آج جبکہ یہ مضمون زیر تحریر ہے ممبئی ریل دھماکے کی
سترہویں برسی کا دن ہے۔ یکم جولائی2006 کو پہلے لگاتار 7؍ اور پھر دوبارہ
7؍ دھماکے ہوئے ۔ ساتویں مہینے کی گیارہ تاریخ تو 11 منٹ تک تباہی و بربادی
کا ننگا ناچ اور ان اعدادو شمار کی یکسانیت کیا محض اتفاق تھا ؟اس
باضمیرباشندگانِ وطن کو یہ سوال کرنا پڑتا ہے کہ آخر ’یہ رشتہ کیا کہلاتا
ہے؟‘ لیکن کوئی جواب دینے کی زحمت نہیں کرتا ۔ 17 سال بعد بھی یہ معمہ حل
طلب ہے ۔ 6 ہزار دن طویل عرصہ ہوتا ہے ۔ اس میں ایک بچہ جوان ہ اور ادھیڑ
بوڑھا ہوجاتا ہے۔ بارہ بے قصور نوجوان اپنی زندگی کے بیش قیمت 6؍ ہزار دن
جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارچکے مگر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔سرکار اپنے
مفاد کے سبب نظریں پھیر لیتی ہے۔ بے حس انتظامیہ اپنے آقاوں کی خوشنودی کے
لیے شواہد جمع کرنے بجائے ان کو مٹاتا ہے اور عدلیہ کمبھ کرن کی نیند
سوجاتا ہے۔ میڈیا اس پر نہیں بولتا یہ غنیمت ہے کیونکہ وہ اگر اپنی چونچ
کھولے گا تو کیا بولے گا یہ سبھی جانتے ہیں۔ اس معاملے میں سیویل سوسائٹی
بھی غفلت کا شکار ہوگئی ہےاور اس کی قیمت ان بارہ لوگ خود اور ان کے اہل
خانہ ادا کر رہے ہیں۔ ملت اسلامیہ ان کے درد سے تڑپتی تو ہے مگر کوئی ٹھوس
اقدام کرنے سے قاصر ہے۔
ممبئی کےٹرین دھماکوں میں جملہ 209 لوگوں نے اپنی جان گنوائی۔ بم اتنے
طاقتور تھے ریل ڈبوں سمیت سارے شواہد ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گئے۔700 سے زیادہ
لوکل گاڑی کی سواریاں زخمی ہوئیں ۔ ان دھماکوں کے بعد تین سو سے زیادہ
لوگوں کو حراست میں لیا گیا مگر ان میں سے کو گرفتار کرکے ان کے خلاف فردِ
جرم دائر کی گئی۔ان گرفتار یوں کے خلاف ابتداء میں مسلمانوں نے صدائے
احتجاج بلند کی مگر وہ صدابہ صحرا ثابت ہوئی۔ نو سال کی قیدو بند کے بعد ان
بے قصور گرفتار شدگان میں سے ایک عبدالواحد شیخ باعزت بری ہوگئے۔ ان علاوہ
مکوکا کورٹ (یعنی نچلی ترین عدالت )نے 5کو ملزمین کو سزائے موت اور 7؍ کو
عمر قید کی سزا سنادی۔ اس طرح کے معاملات میں فاسٹ ٹریک یعنی تیز رفتا ری
کے ساتھ مقدمات کی سماعت ہونی چاہیے لیکن یہاں تو سترہ سال گزر گئے مگر
ہائی کورٹ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔
پولیس کی حراست میں کس طرح زدو کوب کرکے بیانات لکھوائے جاتے ہیں اس سے
ہرکوئی واقف ہے۔ اس لیے کسی مقدمہ میں اگر کوئی ملزم منصف کے سامنے اپنے
بیان سے انکار کرتا ہے اور پولیس پر دباو ڈالنے کاالزام لگاتا ہے تو عدالت
اپنی نگرانی میں اسے نیا بیان لکھوانے موقع دیتی ہے۔ یہ اس کا حق ہے۔ان
ملزمین نے بھی عدالت میں یہ درخواست کی کہ انہیں بڑے بھیانک طریقہ پر ٹار
چر کیا گیا ۔ اس کی رونگٹے کھڑے کردینے والی تفصیل عبدالواحد شیخ کی کتاب
’بے گناہ قیدی ‘ میں درج ہے۔ یہ دراصل ان کی آپ بیتی ہےلیکن اس قضیہ میں
عدلیہ نے ان ملزمین کے اس حق کو پامال کردیا اور پولیس کی تحویل میں کیے
جانے والے اعترافِ جرم کی بنیاد پر غیر منصفانہ فیصلہ سنا دیا گیا۔ اس
ظالمانہ فیصلے کے بعد 8 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہائی کورٹ میں
ان کی سماعت تک نہیں ہوئی ۔ جس جج کو اس کام سونپا جاتا ہے وہ معذرت کرلیتا
ہے۔ بامبے ہائی کے چیف جسٹس سے اس بابت بینچ بنانے کی درخواست کی گئی تو
جسٹس ساونت کو اس کا سربراہ نا مزد کردیا گیامگر انہوں نے بھی سماعت کی
زحمت یا جرأت نہیں کی۔ اس طرح 12بے قصور لوگ جیل میں بند کے بند ہی رہے۔
اس دوران کورونا کے زمانے میں ایک قیدی کا جیل کے اندر انتقال ہوگیا ۔ اس
کی بوڑھی والدہ اپنے بیٹے کا آخری دیدار کرنے کے لیے بہار سے ناگپور آئی
تو ان سے کہا گیا کہ اخراجات کی رقم جمع کرکے لاش لے جائے۔ اس بیچاری نے
ناگپور میں ہی اپنے بیٹے کی تدفین کروائی اور خالی ہاتھ لوٹ گئی۔ کئی
ملزمین ایسے ہیں جن کے والدین بلکہ زوجہ بھی فورانِ حراست دنیا سے رحلت
فرما گئے لیکن انہیں جنازے تک میں شرکت کا موقع نہیں دیا گیا ۔عام طور پر
ہر قیدی کو ہفتہ دس دن میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ویڈیو کال پر بات کرنے کی
اجازت ہوتی ہے مگر یہ قیدی اس سے سہولت محروم ہیں ۔ ان کی بوڑھی ماوں کی
درخواست کو ٹھکرایا جاچکا ہے۔ ان میں ایک ڈاکٹر تنویر احمد جن کو میڈیا نے
ڈاکٹرڈیتھ کے لقب سے بدنام کیا تھا اب امراوتی جیل میں قیدیوں کا علاج
کررہے ہیں۔ نام نہاد موت کا سوداگر لوگوں کی زندگی آسان کر رہا ہے اورعدل
کے بیوپاری اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کررہے ہیں ۔ ایک مریض نے
قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی درخواست دی تو اس کو ۶؍ لاکھ روپیہ ادا کرنے
کے بہانے روک دیا گیا۔ اس صورتحال پر انگریزی کا محاورہ ’ جسٹس ڈیلیڈ از
جسٹس ڈینائیڈ‘ پوری طرح صادق آتا ہے۔ اس بابت سپریم کورٹ تو 8 سال تعطل کے
بعد ایک ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا تاکہ موت کا سایہ سر سے
ہٹ جائے مگر ان قیدیوں کو ابھی تک یہ سہولت نہیں مل سکی۔ مشہور صاحب طرز
شاعر امیر مینائی نے کہا تھا؎
قریب ہے یارو روزِ محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے کا آستیں کا
اس معاملے میں آستین کا لہو چیخ چیخ کر بے گناہی کی گواہی دے رہا لیکن اگر
عدالت بہری اور جج گونگےہوجائیں تو کوئی کیا کرے؟ کسی بھی الزام کے جھوٹے
ہونے کا دوعلامات ہوتی ہیں ۔ پہلی علامت الزام لگانے والے کا سابقہ کردار
اور دوسرا شواہد میں تضاد ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر عدالت بھی گواہی کو ٹھکرا
دیتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں ان ملزمین کواے ٹی ایس چیف کے پی رگھونشی نے
گرفتار کیا تھا ۔ وہ اپنے پہلے مدت کار میں مالیگاوں بم دھماکے میں پرگیہ
ٹھاکر کے بجائے 9 مسلمانوں کو بم بلاسٹ کیس میں گرفتار کرچکے تھے جبکہ ان
سب بے قصور لوگوں کو رہا کردیا۔ اس سے رگھو ونشی کے چال ، چرتر اور چہرے کا
پتہ چل جاتا ہے۔ ان کے بعد اے ٹی ایس کا چیف بننے والے راکیش ماریا پہلے
کرائم برانچ کے سربراہ تھے۔ راکیش ماریا نے ان بم دھماکوں کے لیے انڈین
مجاہدین کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ مرکزی حکومت کے تفتیشی ادارے این آئی کی
نظر میں بھی یہ انڈین مجاہدین کا کیا دھراتھا اور ان ملزمین کا کا چونکہ
انڈین مجاہدین سے کوئی واسطہ نہیں تھا اس لیے وہ سرکار کے مطابق ہی بے قصور
ٹھہرے ۔
اس مقدمہ میں جہاں ایک طرف رگھوونشی جیسے لوگ تھے وہیں اے ٹی ایس کے پولیس
آفیسر ونود بھٹ کا روشن کردار بھی قابل ستائش تھا۔ ان کو صدر مملکت نے
انعام و اکرام سے نوازہ تھا۔ ان پر اعلیٰ افسران نے دباو ڈالا تو انہوں نے
دادر ماٹونگا کے بیچ اسی ریلوے پٹری پر خود کشی کرلی ۔ سرکارنے اپنے طور پر
اسے حادثہ بتا کر لیپا پوتی کرنے کی کوشش کی مگر اول تو انہیں پٹری پر جانے
کی کوئی حاجت نہیں تھی۔ دوسر ےتلک پُل پر گاڑی سے اتر کرانہوں نے اپنی جیب
کا سارا سمان ڈرائیور کو دے کر اپنی بیوی سیما بھٹ تک پہنچانے درخواست کی
اور اپنے شناختی کارڈ کے ساتھ خودکشی تاکہ پہچاننے میں دقت نہ ہو۔ ٹائمز
آف کے نامہ نگار کو ان کے ایک وکیل دوست نے بتایا کہ وہ اے ٹی ایس کےاندر
دباو میں تھے ۔ وہ اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف مسلمانوں کو پھنسانا ان کے
ضمیر کی آواز کے خلاف تھا اس لیے انہوں نے مجبوراً موت کو گلے لگالیا مگر
ظالموں کا ساتھ نہیں دیا۔ اس معاملے میں ونود بھٹ کا نام طلائی حروف میں
لکھا جائے گا۔
مودی یُگ میں بلقیس بانو کے اہل خانہ کے قاتلوں اور آبروریزی کرنے والے
مجرمین کی عمر قید میں تخفیف کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان کو مٹھائی کھلاتے
ہوئے تصویر کھنچوا کر اسے پھیلایا جاتا ہے اور دوسری طرف عدلیہ فیصلہ
سنانےکے بجائ ان قیدیوں کو لٹکا دیا جاتا ہے۔سماعت کے بغیر دن مہینوں اور
مہینے سالوں میں بدلتے رہتے ہیں۔ اس مقدمہ میں باعزت بری ہونے والے
عبدالواحد شیخ نےاپنی سوانح حیات میں ساری تفصیل قلمبند کی ہے اور کئی
زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے اور اس پر فلم بھی بن چکی ہے۔ انوسینٹ نیٹ
ورک اس کی ویب سائٹ ہے۔ ہر سال عوامی بیداری کے لیے پروگرام بھی کیےجاتے
ہیںمگر دور دور تک انصاف کی کرن دکھائی نہیں دیتی ۔اس کے باوجود وہ اپنے
کام میں لگے ہوئے ہیں ایسے دلیرلوگوں کے بارے میں انقلابی شاعر حبیب جالب
(ترمیم کی معذرت کے ساتھ) کہتا ہے ؎
تمہارے عزم جواں کے آگےتمہارے سیل رواں کے آگے پرانے ظالم نہیں ٹکیں گے نئی
بلائیں نہیں رہیں گی
یہ قتل گاہیں یہ عدل گاہیں انہیں بھلا کس طرح سراہیں
غلام عادل نہیں رہیں گے غلط سزائیں نہیں رہیں گی
|