شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی - (قسط نمبر 35)

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال ۔ اسلم لودھی صاحب آپ کے والد محترم کے حوالے سے واقعات بہت دلچسپ ہیں ۔یقینا ہمارے قارئین انہیں پسند فرمائیں گے ؟
اسلم لودھی ۔ شہزاد صا حب جو شخص ہمیں عمر رسیدہ حالت میں نظر آتا ہے وہ کبھی نہ کبھی بچہ بھی تو رہا ہوگا ۔اس بچے نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں انسانی اور خاندانی رشتوں کو جس نظر سے دیکھا ، اسی سے ماضی کی دلچسپ داستانیں بنتی ہیں ۔کسی بھی بچے کی زندگی ماں اور باپ کی شفقت بھری آغوش میں ہی گزرتی ہے، اس لیے اس بچے کے لیے ماں باپ ہی دنیا کے سب سے بڑے ہیرو قرار پاتے ہیں ۔والد صاحب کے حوالے سے داستان کی یہ دوسری قسط ہے ۔جسے پڑھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ میری زندگی میں باپ کا کردار کیا تھا ۔
..............
پچھلی قسط میں بات ہورہی تھی پیر بوٹے شاہ اور ان کے خاندان کے بارے میں ۔ماموں خورشید کا ذکر توواں رادھا رام کے واقعات میں آئے گا لیکن یہاں میں بطور خاص ماموں نذر محمد کا بطور خاص ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔جن کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ تمہاری تمام عادات و خصالات نذر محمد ماموں سے ملتی جلتی ہیں ۔ میں نے پوچھا امی جان وہ کسیے ؟ والدہ نے بتایا ، صبح کا سورج ابھی طلوع بھی نہیں ہوتا تھا کہ دروازے پر دستک سنائی دیتی۔ دروازہ کھول کر دیکھتے تو نذر محمد گھر میں داخل ہونے کے منتظر ہوتے ۔وہ صبح سے شام تک ہمارے ہی گھر میں کھیلتے رہتے تھے ۔ان کی توجہ کا مرکز میں( یعنی محمد اسلم لودھی ) ہی ہوتا ۔اس لیے انسان ہو یا جانور صحبت کا اثر تو یقینا ہوتا ہے ۔ جب میں پی آئی ڈی بی میں بطور سٹینو گرافر ملازم تھا تو ایک دن مجھے پتہ چلا کہ ماموں نذر محمد لاہورہائی کورٹ کے قریب پیکو سائیکل کمپنی میں ملازم ہیں ۔میں انہیں ملنے کے لیے پیکو ہیڈ آفس میں جا پہنچا ۔ جب میں نے انہیں اپنا تعارف کروایاتو وہ مجھے مل کر بہت خوش ہوئے ۔ جب یہ خاندان قصور سے لاہور شالیمار باغ کے پیچھے شفٹ ہواتو وہاں اس خاندان کے سبھی افراد نے اپنی رہائش کے لیے الگ الگ مکان بنالیے ۔ کئی بار غمی خوشی کے موقع پر میں اپنی والدہ کے ساتھ ان کے گھروں جاتا رہا ۔جب سے ماں کا انتقال ہوا ہے ۔ سب رابطے ختم ہوچکے ہیں ۔
بہرحال قصور شہر میں آ کر والد نے بجلی کا کام شروع کردیالیکن ملازمت کے حصول کے لئے جدوجہد کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رکھا۔بالآخراس دن والدصاحب کوریلوے میں کانٹے والا کی حیثیت سے ملازمت ملی جس دن میں دنیا میں آیا تھا۔اس اعتبار سے میری پیدائش کو خاندان کے لیے خوش نصیبی تصور کیا گیا۔ اس کے بعد والد صاحب ہمیں قصور ہی میں چھوڑ کر ٹریننگ کے لئے سیالکوٹ چلے گئے ۔بعدازاں گجرات‘عثمان والا‘ راؤخاں والا میں بھی ٹریننگ کا کچھ عرصہ گزارا۔ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد والد صاحب کی پہلی پوسٹنگ ریلوے اسٹیشن پریم نگر میں ہوئی۔ جو رائے ونڈ سے پتوکی کی جانب پہلا ریلوے اسٹیشن ہے ۔ قریب کوئی انسانی آبادی نہ تھی‘ خاصا دور ایک گاؤں ضرور تھا لیکن وہاں تک ہماری پہنچ نہیں تھی۔ یہاں پر والد صاحب کا اسٹیشن ماسٹر سے جھگڑا ہو گیا جس کی وجہ سے انہیں تبدیل کر کے شیخوپورہ کے نواحی اسٹیشن ’’قلعہ ستار شاہ‘‘ بھیج دیا گیا۔ یہ علاقہ موسم برسات میں اکثر سیلاب کی زد میں رہتا تھا۔ اسٹیشن کے دونوں جانب بڑی نہریں ( جنہیں اس وقت ڈیکیں کہاجاتا تھا) بہتی تھیں ،جو موسم برسات میں اکثر ٹوٹ جاتی تھیں۔ جس سے اسٹیشن اور ریلوے کوارٹر سیلابی پانی میں ڈوب جاتے۔ سیلابی پانی میں سانپ بھی بہہ کر آجاتے۔ اتنے زہریلے سانپ کہ اگر کسی انسان کو ڈس لیتے تو وہ پانی مانگے بغیر ہی اﷲ کو پیارا ہو جاتا۔ دور دور تک انسانی آبادی کا نام و نشان نہ تھا۔ شام ہوتے ہی ہر طرف اندھیرا چھا جاتا۔ رات کے ہر پہر جنگلی جانوروں کا خوف رہتا۔ کیونکہ ہم جس کوارٹر میں رہائش پذیر تھے، اس کی دیواریں زمین سے بمشکل پانچ چھ فٹ ہونگی۔جسے کوئی بھی آسانی سے عبور کرسکتا تھا ۔
یہیں پر میری اکلوتی بہن نصرت پروین پیداہوئی۔بہن کی پیدائش ہم سب بھائیوں کے لئے خوشیوں کا باعث بنی کیونکہ اس صورت میں ہم تینوں بھائیوں کو کھیلنے کے لئے ایک کھلونا مل چکاتھا۔میری عمر ابھی تین چار سال ہوگی ۔میں اپنی بہن نصرت کو اپنی گود میں اٹھا کر یارڈ میں کھڑے ہوئے ریل کے ڈبوں کے پاس کھیلتا رہتا ۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بہن نصرت مجھ سے خاصی منسوب تھی لیکن پیدائش کے فورا بعد ہی اسے بخار نے آ گھیرا ۔دور دور تک ڈاکٹر یا حکیم تو موجود نہیں تھا اس لیے گھریلو ٹوٹکوں ہی سے اس کا علاج چلتا رہا ۔والدین کے ٹوٹکوں نے بیماری کو مزید بگاڑ دیا ۔بالاخر ایک دن میری بہن نصرت اﷲ کو پیاری ہوگئی ۔ والدین نے اسے شیخوپورہ کی جانب اوٹر سگنل کے قریب قبرستان میں خود ہی قبر کھود کر دفن کردیا ۔آج تک بہن نصرت کی تدفین کا منظر میری آنکھوں میں محفوظ ہے بلکہ اب جبکہ میری عمر ی 69سال ہو چکی ہے ، ایک رات خواب میں بیس پچیس سال کی لڑکی خواب میں مجھے ملی ۔میں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ تو اس نے جواب دیا ۔اسلم بھائی آپ نے مجھے پہنچانا نہیں ۔میں آپ کی نصرت بہن ہوں ۔ میں نے کہا تم اتنی بڑی کیسے ہوگئی ۔ اس نے کہا ،یہ سب اﷲ کا کرم ہے ۔
ایک دن والد صاحب کسی محکمانہ کام کی انجام دھی کے لیے لاہور گئے ہوئے تھے ۔ میں ان کی غیر موجودگی میں بہت اداس ہو جایا کرتا تھا ۔ جیسے ہی لاہورکی جانب سے کوئی ٹرین قلعہ ستار شاہ کے اسٹیشن پر آکے رکتی تو میں بھاگتا ہوا اسٹیشن پہنچ جاتا اور ٹرین سے اترنے والی ہر سواری کو گھور گھور کر دیکھتا۔ جب ساری سواریاں اپنا اپنا راستہ لے لیتیں ،تو میں روتا ہوا گھر واپس آجاتا ۔لیکن گھر میں مجھے سکون میسر نہیں تھا ۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ ریلوے اسٹیشن پر ہی جا کر بیٹھ جاتا ہوں، جیسے ہی کوئی آئے گی ،ہو سکتا ہے میرے والد اسی ٹرین سے اتر آئیں ۔ریلوے اسٹیشن کے دونوں پلیٹ فارم بالکل خالی تھے کوئی بھی گاڑی وہاں موجودنہیں تھی ۔ اس لمحے مجھے پلیٹ فارم کے کچھ حصے پر تارکول ( لک) بکھر ی ہوئی دکھائی دی ۔ عمر تو میری بھی کھلونوں سے کھیلنے والی تھی ۔ غربت کی وجہ سے کھلونے تو میسر نہ تھے، اس لیے میں اپنا دل بہلانے کے لیے تارکول( لک) سے کھیلنے لگا ۔اس کے گولے بنا بنا کر ایک جگہ ترتیب سے رکھنے لگا ۔اس لمحے مجھے اس بات کی خبر نہیں رہی کہ اس کھیل سے میرے کپڑے بھی خراب ہوسکتے ہیں ۔میں اپنی ہی دھن میں کھیلتا چلا جارہا تھا ، اسی اثنا میں لاہور کی جانب سے ٹرین آنے کا سگنل ڈاؤن ہوا بلکہ دور آتی ہوئی ٹرین بھی دکھائی دی ۔اس سے پہلے کہ گاڑی پلیٹ فارم پر آکے رکتی ،میں اپنے آپ کو ٹھیک کرنے لگا کیونکہ میں والد صاحب کا استقبال کرنے کے لیے گھر سے آیا ہوا تھا ۔ جب میں نے خود پر نظر دوڑائی تو میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ میرے تو سارے کپڑے ہی خراب ہو چکے تھے ،جب والد صاحب اور والدہ مجھے اس حالت میں دیکھے گی تو بہت مار پڑے گی ۔ کیونکہ ہمیں تو کپڑے بھی صرف عید تہوار پر ہی ملتے تھے ۔
اسی گومگو کی حالت میں ٹرین پلیٹ پر آکے رک گئی ۔میں نے ڈرتے ڈرتے ٹرین سے اترنے والے مسافروں کو دیکھنا شروع کیا تو یکدم میری نگاہیں والد صاحب کے چہرے پر جا پڑیں ۔میں خوشی سے اچھلتا کودتا ان کے پاس جا پہنچا ۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے لیکن جب انہوں نے میرے کپڑے تارکول سے خراب دیکھے تو انہوں نے پریشان ہو کر مجھ سے پوچھا یہ تم نے کیا کیا ہے ۔میں نے روتے ہوئے بتایا ابا جی میں آپ کے انتظار میں ،وقت گزارنے کے لیے میں پلیٹ فارم پر رکھی ہوئی تارکول سے کھیل رہا تھا کہ کپڑے خراب ہوگئے ۔پہلے تو والد صاحب کو بھی غصہ آیا ،پھر ان پر شفقت پدری غالب آگئی ۔وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر گھر پہنچے تووالدہ نے میری حالت کو دیکھتے ہی کپڑے دھونے والا تھاپا پکڑا اور میری ٹھکائی کا پختہ ارادہ ان کے چہرے سے صاف عیاں تھا ۔یہ دیکھتے ہی میں والد صاحب کے پیچھے جا چھپا اور والد صاحب کے پہنے ہوئے کپڑے بھی خراب کردیئے ۔والدصاحب نے میری والدہ کو کہا آپ پرسکون ہو جائیں ۔ اس کے تارکول والے کپڑے میں دھو دوں گا ۔ والدہ نے پوچھا یہ سب کچھ پانی سے نہیں دھلے گا بلکہ اس کے لیے مٹی کا تیل درکار ہو گا ۔ اب مٹی کا تیل کا کہاں سے آئے گا۔ہم تو اجاڑ بیابان میں بیٹھے ہیں ۔ گھر میں استعمال کا سودا بھی مہینے میں ایک بار شیخوپورہ سے لایا جاتا تھا کیا اب مٹی کا تیل خریدنے کے لیے بھی شیخوپورہ جانا پڑے گا۔والد صاحب خاموشی سے جلی کٹی باتیں سن رہے تھے۔پھر اچانک انہیں خیال آیا کہ ریلوے اسٹیشن کے بتی گودام میں بھی مٹی کا تیل رکھا ہوتا ہے جو ہر شام کو چراغوں میں تیل ڈال کر اوٹر اور ہوم سگنلوں کو روشن کیا جاتا ہے تاکہ ٹرین کے ڈرائیور سگنل کو آسانی سے دیکھ سکیں ۔والد صاحب نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا سامان کا تھیلا گھر میں رکھا اور خود اسٹیشن کی جانب چل پڑے ۔ بتی گودام کی چابی ان کے پاس اکثر ہوا کرتی تھی انہوں نے گودام کو کھولا اور مٹی کا تیل لے کر میرے کپڑوں سے تارکول صاف کرنے لگے ۔ میں مجرم بن کے اپنی نگاہیں نیچے کرکے ان کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ والد صاحب مجھے پیار بھی بہت کرتے تھے اور پھینٹی بھی کبھی کبھی لگا دیتے تھے ۔یہ ان پر منحصر تھا کہ ان کے دماغ میں غصہ کب ابھرتا ہے اور کب پیار غالب آتا ہے ۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ قلعہ ستار شاہ ریلوے اسٹیشن پراس وقت بجلی کاتصور بھی نہیں تھا ،ریلوے کوارٹروں میں تو رہنے والے ریلوے ملازمین کو ریلوے حکام ویسے ہی انسان نہیں سمجھتے تھے ،وہاں بجلی کا تصور کیسے کیا جاسکتا تھا ۔ اس چھوٹے سے اسٹیشن پر لاہور اور شیخوپورہ کی جانب کیبن بھی نہیں تھی ۔یہاں اسٹیشن سے فرلانگ دور اجاڑ بیابان میں ریلوے لائن کے ساتھ ہی کھلی جگہ پرچار پانچ لیور نصب تھے ،جب بھی آنے والی ٹرین کا سلاٹر بجتا تو کانٹے والے کی ڈیوٹی میں یہ بات شامل تھی کہ وہ اسٹیشن سے پیدل چلتا ہوا وہاں جائے اور کانٹا سیٹ کرکے سگنل بھی ڈاؤن کرے ۔یہ کام دن کے اجالے میں بیس پچیس مرتبہ کرنا پڑتا ۔لیکن رات کے گھپ اندھیرے میں کانٹے والے کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی بتی ہوتی جس میں ایک چراغ ٹمٹا رہا ہوتا ۔اس چراغ کی روشنی کتنی ہوگی اس کے بارے میں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔میں تو اندھیرے میں گھر سے باہر نکلنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میں بہت بڑا ڈرپوک واقع ہوا ہوں ۔لیکن والدصاحب کو اﷲ تعالی نے شیر کا دل دے رکھا تھا ، خوف نام کی کوئی چیز ان سے چھوکربھی نہیں گزری تھی ۔وہ اکثر بتاتے کہ کئی مرتبہ رات کے دو تین بجے ٹرین کی آمد پر جب وہ کانٹا بدلنے اور سگنل ڈاؤن کرنے لیے متعلقہ جگہ پر جاتے تو اردگرداس قدر اندھیرا چھایا ہوتا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیتا تھا ،کس جانب سے جنگلی جانور حملہ آور ہو گا کچھ پتہ نہیں تھا ۔ لیکن ہر لمحے تیار رہنا پڑتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ڈنڈا ہوتا جسے وہ اپنے کے دفاع کے لیے استعمال کرتے ۔ سیلاب کے دنوں میں کتنی بار ایسا بھی ہوا کہ جب کانٹا بدلنے کے لیے وہ لیور کو ہاتھ لگاتے تو لیور پر پہلے سے سانپ لیپٹا ہوتا اور انہیں اس وقت پتہ چلتا جب وہ سانپ ان کے بازو سے لپٹ کر ان کے چہرے کے برابر آکھڑا ہوتا ۔ اس حالت میں سانپ کا مقابلہ کرنا بھی زندگی سے ہاتھ دھونے کے مترادف تھا ۔ میں سمجھتا ہوں یہ اﷲ کا کرم ہے کہ میرے والد ہر مرتبہ سانپوں کے حملے سے محفوظ رہے۔
قلعہ ستار شاہ ریلوے اسٹیشن اور کوارٹروں کے درمیان ایک فرلانگ کا فاصلہ تو ہو گا ، سیلاب کے دنوں میں دونوں کے درمیان رابطہ بحال رکھنے کے چار پانچ فٹ کی پگڈنڈی بنی ہوئی تھی جس کے نیچے سیلابی پانی گزرنے کی چھوٹی سی پلی تھی ۔یہ اس وجہ سے بنائی گئی تھی کہ کوارٹروں میں رہنے والے ملازمین کو صبح و شام اسٹیشن آنا اور جانا بھی پڑتا تھا ۔اس پگڈنڈی کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کمرہ بناہوا تھا جس میں اسٹیشن میں استعمال ہونے والی اسٹیشنری رکھی ہوتی تھی ۔والد صاحب ساتھ جب مجھے اس کمرے میں جانے کا موقع ملتا تو ایک طرف سے خالی کاپیوں کو دیکھ کرمیرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی کہ میں بڑا ہوکر خوب لکھا کروں گا ۔ یہ خواہش اور حسرت اس وقت کی ہے جب میں نے ابھی سکول کا چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا ۔
میرے دونوں بڑے بھائی(محمد رمضان خان لودھی اور محمد اکرم خان لودھی ) خاصے سمجھدار ہو چکے تھے اس لیے انہیں حصول تعلیم کے لیے سکول بھیجنا ضروری تھا ۔ اس لئے انہیں والد صاحب نے اپنے ساتھ لے کر شیخوپورہ کے ایک پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ وہ ہر روز صبح ٹرین پر شیخوپورہ جاتے اور ٹرین ہی کے ذریعے واپس گھر لوٹ آتے۔ ایک دفعہ وہ شام تک گھر واپس نہ آئے تو والدین کے ذہنوں میں مختلف خدشات جنم لینے لگے ۔ ساری رات ہم اسی فکر میں سو نہ سکے۔ یہ وہ وقت تھا جب نہ ٹیلی فون ہوتا تھا ،موبائل کا تو تصور بھی نہیں تھا ۔حسن اتفاق سے شیخوپورہ میں ہمارے خاندان کے دو گھر آباد تھے ۔ایک دور کے رشتے کی میری والدہ کی بہن کا گھر تھا جن کا نام رشید بیگم تھا ،وہ لوگ خاصے کھاتے پیتے تھے ،ان کے گھر میں بھی تین چار چھوٹے بچے بھی تھے ۔ جبکہ دوسرا گھر میری والدہ اور والد کی خالہ عنایت بی بی کا گھر تھا جو خونی قبرستان کے قریب واقع تھا ۔اس دن میرے دونوں بڑے بھائی، خالہ رشیدبیگم کے گھر چلے گئے جہاں ان کو کھیلنے کے خاصے کھلونے دکھائی دیئے تو وہ وہاں ہی رک گئے۔اس بات کا علم والد صاحب کو اس وقت ہوا جب وہ دوسرے دن واپس گھر پہنچے ۔
(جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 783552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.