مدھیہ پردیش کے سدھی میں بی جے پی کے جنرل سکریٹری وویک
کول نے استعفیٰ دے دیا ۔ انہوں نے لکھا کہ وہ گزشتہ دو سالوں میں مقامی بی
جے پی ایم ایل اے کیدارناتھ شکلا کی ان زیادتیوں سے مجروح ہوئے ہیں، جن میں
سدھی کے اندر قبائلی اراضی پر مبینہ تجاوزات اور دیگر مظالم شامل ہیں لیکن
اب ان کے مبینہ "نمائندے" نے ایک قبائلی آدمی پر پیشاب کرکے انہیں بہت
پریشان کردیا ہے اس لیے پارٹی میں نہیں رہ سکتے۔ کول نے بی ایس پی امیدوار
کے طور پر چورہاٹ سیٹ سے گزشتہ ایم پی اسمبلی انتخابات لڑا تھا مگر ناکام
رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اقتدار کی لالچ بی جے پی کے اندر شمولیت اختیارکی
اور سیکریٹری کے عہدے پر فائز کیے گئے۔ اب چونکہ شہڈول میں بی جے پی کا کمل
مرجھا چکا ہے اس لیے استعفیٰ دے دیا۔مدھیہ پردیش میں انتخاب سر پر ہے ایسے
میں ایک دلت پر پیشاب کرکے ویڈیو بنانا اور اسے پھیلانے کا واقعہ شیوراج
سنگھ چوہان کو مہنگا پڑے گا۔ سرکار اور مقامی رکن اسمبلی کیدار ناتھ شکلا
لاکھ انکار کریں مگر جنگل میں آگ کی مانند پھیلنے والی یہ ویڈیو بی جے پی
کی لنکا کو جلا کر خاک کردے گی۔
مدھیہ پردیش میں حزب اختلاف کے لیے نعمت غیر مرتقبہ بن گیا ۔ کانگریس کے
ریاستی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے اسے قبائلی لوگوں کی توہین
قرار دےکر ٹوئٹر پر لکھا، ‘کیا بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں پر اقتدار کا
نشہ اتنا چڑھ گیا ہے کہ وہ انسانوں کو انسان نہیں سمجھتے…میں شیوراج حکومت
کو خبردار کرتا ہوں کہ وہ آدی واسیوں پر ہونے والے مظالم کو سرکاری تحفظ
دینا بند کرے‘‘۔ اس پر مونی بابا وزیر اعظم اور بڑ بڑیا وزیر داخلہ تو
خاموش رہے مگر راہل گاندھی نے کہا ہے کہ،’بی جے پی کے دور حکومت میں قبائلی
بھائیوں اور بہنوں پر مظالم بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی
لیڈر کے غیر انسانی جرم نے پوری انسانیت کو شرمسار کر دیا ہے۔ قبائلیوں اور
دلتوں کےحوالے سے یہ بی جے پی کا گھناونا نفرتی چہرہ اور کردارہے‘‘۔ راہل
کے اس بیان کی تصدیق امیت شاہ کے زیر نگرانی کام کرنے والا نیشنل کرائم
ریکارڈ بیورو (این سی آر بی ) کے اعداد و شمار بھی کرتےہیں۔ اس کے مطابق
قبائلیوں پر مظالم کے معاملے میں، مدھیہ پردیش سرفہرست ہے۔
انتخابی موسم میں حزب اختلاف کے دباو کا یہ اثر ہوا کہ ظلم کا شکار بننے
والا قبائلی نوجوان دشمت کو سمجھا مناکر کر وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ لایا
گیا جہاں شیوراج سنگھ چوہان نے اس کے پاؤں دھوئے اور معافی مانگنے کا ناٹک
کیا۔ ٹیلی ویژن کے پردے پر کفارہ ادا کرنے کا ڈھونگ کرتے ہوئے شال اوڑھا کر
عزت افزائی کی نیز گنیش کی مورتی تحفے میں دی۔ دیر تک ٹی وی پر نظر آنے کے
لیے وزیر اعلی شیوراج سنگھ نے دشمت راوت کے ساتھ شجرکاری کی اور اسے سداما
یعنی اپنا غریب دوست کہا۔ اس ڈرامہ بازی پرتنقید کرتے ہوئے کانگریس کےسابق
وزیر پی سی شرما نے کہا کہ این سی آر بی کی رپورٹ چونکہ قبائلی سماج پر ملک
میں سب سے زیادہ ظلم مدھیہ پردیش میں ہوا ہےاس لیے اگر وزیر اعلیٰ اسی طرح
سے پیر دھونے کی روایت شروع کردیں تو ایسا کرتے کرتے پانچ سال لگ جائیں
گے۔انہوں نے متاثرشخص کو سداما کہنے پر یہ تیکھاتبصرہ کیا کہ کرشن نے سداما
کو پورا راج دےدیا تھا کیا وزیر اعلی شیوراج سنگھ دشمت کو سی ایم بناکر راج
پاٹ سپرد کردینگے؟
اس قبائلی محبت کے پیچھے مدھیہ پردیش کی دو سو تیس اسمبلی سیٹوں میں سے
قریب ایک سو چھ حلقہ ہائے انتخاب پرقبائلی ووٹر س کا اثرانداز ہونا کار
فرماہے ۔ایسے میں ان کی دلجوئی کرنا بی جے پی سمیت سبھی سیاسی پارٹیوں کی
مجبوری ہے ورنہ ان بیچاروں کو کون پوچھتا ہے؟ یہ لوگ تو قبائلی صدر مملکت
محترمہ دروپدی مرمو کو مندر کے اندرونی حصہ(گربھ گرہ ) میں داخل کرنے کے
روادار نہیں ہیں۔ اس عظیم توہین کے باوجود ملک میں کسی جبین پر شکن تک نہیں
آتی اور پھر مسلم خواتین کے عزت و وقار کے لیے مگر مچھ کے آنسو بہائے
جاتے ہیں۔ پیر دھونے کا ڈرامہ نیا نہیں ہے خود وزیر اعظم بھی وارانسی میں
صفائی ملازمین کے پیر دھو چکے ہیں لیکن ایسا کرنے سے ان بیچاروں کے اچھے دن
نہیں آئے ۔ یہ ضرور ہواکہ مودی جی نے اس کی ویڈیو دکھا دکھا کر خوب شہرت
بٹوری اور اپنے آپ کو پسماندہ طبقات کا مسیحا ثابت کرنے کی کوشش کی۔ گجرات
کے اونا میں جب گائے کے نام پر دلتوں کو مارا پیٹا گیا تو آنسو پوچھتے
ہوئے کہا انہیں مجھے مارو لیکن کسی خاطی کو سزا نہیں دلوائی ۔ مودی جی
پاکھنڈ اب ملک کے بیشتر لوگ سمجھ چکے ہیں ۔
مدھیہ پردیش اجین میں کمبھ کا میلہ لگا تو دلت سماج کو دور رکھنے کے لیے
سمرستا اسنان کا نظریہ پیش کرکے الگ گھاٹ بنایا گیا ۔ امیت شاہ اور شیوراج
سنگھ چوہان دلت سنت سماج کے ساتھ وہاں غسل کرنے کے لیے گئے۔ اس کا خوب
پروپیگنڈہ کیا گیا لیکن جب سادھو سنتوں نے ہی اس تفریق کی مخالفت کی تو
شیوراج سنگھ چوہان نے اپنے ٹوئٹ سے دلت سماج کے ذکر کو حذف کر دیا۔ پہلے
ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ دلت عقیدت مندوں کے ساتھ غسل کیابعد میں اس کو ہٹا
دیا گیا۔ اسی طرح کی اوچھی حرکت کانگریس سے نکل بی جے پی میں آنے
والےمدھیہ پردیش کے وزیر توانائی پردیومن سنگھ تومر نے امسال جنوری میں کی۔
وہ سڑک کا معائنہ کرنے گوالیار کی سڑک پر نکلے تو اپنے ایک حامی سوربھ شرما
کے گرد آلو دپیر دیکھ کر رنجیدہ ہوگئے ۔ انہوں نے فوراً پانی منگوایا اور
لگے اس کے پیر دھونے ، مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں کیمرہ مین بھی تیار تھا۔
اس کی موجودگی نے اس کے ڈرامہ ہونے کی چغلی کردی اس کے باوجود ویڈیوکو خوب
پھیلایا گیا ۔یہ سستی شہرت کے حصول کا ایک پھوہڑ طریقہ تھا جس کا اعادہ
وزیر اعلیٰ نے حال میں کیا ہے۔
گوالیار میں جہاں سوربھ شرما نے پیر دھونے کا ناٹک کیا تھا ابھی حال میں
ایک شرمناک ویڈیو سامنے آیا ہے۔ اس میں غنڈوں کا ایک گروہ چلتی کار میں ایک
مسلم نوجوان کو بے دردی سے پیٹ رہا ہے۔ اس کے چہرے پر چپل برسائی جا رہی
ہے۔ اس کو تلوے چاٹنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ویڈیو کے منظر عام ہر آنے کے
بعد پولیس حرکت میں آگئی۔اس نے ایف آئی آر درج کر کے دو ملزمان کو گرفتار
کر لیا مگر مرکزی ملزم سمیت دیگر ملزمین کی تلاش جاری ہے۔ گوالیار ضلع کے
ڈبرا ڈیولپمنٹ بلاک میں متاثر نوجوان کی ملزم گولو گرجر کے بھائی سے پرانی
دشمنی ہے۔ دونوں کے درمیان جھگڑے ہوئے ہیں۔اس کا انتقام لینے کی خاطرگولو
گوجر اپنے تین ساتھیوں کی مدد سے متاثر نوجوان کو زبردستی کار میں بٹھا کر
سنسان سڑک پر لے گیا۔ چلتی گاڑی میں گولو اور اس کے ساتھیوں نے مار پیٹ کی
۔ اس کے بالوں کو پکڑ کر کھینچا ، چپلوں سے مارااورپاؤں چاٹنے پر مجبور کیا
۔ اس موقع پر رکن اسمبلی سوربھ شرما کی ضرورت تھی کہ وہ مظلوم نوجوان کے
زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے آتے مگر وہ تو گدھے کے سر سے سینگ کی مانند
غائب ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے ووٹ نہ ملے گااور نہ گھٹے گا۔ فی الحال
سیاستدانوں کے لیے انسانیت نہیں ووٹ ہی سب کچھ ہے۔
مدھیہ پردیش کی حکومت نے انتخابی دباو کے سبب آناً فاناً ’پیشاب کانڈ ‘ کے
ملزم پرویش شکلا کے گھر پر بلڈوزر چلایا تو اس کی ماں زار و قطار رونے لگی۔
خاتون پولیس اہلکاروں نے انھیں سنبھالا تاکہ کارروائی میں کوئی رخنہ نہ
پیدا ہو۔ پولیس اور انتظامیہ کی ٹیم نے موقع واردات پر سخت سیکورٹی کا
انتظام کررکھا تھا۔اس ظالمانہ کارروائی کے وقت سیدھی کے تحصیلدار، ایس ڈی
ایم، ایس ڈی او پی سمیت کثیر تعداد میں پولیس فورس موجود تھی۔ بی جے پی رکن
اسمبلی سے قربت کے سبب ملزم کو نرمی کی امید تھی مگران کے قطع تعلق نے
پرویش شکلا کی مشکلیں بڑھادیں۔ پرویش کے والد رماکانت شکلا کسان ہیں اور
نائب سرپنچ بھی رہ چکے ہیں۔ ملزم کی ایک تین سالہ بیٹی اور دو بہنیں ہیں۔
اس موقع پر ملزم کی بیوی نے کہا کہ وہ سرینڈر کرچکا ہے تفتیش جاری ہے۔ اس
کے جرم کو اہل خانہ سے کیوں جوڑا جارہا ہے اب میں اپنی ننھی بیٹی اور اہل
خانہ کے ساتھ کہاں جاوں گی ؟
اس ابلہ ناری کی یہ فریاد جائز ہے۔ کسی فرد کے جرم کی سزا اس کے اہل خانہ
کو دینا ظلم ہے۔ ایسے مواقع پر جس طرح ہندوتوا نواز خوش ہوتے ہیں انصاف
پسند لوگ نہیں ہوسکتے اور مسلمانوں کو تو ان کا دین اس کی اجازت نہیں دیتا
۔ امت مسلمہ دوست اور دشمن سب کے لیے عدل و انصاف کی علمبردار ہے۔ پرویش کے
والد رماکانت شکلا کا کہنا کہ ’’ویڈیو فرضی ہے۔ یہ ہمیں پھنسانے کی سازش
ہے۔ ہمارا لڑکا ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ وہ اتنا گھناؤنا کام قطعی نہیں کر
سکتا۔‘‘ اپنے بیٹے کی محبت میں دیا گیا جذباتی بیان ہے۔ رما کانت نے
بالآخر یہ تسلیم کرلیا کہ ان کے بیٹے نے جرم کیا ہے اس کی سارے خاندان کو
نہ دی جائے اور اترپردیش کے طرز پر مدھیہ پردیش میں بلڈوزر راج غلط ہے۔
یعنی اب عوام بلڈوزر بابا کے ساتھ بلڈوزر ماما کی بھی مخالفت کرنے لگے۔ وہ
اس کارروائی کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی
تنظیم اے پی سی آر کو یہ مقدمہ بھی لڑنا چاہیے تاکہ اس کا فیصلہ دوسرے
مقدمات کے لیے نظیر بن سکے۔
پرویش شکلا نے بھی اسے بلیک میل کیے جانے کی بات کہی تھی ۔ اس نے الزام
لگایا تھا کہ کچھ لوگ اسے دھمکا کر چار لاکھ روپے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن
آدرش شکلا کی ویڈیو کوجھٹلانا اب ناممکن ہے ۔ پرویش کا یہ کہنا ہے کہ
ویڈیو کی جانچ کی جائے اور اگر اس میں ذرا بھی سچائی ہے تو اسے پھانسی چڑھا
دیا جائے، جذباتی بلیک میل ہے مگر اس کا بے گھر نہیں کرنے کا مطالبہ درست
ہے ۔انتظامیہ نے جس مکان کو ڈھایا وہ پرویش کے نام پر نہیں تھا بلکہ ان
آبائی مکان تھا۔ اکھل بھارتیہ برہمن سماج نے اس پر ناراضی ظاہر کرتے ایک
لاکھ سے زیادہ رقم جمع کرکے رماکانت شکلا کے بنک کھاتے میں جمع کی تاکہ
مکان کو دوبارہ تعمیر کیا جاسکے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ ’پیشاب
کانڈ‘ شیوراج چوہان کو مہنگا پڑ جائے کیونکہ اس نے قبائلیوں سمیت برہمنوں
کو بھی ناراض کیا ہے۔ اس قبائلی کی پذیرائی سے اتنی خوشی ان لوگوں کو نہیں
ہوئی ہوگی جتنا غم برہمنوں کو پرویش کا گھر توڑے جانے پر ہوا ہے اور بعید
نہیں کہ وہ اس بار بی جے پی کو سبق سکھا دیں ۔
|