ مٹ کے ہی نہیں دے رہی۔طعنے وہ لوگ دیتے ہیں جو ایوب اور ضیاءکی معنوی اولاد کے قصیدہ گو ہیں۔سیاسی زندگی میں عمران کے کریڈٹ پہ ابھی تک واقعی کچھ نہیں کہ پاکستان کی سیاست سپانسر شپ کے بغیر نہیں چلتی۔اس میں کوئی ایوب کوئی ضیاءکہیں نہ کہیں مستور ہوتا ہے۔ہمیں لیکن اس کے خلوص میں کوئی شک نہیں۔اس کا کچھ کر دکھانے کا عزم بہر حال پختہ دکھتا ہے۔وہ کسی ناجائز راستے اور ذریعے سے اقتدار میں نہیں آنا چاہتا۔اس کی یہی خوبی اسے مروجہ سیاست سے بلند مقام عطا کرتی ہے۔

لوگ کہتے ہیں وہ کبھی برسر اقتدار نہیں آئے گا کہ امریکہ اس کے خلاف ہے۔میرے خیال میں وہ تو محنت ہی اس بات کے لئے کر رہا ہے کہ ہم آزاد قوم ہیں لیکن ہم اب آزاد ہو بھی جائیں۔امریکہ ہمارے فیصلے ہمیں خود کرنے دے۔طعنے دینے والی ماسیاں ایک طعنہ یہ بھی اچھالتی ہیں کہ عمران نواز لیگ کے صرف ووٹ ہی خراب کرے گا۔اگر اصلاح کی کسی صورت کسی کے ووٹ خراب ہوتے ہیں تو ہوا کریں۔اٹھارویں ترمیم میں جس طرح نون والوں نے جنہیں میں پیار سے" نون غنے" کہتا ہوںخالصتاََ اپنے گھریلو اور ذاتی اقتدار کے لئے پورے ہزارے کا سودا کیا ہے، کیا اس کے بعد بھی ایسی کوئی گنجائش نکلتی ہے کہ انہیں ہی بار بار ووٹ دے کے ان سے ڈسوایا جائے۔اس پہ طرہ نواز شریف کا وہ سیفما والا بیان جس پہ مجھے یقین ہے کہ نوازی سیاست کے مدار المہام بڑے میاں صاحب کی روح بھی کانپی ہو گی کہ وہ بھی اگر ایسا ہی سوچتے تو امرتسر کا جاتی امراءچھوڑ کے رائے ونڈ کی بستی ہر گز نہ بساتے۔نواز شریف نے اپنی راہیں اور سوچیں خود عوام سے علیحدہ کیں ہیں کیا عوام کو یہ حق نہیں کہ وہ بھی اگر ان سے اختلاف رکھتے ہیں تو وہ بھی اپنی راہ کا خود تعین کر لیں۔

عمران پہ اگلا الزام یہ ہے کہ وہ دوسروں کا نام عزت سے نہیں لیتا۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ واقعی اس کا بڑا جرم ہے اس کی غلطی ہے۔اسے ایسا نہیں کرنا چاہئیے۔اسے شریف لوگوں کا نام عزت سے لینا چاہئیے۔لیکن جن لوگوں نے اس ملک کا سرمایہ لوٹ کے باہر ملیں لگائی ہوں ،محل خریدے ہوں جائیدادیں بنائی ہوں ۔جن کی اولادیں لندن اور دبئی میں موج کر رہی ہوں ۔جن کو پوری قوم چور کہتی ہو عمران کو انہیں انتہائی ادب سے مخاطب کرنا چاہئیے۔بھائی چور اور ڈاکو صاحبان آپ ہمیں ہمارا لوٹا ہوا مال واپس کر دیں۔بھائی جان چوروں کو للکارا جاتا ہت ان سے درخواست نہیں کی جاتی۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 59143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.