شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (قسط نمبر 36)

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال ۔ لودھی صاحب سچی بات تو یہ ہے کہ آپ نے پچھلی قسط میں نہ صرف قلعہ ستار شاہ کے خوفناک حالات کی بہت خوب منظر کشی کی ہے بلکہ اپنے والد صاحب کی مشکل ترین زندگی کا بھی بہت مہارت سے نقشہ کھنیچا ہے ۔یہ بتائیں قلعہ ستار شاہ سے آپ کے خاندان کی جان کب چھوٹی اور کب آپ نے سکول جانا شروع کیا ؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد چودھری صاحب ۔ہمارا شمار نچلی سطح کے غریب طبقے میں تھا ۔اس لیے ہمارا رہن سہن بھی ویسا ہی تھا ۔ اﷲ نے چاہا تو اس قسط میں قلعہ ستار شاہ سے ٹرانسفر اور میرے سکول جانے کے حوالے سے گفتگوہو گی ۔
......................
اسی دن والد صاحب نے فیصلہ کر لیاتھا کہ تعیناتی کے لئے کسی ایسے اسٹیشن کا انتخاب کیا جائے ،جہاں زیادہ نہیں تو کم ازکم پرائمری سکول تو ضرور ہو۔ والد صاحب کی کوششوں سے ان کا تبادلہ" واں رادھا رام" (جو پتوکی سے دوسرا اسٹیشن تھا) ہو گیا( جس کا نام سردار طالب نکئی نے تبدیل کرکے حبیب آباد رکھ دیا ہے) ہم بھی والدین کے ساتھ وہاں منتقل ہو گئے۔یہ علاقہ عرصہ ہندو دیوتا کے نام سے منسوب چلا آرہا تھا ،جہاں سے ان کا کبھی گزر ہواہوگا ۔ انہی کے نام سے منسوب انگریزوں نے ریلوے اسٹیشن بنا دیا ۔یہ 1960ء کا زمانہ تھا اور ملک پر ایوب خاں کی حکومت تھی، جو انہوں نے سویلین حکومت ختم کرکے حاصل کی تھی ۔یہ بتاتا چلوں کہ واں رادھا رام ایک قصباتی شہر ہے جو پتوکی سے ساہیوال کی جانب جاتے ہوئے دوسرا اسٹیشن بنتاہے ،جبکہ اوکاڑ ہ سے چار پانچ اسٹیشن پہلے آتا ہے۔ میں جس دور کی بات کررہا ہوں وہ بطورخاص ریلوے کے لیے بہت مصروف دورتھا ۔ اس وقت روڈ ٹرانسپورٹ کا عمل دخل بہت کم تھا ۔ چند ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسیں ضرور چلتی تھیں لیکن شام ہوتے ہی وہ بھی رک جاتیں ۔ ریلوے ٹرین ہی ایک ایسا ذریعہ تھا جس پر رات دن آمد ورفت جاری رہتی تھی۔ پانچ چھ ٹرینیں جن میں تیزگام ، خیبرمیل ، چشم آھو جیسی ایکسپریس ٹرینیں پشاور سے کراچی تک چلا کرتی تھیں لیکن چند ایسی ٹرینیں بھی اس دور میں چلتی تھیں جنہیں پسنجر ٹرینیں کہا جاتا تھا وہ ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر نہ صرف کھڑی رہتیں بلکہ عوام کے باہمی رابطے کا اہم ترین بن چکی تھی ۔واں رادھا رام ریلوے اسٹیشن مین لائن پر موجود تھا اس لیے ٹرینوں کی آمدورفت مسلسل جاری رہتی تھی ان کا درمیانی وفقہ بہت کم ہوتا ۔
ریلوے اسٹیشن کے مشرق میں مال گودام کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا بازار تھا جس میں انسانی استعمال کی اشیاء سجی رہتی تھیں ، یہ قصباتی شہر مرچوں کی منڈی کہلاتا تھا حالانکہ اس شہر کے گرد و نواح میں پھیلے ہوئے کھیتوں میں ہر قسم کی فصل پیدا ہوتی تھی لیکن یہاں سرخ مرچوں کی پیداوار کچھ زیادہ ہی تھی جس وجہ سے اسے مرچوں کی منڈی کا نام دیا گیا تھا ۔واں رادھا رام ریلوے اسٹیشن کے پچھلی جانب ریلوے ملازمین کے چھوٹے بڑے کوارٹرموجود تھے ،جن میں سب سے بڑی کوٹھی سب پلیٹئر کی تھی جو پلیٹ فارم شروع ہونے سے پہلے ہی ریلوے لائن کے بالکل ساتھ واقع تھی ۔وہ کوٹھی جتنی بڑی تھی اس کا لان اس بھی ڈبل تھا ۔اس لیے ہم جیسے غریب کیبن مین کے بچے ادھر گزرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں صاحب بہادر ناراض نہ ہو جائیں ۔ان کے سٹاف کے لوگ جن کو گینگ مین کہا جاتا تھاان کا کام ریلوے ٹریک کو درست حالت میں رکھنا اور سب پلیٹئر صاحب کے دستی ٹھیلے کو دھکا لگاکر ریلوے ٹریک پردوڑانا ہوا کرتا تھا ۔ان کے کوارٹر تھوڑے فاصلے پر تھے لیکن جن کوارٹروں میں ہماری رہائش تھی وہ اسٹیشن کے بالکل پیچھے تھے ۔ان ماتحت ملازمین کے کوارٹروں کے ساتھ ہی اے ایس ایم اور اسٹیشن ماسٹر کی قدرے بڑی کوٹھی ہوا کرتی تھی۔ان کوارٹروں کے پیچھے تھوڑے ہی فاصلے پرتانگوں کا ایک اڈہ ہوا کرتا تھا ، ٹرین سے اتر کر جن مسافروں نے بڑی نہر کی جانب جانا ہوتا وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے تانگوں کا استعمال کرتے۔
ایک گورنمنٹ پرائمری سکول قریب ہی واقع تھا جس نے ہم تینوں بھائیوں کی تعلیمی درسگاہ کا درجہ حاصل کرنا تھا ۔ اس سکول میں صرف دو کمرے پختہ ہوا کرتے تھے جبکہ مغربی جانب دو تین بوسیدہ اور کچے کمرے موجود تھے جن کی چھتیں زمین بوس ہو چکی تھیں ۔پختہ کمروں میں سے ایک میں ہیڈماسٹر ابراہیم صاحب بیٹھا کرتے تھے اور دوسرے پختہ کمرے پانچویں جماعت کے لڑکے تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ۔جب میں اس سکول میں کچی جماعت میں داخل ہوا تو مجھے اس سکول احاطے میں موجود نیم کے درختوں کے نیچے پھٹے ہوئے ٹاٹوؤں پر بیٹھ کر پڑھنا شروع کرنا پڑا ۔ اس سکول کے مغرب کی جانب ایک چھوٹی سی مسجد واقع تھی جس کا ایک دروازہ سکول میں اور دوسرا دروازہ جامن ، مالٹوں اور شہتوں والے باغ کے جانب کھلتا تھا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب مسجد میں آکر نماز پڑھنے والے بہت کم لوگ ہوا تھے ۔بلکہ عام لوگوں کا نظریہ یہ تھا کہ جس شخص کو موت آگئی اس کے لیے قیامت آگئی ۔ وہ موت کو قیامت سے ہی تشبیہ دیاکرتے تھے ۔ حالانکہ یہ نظریہ غلط تھا ۔ کیونکہ موت الگ چیز ہے اور قیامت الگ۔ میں نے ابتدائی زندگی میں وہاں بہت کم لوگوں کو موت کی وادی میں اترتے دیکھا۔ خاص وہی لوگ زیادہ مرتے جو عمررسیدہ ہوتے یا سگریٹ / حقہ پیتے توان کو ٹی بی کا مرض لاحق ہو جاتا ، کبھی کبھا رہضیے کی بیماری بھی موسم برسات میں اپنا اثر دکھاتی تھی ۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہمارے ماسٹر عبدالعزیز کی آنکھ سرخ ہوکر سوجھ گئی ۔وہ اسی حالت میں جب سکول تشریف لائے تو لڑکوں نے ان کا خوب مذاق اڑایا ۔مذاق اڑانے والوں میں ،میں بھی شامل تھا ۔چھٹی کرکے جب میں گھر پہنچا تو میں نے والدہ کو بتا یا آج ہمارے ماسٹر صاحب کی آنکھ اس طرح خراب تھی ۔ والدہ نے مجھے ڈانٹا کہ بڑوں کی نقلیں نہیں اتارا کرتے ۔اس سے اﷲ ناراض ہوتا ہے ۔والدہ کی نصیحت کے بعدمیں نے فورُا توبہ کرلی کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔لیکن میری توبہ شاید میرے رب کو پسند نہ آئی ، شام ہونے سے پہلے پہلے میری دونوں آنکھیں اسی طرح سرخ ہوگئیں جس طر ح ٹیچر کی ایک آنکھ تھی ۔بہت مشکل پڑی ۔ اب کیا ہوگا ۔آنکھیں ٹھیک کیسے ہونگی او رکہاں سے اس کا علاج کروایا جائے گا ۔آنکھوں میں سوجن کے ساتھ ساتھ درد بھی شدید ہورہا تھا ۔اس درد نے مجھے رونے پرمجبور کردیا ۔بچہ اس کے علاوہ کربھی کیا سکتا ہے ؟ ابھی والد صاحب کے گھر آنے میں کچھ وقت باقی تھا، میری چیخ وپکار نے والدہ کو پریشان کردیا ،انہیں یہ بھی پریشانی تھی کہ سردیوں کی شام سر پر آرہی ہے اور ان کا لخت جگر آنکھوں کی تکلیف سے بے چین ہے ۔ اب اسے سکون کیسے ملے گا۔ اس شہر میں کوئی نام کا بھی حکیم اور ڈاکٹر نہیں تھا ۔اگر یہی حال رہا تو رات کیسے گزرے گی ۔انہی سوچوں میں گم والدہ کے چہرے پر پریشانی کے آثار واضح دکھائی دے رہے تھے اور میں توروتا ہی چلا جا رہا تھا ۔خدا خدا کرکے والد صاحب گھر آئے ۔ وہ مجھے اس حالت میں دیکھتے ہی پریشان ہوگئے کہ ہوا کیسے اور اب کیا ہوگا ۔ والدہ نے سارا واقعہ سنایا تو ان کے ذہن میں آیا کہ رینالہ خورد جو یہاں سے تیسرا اسٹیشن تھا ،وہاں کوئی حکیم یا سیانہ مل سکتا ہے ۔جوں جوں وقت گزرتاجا رہا تھا ،سردی بڑھتی جا رہی تھی ۔وہ مجھ پر گرم چادر لپیٹ کر اسٹیشن کے اس پلیٹ فارم پر جا بیٹھے جہاں رینالہ خورد جانے والی گاڑی نے آ نا تھا ۔میری دونوں آنکھوں میں اس قدر سوجن ہوچکی تھی کہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتا تو معمولی سا دکھائی دیتا ۔ٹرین کے آنے کا وقت شام پانچ بجے تھا ، اتنا وقت ہمیں سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے پلیٹ فارم پر گزارنا پڑا۔ سگنل ڈاؤن ہوئے تو دور سے آتی ہوئی ٹرین کی شکل دکھائی دی ۔جیسے ہی وہ پلیٹ فارم پر رکی تو والد صاحب مجھے ٹرین میں سوار کرکے خود بھی سوار ہوگئے۔ میں والد صاحب کا سہارا لے کر کھڑا رہا اور ٹرین وسل بجا کر آہستہ آہستہ چلنے لگی ۔ اس لمحے والد کو یہ پریشانی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم رینالہ خورد پہنچیں اور حکیم کی دوکان بندپڑی ہو۔وہ دل ہی دل میں دعا کررہے تھے کہ حکیم کی دوکان کھلی ہو ۔اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جب ہم ٹرین سے اترکر رینالہ خورد کے بازار میں پہنچے تو اس شہر کا اکلوتا حکیم اپنی دوکان بند کر ہی رہا تھا ۔والد صاحب نے میری تکلیف کے بارے میں انہیں آگاہ کیا تو اسے بھی مجھ پر ترس آگیا کیونکہ بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔ اس حکیم نے ایک دوائی آنکھوں میں ڈالنے کے لیے دی ۔ساتھ ہی اس نے نصیحت کی کہ چند دن اس بچے کو سکول نہ بھیجیں اور نہ ہی گھر میں کتاب پڑھنے دیں جب تک آنکھیں مکمل طور پر ٹھیک نہ ہو جائیں ۔
والدصاحب اس نصیحت کو اپنے پلے باندھ کے میرا ہاتھ پکڑ کے شام کے اندھیرے میں بچتے بچاتے رینالہ خورد کے اسٹیشن پر آبیٹھے ۔ سردی میں اضافہ ہو چکاتھا ۔ مجھے سردی سے کانپتے ہوئے دیکھ کر والد صاحب نے اپنے جسم پر اوڑھا ہوا اوور کوٹ اتارکر میرے اردگرد لپیٹ دیا او رمیری چادر انہوں نے خود اوڑھ لی ۔ سردی تو یقینا انہیں بھی لگ رہی ہوگی لیکن اس لمحے باپ کی شفقت ،سردی پر حاوی آگئی ۔ جیسے ہی ٹرین رینالہ خورد اسٹیشن پر آ کے رکی تو ہم اس کے ذریعے رات 9بجے واپس گھر پہنچ گئے۔
..................
یہاں میں یہ ذکر کرتا چلوں کہ ان دنوں پائپوں کے ذریعے پینے کا پانی گھر گھر پہنچانے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا اور لوگ اپنی ضرورت کا پانی کنوؤں سے حاصل کرتے تھے ۔واں رادھا رام اسٹیشن کے پلیٹ فارم سے ملحقہ دو خاصے کشادہ اور گہرے کنویں موجود تھے ۔ایک محمد علی لوٹے کے کوارٹرکے قریب تھا ( یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ محمدعلی کے نام کے ساتھ لوٹا اس لیے مشہور ہوگیا تھا کہ وہ جب کھیتوں میں رفع حاجت کے لیے جاتا تو اس کے ہاتھ پانی سے بھرا ہوا لوٹا ہوا کرتا تھا جبکہ وہاں کے باقی لوگ کچی مٹی کے ڈھیلوں سے ہی یہ کام انجام دے لیا کرتے تھے ۔)دوسرا کنواں ماموں خورشید کے گھر کے سامنے تھا ، ماموں میں انہیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ وہ قصور شہر کے پیر بوٹے شاہ ( جن کا ذکر پہلے آ چکا ہے ) کے بیٹے تھے ۔اس اعتبار سے وہ میری والدہ کے بھائی بنے ہوئے تھے اور ہم انہیں ماموں کہہ کر پکارتے تھے ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان دنوں ایک د ن مجھے جھولے لینے کا شوق پیدا ہوا ۔ ٹکٹ گھر کی ایک کھڑکی مسافرخانے میں کھلتی تھی ۔ ماموں خورشید ٹکٹ گھر کے اندر موجود ہوتے، جن مسافروں نے ٹرین پر سوار ہونا ہوتا وہ قطار بناکر ٹرین آنے سے پہلے ٹکٹ خریدلیتے ۔اس ٹکٹ گھر پر بجلی کی ایک ٹیوب لائٹ نصب تھی جو شام کے وقت جلتی تھی ،جھولے لینے کے لیے میری نظر اس ٹیوب لائٹ پر تھی ، میں اپنے طور پر سمجھتا تھا کہ وہ بہت مضبوط ہو گی لیکن جب میں سب کی آنکھ بچا کر اسے پکڑ کر لٹکا تو وہ زمین بوس ہو گئی اور میں بھی زمین پر آ گر ا ۔ مجھے اپنی چوٹ تو بھول گئی ۔سرکاری ٹیوب لائٹ ٹوٹنے کا بہت دکھ ہوا ۔ میں نے سوچا ابھی پولیس آئے گی اور مجھے سرکاری ٹیوب توڑنے کے الزام میں پکڑکر لے جائے گی ۔ یہ سوچ کر میں گھر کی جانب بھاگا اور ماں کی آغوش میں جا چھپا ۔ماں نے میری پریشانی دیکھ کر پوچھا کیا نقصان کرآئے ہو۔ میں نے بتایا تو وہ بھی پریشان ہوگئیں لیکن انہیں اس بات کا علم تھا کہ ٹکٹ گھر میں ان کا منہ بولا بھائی بیٹھتا ہے، وہ اس نقصان کی خبرپولیس کو نہیں کرے گا۔ایک دن جب ماموں خورشید ہمارے گھر آئے تو والدہ نے اس واقعے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کوئی بات نہیں ،ٹیوب ٹوٹنے والی چیز تھی، ٹوٹ گئی۔ ہم نے اس کی جگہ دوسری لگا لی ہے ۔
کنووں سے پانی ربڑ کے بوکے سے نکالا جاتا تھا جو ایک مضبوط رسے سے بندھ ہوتا ۔پھر پانی بالٹیوں میں بھر کر کندھوں پر اٹھاکر گھر لاتے تھے۔ گھروں میں پانی محفوظ کرنے کے لئے چند گھڑے لکڑی کی گڑونجی پر رکھے رہتے ۔دھوپ کی وجہ سے جن کی پوزیشن کو کئی بار تبدیل کرنا پڑتا۔ اسی طرح رات کی پکی ہوئی سبزی کو صبح تک محفوظ کرنے کے لئے بھی لوہے کا بنا ہوا ’’کیڑی مار‘‘ چھیکا استعمال ہوتا۔ کنالی میں پانی بھر کر کیڑی مار پر ہانڈی رکھ دی جاتی۔ اس طرح چونٹیوں سمیت کوئی بھی رینگنے والا کیڑا ہانڈی تک نہ پہنچ پاتا۔ اس طرح شام کا پکا ہوا سالن صبح تک محفوظ رہتا۔
(جاری ہے )
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785019 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.