پاکستانی عوام کا نہیں یہ وہی عوام تھی جس نے 1947 میں قائداعظم کی قیادت میں ایک آزاد مملکت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیکر آزادی حاصل کی جبکہ عوام کی اکثریت اپنے قائد کی بیشتر تقریر جو انگریزی میں ہوتی تھی عوام سمجھنے سے بھی قاصر تھی مگر عوام میں ایک جزبہ و جنون تھا، اسکولوں و کالجوں ، گھروں، مساجدوں، آفیسوں ، ہوٹلوں، چوراہوں، چوباروں ، غمی وخوشی کی محفلوں غرض ہر وہ جگہ جہاں 2 سے 4 افراد جمع ہوں ایک اخلاقیات ، شرافت ، ملنساری، محبت ، اقدار ، جزبہ ، لگن ، احساس ، احترام ، برداشت ، صبر یہ سب اُن لوگوں میں تھیں جس سے ایک مکمل بہترین انسان بنتا ہے جبکہ اُس وقت نہ گلی گلی میں تعلیمی اداروں کی بھر مار تھی مسلمانوں کا تعلیمی %10 سے بھی کم تھا اور لڑکیوں کا تو نہ ہونے کے برابر تھا اور نہ ہی گھر گھر الیکٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا جیسی سہولتیں گھر گھر میں موجود نہ تھیں اس کے باوجود ہر شخص اپنے کردار میں آج کے شخص سے اُسکا رُتبہ بہت بلند و بالہ تھا اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہی تھی کے تربیت ، شعور یہ دو چیزیں انہیں گھر کے آنگن و چوباروں سے ملتیں تھیں . ماضی میں بڑے بزرگ اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے تھے اس کے باوجود بھی اپنے بچوں کی اچھی تربیت کیا کرتے تھے۔ بچوں کے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے کے آداب پر خاص توجہ دیتے تھے۔ بچوں کو بتایا جاتا تھا بڑوں کا ادب کیسے کرنا ہے. چاہے وہ عبادت کی محفل ہو ، اسکولوں و کالجوں میں ، دینی درسگاہوں وغیرہ میں ہوں بچے کو تربیت اور شعور ملتا تھا جبکہ آج کی اس مادہ پرستی کے دور میں گھروں میں والدین نے بچوں کی شخصیت میں اخلاقی بحران اور تہذیبی اقدار کی قلت کی سب سے بڑی وجہ والدین کی بے جا غفلت ہے والدین اپنے مسائل میں اتنے مصروف ہیں کہ اپنی اولادوں کے لیے ان کے پاس وقت نہیں تیزی سے دوڑتی زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنی اولادوں کو فراموش کیے جارہے ہیں. تربیت کا آغاز تو ماں کی گود سے ہوتا ہے‘ بچے اپنے والد کے طور طریقے اپناتے ہیں‘ گھر ہی بنیادی درس گاہ ہے جہاں تعلیم و تربیت کا آغاز ہوتا ہے‘ گویا پہلے استاد ماں باپ ہوتے ہیں‘ اس وقت اکثر والدین ڈگری یافتہ بھی نہیں ہوتے تھے۰ ان کو بنیادی طور پر ان عقائد کی تعلیم دی جاتی ہے جس مذہب کے وہ پیروکار ہوتے ہیں‘ اللہ کے رسول پر جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی ‘وہ بھی پڑھنے کے حوالے سے تھی‘ معاشرے میں جو انتشار و انارکی بڑھی ہے اس کی وجہ تعلیم و تربیت کا فقدان ہے اور ان دونوں کے درمیان فرق پیدا کردیا گیا ہے‘ تعلیم کو ترقی دی جارہی ہے اور تربیت کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے‘ اب مقصد یہ رہ گیا بڑے بڑے اسکول و کالج ادارے کھول دیے گئے۔ ان بڑے درس گاہوں میں میں بھاری بھرکم فیسیں تو وصول کی جانے لگیں لیکن طلبا کی تربیت و شعور کہیں ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی نسل نو سماجی برائیوں اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔ آج کے دور کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ والدین جہاں اپنے بچوں کو تعلیم کےلیے اعلیٰ ترین، مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں وہاں وہ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ کیا اس درسگاہ میں بچے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کی جارہی ہے یا نہیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے لاہور کے ایک کیمبرج ادارے میں نوجوان نئی نسل کی حرکتوں نے جہاں ادارے کی ساکھ خراب کی وہاں ہی ان بچوں کے والدین کی گھر کی تربیت میں کوتاہی بھی پاکستانی عوام کے سامنے نظر آئی کے اس ہی طرح بہاولپور یونیورسٹی میں گزشتہ دنوں میں پرنٹ میڈیا ، الیکٹرونک میڈیا و سوشل میڈیا کی جو زینت بن رہا ہے کہ ہم پاکستانی اس نئی نسل کے ساتھ کیا کررہے ہیں . وہ اُستاد جو باپ کا درجہ رکھتے ہیں . وہ حوا کی بیٹیوں کے ساتھ کیا کررہے ہیں . ان کی عزتوں کو تار تار کررہے ہیں کس طرح ان بڑے اسکول و کالج و یونیورسٹی میں والدین کی چشم پوشی سے یہ مافیہ ٹیڑھے منہہ سے انگریزی بولنے والے ان ابلیس کی نسل بھیڑیاؤں کہ آگے اپنی بچیوں کو تر نوالہ بنے چھوڑدیا، اب والدین اپنی نسلوں کے لیے خواب غفلت سے بیدار ہوں اپنے بچوں کو گھر سے تربیت و شعور دیں کہ وہ اُس کے کام اس جہالت سے بھرپور ، قدامت پسند ، زہنی بیمار ، جنگلیوں و وحشیوں کے جال سے اپنے آپ کو بچایں . یہ شعور اور تربیت انہیں ہر جگہ اپنے بچاؤ کہ کام آئے چاہے وہ بہاولپور جیسے ادارے کیوں نہ ہو ، کوئی ایسا بدکردا، بدنما شخض جو انہیں غلط راہوں کی طرف لیجانے کی کوشش کرئے تو یہ نسل میں اتنا جوش و ولولہ ہو کہ اُس بدبختوں کو وہاں ہی روک دے کہ آئیندہ اُس بدکردار کی جُرت نہ ہو یہ سب اُس وقت ہی ہوسکتا ہے. گھروں میں والدین خاص کر مائیں بچوں کی زبان اور ادب و آداب پر نظر رکھیں۔ یہ دنیا کا مانا ہوا اصول ہے کہ اگر تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو معاشرہ ترقی کی سیڑھی نہیں چڑھ سکتا وہ پستی کی طرف ہی جاتا مغرب میں بچوں کی تربیت نہ ہونے سے مغرب کی نوجوان نسل آج کہاں کھڑی ہے ؟آج کل اس معاشرے میں اپنے بچوں کی تربیت اور شعور میں خود رہنمائی کریں یہ اولاد والدین کا مستقبل ہیں. آج والدین اپنے بچوں کی صیح تربیت کریں گے کل یہ ہی بچے اپنے آپ کو اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے گھر ، اپنے تعلیمی ادارے ،اپنے ادارے وغیرہ میں بدکرداروں کو بھاگنے پر مجبور کردینگے اور یہ ہی بچے آگے چل کر مُلک میں روشنی کی کرن پھیلانے میں ایک تبدیلی کا خوبصورت ہوا کا جھونکا ثابت ہوئینگے جو اپنی نسلوں کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی بھی خدمت اور رہنمائی کرینگے.
|