منی پور پر مودی : تم یہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا

ستاروں کا گردش میں آجانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے لیکن جب ستارے گردش میں آجاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی حالت غیر کا مشاہدہ کافی ہے۔ ایوان پارلیمان کے اجلاس سے قبل حزب اختلاف نے بنگلورو میں اپنی نشست کا اہتمام کیا تو نہ جانے کس نے مودی جی کو احمقانہ مشورہ دے دیا کہ اسی دن این ڈی اے کی میٹنگ منعقد کرلی جائے ۔ عقلمند انسان اپنی کمزوری کی حالت میں موازنہ سے گریز کرتا ہے تا کہ پردہ پوشی ہوجائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ خود پسند وزیر اعظم کے چاپلوس مشیروں کی بھی عقل ماری گئی ہے۔ ان لوگوں نے سوچا ہوگا کہ مودی جی اپنی تقریر سے گودی میڈیا میں ایسے چھا جائیں گے کہ کسی کو حزب اختلاف کی سرگرمی کا پتہ ہی نہیں چلے گا لیکن الٹا ہوگیا ۔ سارے اخبارات اور ٹیلیویژن پر بنگلورو چھایا رہا کیونکہ اس کے حامی و مخالف دونوں یہ جاننات چاہتے تھے کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ کون کیا کررہا ہے اور کون کیا بول رہا ہے؟ دہلی کی بابت تو سب کو پتہ تھا کہ وہاں مودی ہی مودی ہوں گے اور وہ کیا بولیں گے اس کا بھی لوگوں کا اندازہ تھا ۔ اس لیے میڈیا میں تو حزب اختلاف کے اجلاس نے بی جے پی کو اس کے سارے ہتھکنڈوں کے باوجود مات دے دی۔

بنگلورو سے جو نئی چیز نکل کر آئی وہ مذکورہ اتحاد کا نیا نام ’انڈیا‘ تھا ۔ یہ راہل گاندھی کے ذہن کی اختراع تھی ۔ راہل گاندھی کو ابھی تک جس کی سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ ممتا بنرجی تھیں لیکن یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ملک ارجن کھرگے نے تو نام کا مخفف بتایا مگر اس کی تفصیل بتانے کی ذمہ داری دیدی کو دی گئی ۔ انہوں اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے راہل گاندھی کو اپنا فیوریٹ (چہیتا ) کہہ کر ان زعفرانی ارمانوں پر پانی پھیر دیا جو چاہتے تھے کہ ترنمول اور کانگریس میں لڑائی ہوجائے تاکہ اس کا وارے نیارے ہوجائیں مگر اس بار بلی کے بھاگیہ سے چھنکا نہیں ٹوٹا۔ اس کی تشہیر میں جو کمی رہ گئی تھی اس کو بی جے پی کے بیوقوفوں نے مخالفت کرکےپورا کردیا ۔ ابھی یہ زخم تازہ تھا کہ عدالتِ عظمیٰ نے تیستا سیتلواد کے متعلق گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کو متضاد اور ٹیڑھا یا ناقص کہہ کر مسترد کردیا۔ یہ فرمان چونکہ مرکزی حکومت کے ایماء پر اس کی خوشنودی کی خاطر سنایا گیا تھا اس لیے یہ جوتا بھی اسی کے مودی سرکار پر پڑا۔ تیستا کے زخم کا خون ابھی رِس ہی رہا تھا کہ منی پور سے دل دہلا دینے والا ویڈیو سامنے آگیا ۔ مودی جی اس کو بھی دبا دیتے مگر سپریم کورٹ نے اسے ناقابلِ برداشت بتاکر ایسا جھٹکا دیا کہ تارے نظر آنے لگے اور بادلِ ناخواستہ مودی جی کو اپنی چپیّ توڑنے پر مجبور ہونا پڑالیکن انہوں نے اس میں راجستھان اور چھتیس گڑھ کا ذکر کرکے کانگریس کو موردِ الزام ٹھہرا کر اسے معمولی قرار دینے کی کوشش کی۔ اس پر ان کی زبردست تنقید ہوئی اور لینے کے دینے پڑ گئے۔ مودی جی کی حالیہ درگت پر غالب کایہ شعر صادق آتاہے ؎
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

راہل گاندھی کا قضیہ فی الحال سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اگلے ماہ چار اگست کو ایسا ہی فیصلہ صادر کردے تو بعید نہیں کہ اس جھٹکے سے یہ سرکار کوما میں چلی جائے۔ بی جے پی نے دو سالوں تک لگاتار ۵؍اگست کو رام مندر کی بنیاد رکھ کر کشمیر کی دفع370ختم کرکے قوم کو دو صدمے دئیے ہوسکتا ہے اس بار اس کو صدمہ لگ جائے ۔ مودی جی بولتے ہیں اور خوب بولتے ہیں لیکن کام کی بات نہیں بولتے۔ سرزمینِ امریکہ میں وال اسٹریٹ جرنل کی نامہ نگار صبرینہ صدیقی کا 33 سیکنڈ کے اندر کیا جانے والا سوال ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتا ہے اور وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ منی پور کے معاملہ میں بھی انہوں نے ایک پر اسرار خاموشی کی چادر اوڑھ لی ۔اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے سے ایک دن قبل انہوں نے اپنی تقریر میں مغربی بنگال کے اندر ہونے والے تشدد کا تفصیل سے ذکر کیا جہاں بلدیاتی انتخاب نے چالیس افراد کی جان لے لی۔ اس تشدد پر خاموش رہنے والے حزب اختلاف پر خوب لعن طعن کی مگر منی پور جہاں چار گنا زیادہ160 ؍افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں پر ایک حرف نہیں کہا ۔ وزیر اعظم امریکہ اور فرانس کی سیرکر آئےمگر انہیں منی پور جانے کی توفیق نہیں ملی ۔ عالمی دورے پر دنیا بھر کے مسائل پر گفتگو کی اور بلند بانگ دعویٰ بھی کیے مگر منی پور کے ہیبت ناک تشدد پر خاموش رہے ایسے میں اسی غزل کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

منی پور میں جاری تشدد کے سلسلے کا یہ انسانیت کو شرمسار کرنے والا معاملہ اگر ویڈیو کے ذریعہ منظر عام پر نہیں آتا تو اس بار بھی مودی جی مونی بابا بنے رہتے۔ سچ تو یہ ہے موجودہ وزیر اعظم نے خاموشی کے معاملے میں نرسمھا راو اور منموہن سنگھ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ بولتے نہیں تھے مگر کام کرتے تھے اس کے برعکس مودی جی کوئی کام تو نہیں کرتے ہاں اوٹ پٹانگ ہانکتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پروائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دو کوکی خواتین کو ایک ہجوم برہنہ حالت میں لے جاتا ہوانظر آتا ہے۔ یہ ویڈیو منی پور کی راجدھانی امپھال سے 35 کلومیٹر دور کانگ پوکپی ضلع کی ہے۔ اس ویڈیو پر جب کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تو مودی بھکتوں کی جانب سے یہ اعتراض سامنےآیا کہ یہ تو 4؍ مئی کی یعنی 75؍ دن پرانی ہے۔ وہ لوگ بھول گئے یہ تو ڈبل انجن سرکار کے خلاف گواہی ہے کہ اتنے دنوں تک اس نے کارروائی کیوں نہیں کی؟ وہ ٹوئٹر پر اس ویڈیو کے آنے کا انتظار کیوں کررہی تھی؟ ایسا بھی نہیں ہے کہ انتظامیہ اس سے بے خبر تھا بلکہ پولیس نے اعتراف کیا کہ ایف آئی آر درج کی گئی تھی ۔ ایف آئی آر کے اندر اس ظلم کی تفصیل موجود ہے مگر سات آٹھ سو کےنامعلوم ہجوم کو ملزم ٹھہرا کرظالموں کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ خود پولیس نے ان مظلوموں کو بدمعاشوں کے حوالے کیا یا وہ انہیں چھین کر لے گئے۔ ایک بھائی اور باپ نے اپنی بہن اور بیٹی کو بچانے کی کوشش کی تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس کے باوجود کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تا آنکہ ویڈیو سامنے آگئی اور بولنا پڑا ایسےمیں غالب کہتا ہے(ترمیم کی معذرت کے ساتھ)؎
ویڈیو گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

قبائلی خواتین کی برہنہ پریڈ کا معاملہ طول پکڑنےلگا تو حیران و ششدر حزب اختلاف نے حکومت پر حملہ بول دیا ہے اور ریاست کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ۔ یہ وہی بیرین سنگھ ہیں جنھوں نے کچھ عرصہ قبل استعفیٰ کا ڈرامہ کیا اور اپنے حواریوں کو جمع کرکےنعرے لگوائےاور اسے واپس لے لیا۔ یہ صاحب 75 دن سونے کے بعد اب بیدار ہوئے اور ویڈیو کی مدد سے واقعے میں ملوث کلیدی ملزم کو گرفتار کر نے کا دعویٰ کردیا ۔ پہلےگرفتار شدہ شخص کا نام کھوروم ہیراداس ہے اور اسے منی پور کے تھاوبل ضلع سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ویڈیو میں اس نے سبز رنگ کی شرٹ پہن رکھی ہے۔ ہیراداس کی عمر 32 سال ہے، جس کی شناخت ویڈیو سے کی گئی ہے۔ یہ کام اگر اتنا آسان تھا تو تاخیر مزید تشویشاناک ہوجاتی اور اس بات کی چغلی کھاتی ہے کہ اپنے میتئی رائے دہندگان کی ناراضی سے بچنے کے لیے یہ مجرمانہ تعارض برتا گیا ۔ یہ شک اس لیے بھی یقین میں بدل جاتا ہے کیونکہ یہی سنگھ پریوار کا شعار ہے بیرین سنگھ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ مزید پانچ لوگوں کو گرفتارکیا ہے اور انہیں پھانسی کی سزا دلوائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اتنے دنوں تک وہ کس بات کا انتظار کیوں کررہے تھے ؟ پانی جب سر سے اونچا ہوگیا تو وزیر اعظم نریندر مودی نے فرمایا منی پور کی بیٹیوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس کے مجرموں کو بخشا نہیں جائے گا، جبکہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ سے فون پر بات کی اور یہ گرفتاری عمل میں آئی۔ اس بیان میں نہ صرف تاخیر بلکہ چھتیس گڑھ اور راجستھان کے ذکر نے گھٹیا سیاست گھسا دی جو سنگھ کے سنسکار اور تنگ دلی کا بین ثبوت ہے۔ مودی جی سے پہلے تو اس تشدد پر کچھ کہا نہیں گیا اور بولے بھی تو کیا بولے اس پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے (ترمیم کی معذرت کے ساتھ ) ؎
بات کس منہ سے بو لوہو مودی
شرم تم کو مگر نہیں آتی
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450925 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.