مولانا عنایت اللہ میر ہمارے جوان نما بزرگ دوست ہیں. وہ جے یو آئی کے نظریاتی کارکن ہیں اور خالص فضل الرحمانی بھی. بلکہ سچ کہوں تو وہ اپنے بچوں سمیت جمعیتی ہیں. جمیعت علماء اسلام گلگت بلتستان کے نائب امیر ہیں. جماعت کے ساتھ ان کی وابستگی بے لوث ہے.
انہوں نے جے یو آئی کے پلیٹ فارم سے کاغذات نامزدگی جمع کر کے، استور ون سے باضابطہ طور پر ضمنی الیکشن میں حصہ لینا کا اعلان کیا ہے. یہ سیٹ سابق وزیراعلیٰ خالد خورشید کی نااہلی کے بعد خالی ہوئی ہے.
یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ جے یو آئی جی بی کا کوئی بھی امیر/ صدر صاحب اب تک اپنے حلقے سے الیکشن نہ لڑ سکا، نائب امراء اور جنرل سیکرٹریز کا بھی یہی حال ہے. الیکشن کے دنوں میں کچھ ذمہ داران کاغذات جمع کرواتے ہیں اور عین وقت پر کسی ناہنجار کے حق میں ودتھ ڈرا ہوجاتے ہیں، جس سے عام کارکنوں اور عوام میں چمہ گوئیاں شروع ہوجاتی ہیں. بہت سارے تو ایسے علماء کو جگاڑی اور مفاداتی کہتے ہیں، جن کے ساتھ ہمیں مجبوراً الجھنا پڑتا کہ علماء کو برا بھلا نہ کہا جائے.
مولانا اب کی بار آپ جماعت کے امراء و جنرل سیکریٹریز پر لگنے والے اس تمہت کا ازالہ بھی کریں گے.
مولانا عنایت اللہ میر نے شاید مرکزی اور صوبائی جماعت سے مشاورت کے بعد باضابطہ کاغذات جمع کروائے ہوں. ہماری خواہش ہے کہ وہ باقاعدہ الیکشن لڑیں، اپنی بھرپور کمپین کریں، مرکزی اور صوبائی ذمہ داروں کو حلقہ میں لے جائیں، بلکہ مرکز اور صوبہ کے ذمہ داروں کو خود ایک قدم آگے بڑھ کر ان کے پاس پہنچنا چاہیے. اور ہر قسم کی اخلاقی اور مالی معاونت کرنا چاہیے.
ہر جماعت اپنے نامزد امیدواروں کیساتھ کھڑی ہوتی ہے، جے یو آئی والوں کو بھی ایسا ہی مظاہرہ کرنا ہوگا. جنرل الیکشن کے لئے قائدین مرکز سے آسکتے ہیں تو اپنے ایک دیرینہ کارکن، نظریاتی عالم دین اور سکہ بند فضل الرحمانی کے لئے بھی مرکز سے وفد آئے اور مولانا کی کمپین کرے. جی بی کے تمام حلقوں اور یونٹس کے زمہ داروں کو بھی استور پہنچنا چاہیے. صوبائی کوئی شوریٰ ہے تو اس کو اب اٹھ کھڑا ہونا چاہیے اور اگر ایسا ہوا تو جنرل الیکشن کے لیے جماعت ذہنی طور پر تیار رہے گی. صوبائی جماعت کے لیے مولانا میر ٹیسٹ کیس ہے. مقتدر ادارے اور عوامی حلقے یہی سب کچھ نوٹ کرتے ہیں کہ کس جماعت کی قیادت اپنے لوگوں کیساتھ کھڑی ہے. کس میں کتنا دم ہے.
مولانا میر، صاحب ثروت نہیں ہے تو کیا ہوا، جے یو آئی کے درجنوں قومی و صوبائی ممبران اسمبلی بے حد غریب تھے مگر جماعت نے ساتھ دیا تو جیت بھی گئے اور کردار بھی ادا کیا. مولانا میر تو جماعت کے جی بی میں نظریاتی سرمایہ ہیں. سیاسی حرکیات پر نظر رکھنے والے احباب دیکھیں گے کہ جماعت اپنے نامزد امیدوار کیساتھ کیسا سلوک کرتی ہے..غیر جانبدار سیاسی مورخ و تجزیہ کار جب بھی لکھے گا تو یہی سب لکھے گا. اب سب کچھ آپ کے ہاتھ میں ہے. کل کلاں پھر کسی کے تجزیہ و تبصرہ پر ہرزہ سرائی کرنے سے بہتر ہے آج ایکٹیو ہوجائیں.
مولانا! اب کی بار کچھ بھی ہو، ودتھ ڈرا نہیں ہونا، اگر ایسا ہوا تو یقین جانیں، ہم جیسے چاہنے والوں کا دل بہت دکھے گا، اور ہم یہی سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ یہ لولی لنگڑی بارگینگ ہے اور یہ بارگینگ بھی اوپر اوپر سے کسی نے کی ہے اور آپ کے ہاتھ کچھ نہیں لگا.
اور اگر آپ ڈٹ کر میدان میں کھڑے رہے تو یقین جانیں، آپ کا وقار اور آپ کا سیاسی قد کاٹھ مزید بڑھے گا.
یاد رہے ہمارے بزرگوں نے دولت کے، زور پر الیکشن نہیں جیتے یا لڑے، بلکہ اپنے اخلاقی اور علمی وقار اور کردار کی بنیاد پر الیکشن لڑا اور جیتا بھی..ہم بھی آپ سے یہی توقع رکھتے ہیں. آپ بے شک نہ جیتے، لیکن ڈٹ کر میدان میں رہیں! یہ خوش آیند بات ہے کہ حلقے کے بہت سارے علماء کرام اور کئی عمائدین نے آپ کی تائید بھی کی ہے اور اعتماد بھی. اب آپ پر لازم ہے کہ اس تائید و اعتماد کی لاج رکھیں. اپنی بساط کے مطابق کمپین کیجئے. اللہ اسی میں مدد کریں گے.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|