الیکشن کی شفافیت پر سیاسی قائدین کے تحفظات

الیکشن کی شفافیت پر سیاسی قائدین کے تحفظات: محمد ادریس جامی :

سیاسی جماعتوں کے قائدین اور انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات، الزامات، خدشات اور تحفظات میں کتنی حقانیت ہے اور کیا اس صورتحال میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو وہ تمام سیاسی قوتیں تسلیم کریں گی جو اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کررہی ہیں کیونکہ الیکشن دوتین دن دوری پر ہیں۔ ذیل میں نمبروار الیکشن پرتحفظات رقم کیے جاتے ہیں۔
(1) الیکشن 2018ء پر انسانی حقوق کمیشن کو سنگین تحفظات لاحق ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کرکے اپنے تمام تحفظات سے آگاہ کیا ہے کہ الیکشن سے قبل مخصوص سیاستدانوں کے خلاف یکطرفہ انتقامی کاروائیاں کی جارہی ہیں جبکہ میڈیا پر دباؤ کے ذریعے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہورہی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے وفد نے انتخابات میں مبینہ طور پر مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے کھلی اور جارحانہ مہم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ۔ وفد نے کہا ہے کہ حالیہ اقدامات نے الیکشن کے منصفانہ انعقاد پر شکوک وشبہات پیدا کردیے ہیں۔ وفد نے سکیورٹی فورسز کو انتخابات کے دوران غیر معمولی اختیارات دینے پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا۔ وفد کا کہنا تھا کہ ساڑھے تین لاکھ سیکورٹی اہلکار پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر تعینات کیے جارہے ہیں اور سیکورٹی اہلکاروں کو پولنگ سٹیشنوں کے اندر مجسٹریٹ کے اختیارات بھی دیے گئے ہیں جس سے انتخابی عمل کے دوران سویلین اور غیر سویلین ذمہ داروں میں ابہام پیدا ہوگا۔ ایسے اقدامات کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ انسانی حقوق کمیشن کے وفدنے الیکشن کمیشن پرر زور دیا کہ وہ مختلف سیاسی جماعتوں سے پولیس کے رویے کو بھی مانیٹر کرے اور اس امر کو یقینی بنائے تاکہ تمام امیدواروں کو برابر کے مواقع میسر ہوں۔ وفد نے الیکشن کمیشن کو خبردار کیا کہ بعض کالعدم تنظیمیں نام بدل کر انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں جو خلاف قانون ہے۔
میاں نواز شریف بانی ن لیگ، مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، پرویز رشید، مریم اورنگزیب نے الیکشن پر سوالیہ نشان لگادئیے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نوازشریف نے الیکشن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان الیکشن کے نتائج قبول نہیں کریں گے کیونکہ ان کی نااہلی اور مسلم لیگ کے ارکان کے ساتھ جو ہوا وہی جنرل الیکشن میں بھی ہونے جارہا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کو دبایا جائے اور کسی کو کھلی چھٹی دے دی جائے۔
مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے الیکشن پر تحفظات کا اظہا رکرتے ہوئے کہا ہے کہ اُمیدواروں کی گرفتاریاں اور نااہلیوں نے شفاف اور آزادانہ الیکشن کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگادیا ہے، مسلم لیگ کے خلاف نیب کی انتقامی کاروائیاں انتخابی مہم کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے، ایسی کاروائیوں نے الیکشن پر شکوک وشبہات پیدا کردیے ہیں۔ الیکشن کو متنازعہ بنایا گیا تو ملک کو نقصان ہوگا، ایک جماعت کو سرگرمیوں کی اجازت، باقیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت کو پی ٹی آئی کی طفیلی حکومت قراردیا اور کہا کہ ہم پرامن استقبال کرنا چاہتے تھے اپنے قائد کا مگر پنجاب حکومت نے مسلم لیگ کے اکابرین اور کارکنان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم کردیئے، پی ٹی آئی اور پنجاب حکومت ایک ہے ان میں کوئی فرق نہیں ۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان اُٹھ رہے ہیں۔ الیکشن متنازعہ ہورہا ہے انہوں نے مزید کہا کہ دوہزار دو کا الیکشن بھی برداشت کیا تھا یہ بھی برداشت کرلیں گے، عمران خان جو مرضی حربے آزمالیں فتح نوازشریف کی ہوگی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کا سلسلہ جاری ہے اور ہمیں انتخابی عمل کے لیے سازگار ماحول نہیں مل رہا ۔ عمران خان سازشیں کرکے وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ بلاول بھٹو نے عمران خان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گالم گلوچ اور نفرت کی سیاست کرکے شاید قلیل المدت فائدہ اُٹھالیا جائے تاہم اس عمل سے قوم کو طویل المدت نقصان ہوگا۔ چیئرمین کا کہنا تھا کہ کٹھ پتلی آئی جے آئی طرز کا اتحاد بنانے کی کوشش ہورہی ہے پی ٹی آئی ہو یا جی ڈی اے وہ آزادنہ الیکشن میں مقابلہ نہیں کرسکتے، جو بھی سازشیں ہورہی ہیں ایک دن ان کے ثبوت سامنے لائیں گے۔ کئی بار پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ کالعدم جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے، ان پر بارہا اعتراض کیا ہے اور الیکشن کمیشن کو بھی شکایت کی ہے، مزید کہا کہ دہشتگردی کی وجہ سے بعض مقامات پر جلسے منسوخ کیے، ہمارے امیدواروں کو سیکورٹی اور برابری کے مواقع نہ ملنے پر شدید تحفظات ہیں، ہمیں بتایا گیا تھا کہ دہشتگردی کی کمر توڑ دی گئی ہے مگر ایسا نہیں ہوا اور اب الیکشن خوف کی فضا میں ہورہے ہیں، موجودہ صورتحال میں سیکورٹی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ الیکشن کمیشن ہماری شکایات پر اقدامات اُٹھائے۔ چیئرمین بلاول کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو الیکشن سے پہلے سنگل آؤٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم نہیں کیے جارہے، مجھے سیکورٹی تھریٹ کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے توقع تھی کہ وہ غیرجانبدار رہتے ہوئے صاف اور شفاف الیکشن کروائے گا، لیکن اب تک الیکشن کمیشن توقعات پر پورا نہیں اترا اور انہی وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں یرغمال ہے، امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی یتیم خانہ ہے اور اب وہ واشنگ مشین بن گئی ہے، کل تک جنہوں نے پی پی پی اور ن لیگ کی حکومتوں میں رہ کر پاکستان کو لوٹا ہے وہ آج پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز ہیں، نیب اور احتساب عدالتیں بھی احتساب میں ناکام رہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی کو الیکشن سے آؤٹ کرنے کے لیے سازش کی جارہی ہے، صبر کرلیا، اگر ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو ملک اور سسٹم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا تاہم دشمن کچھ بھی کرلے ہم ڈٹے رہیں گے اور میدان خالی نہیں چھوڑیں گے۔ مزید کہا کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہیں؟ اور ہمارے تحفظات بڑھتے جارہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ انتخابی عمل کے حوالے سے سازگار انتخابی ماحول ناگزیر ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کا مینڈیٹ لے کر کسی اور کو دیا جارہا ہے، ہمیں مائنس کیا نہیں جارہا بلکہ کردیا گیا ہے الیکشن ہماری بقا کی ضمانت نہیں دے سکتا جو زیادتیاں ہمارے ساتھ ہوئیں سب کے سامنے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں پر ہمارے احتجاج پر کان نہ دھرا، میرا حلقہ مکمل ختم کرکے ڈیفنس، کلفٹن، لیاری سے ملادیا ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری پر ہمارے تحفظات کا ازالہ نہیں کیا گیا ہمارے ساتھ الیکشن سے پہلے زیادتی ہورہی ہے، ہمارے دفاتر ابھی تک واپس نہیں ملے، ہمارے تحفظات حل نہ ہوئے تو ایم کیو ایم الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرسکتی ہے۔
متحدہ مجلس عمل اور جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے قائم مقام امیر علامہ محمد ابوتراب نے ایک پریس کانفر کی لیاقت بلوچ نے عام انتخاب پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی کیلئے رکاوٹیں اور کسی کو سہولتیں دی جارہی ہیں۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے الیکشن میں مداخلت کو برداشت نہ کرنے کا عزم دہراتے ہوئے کہا کہ بندوق کی بات کبھی نہیں کی بلکہ ہمیشہ جمہوریت اور آئین کی بات کی ہے، اچکزئی کا کہنا تھا کہ مشکل سے مشکل وقت میں سیاست کی ہے اور یہ سلسلہ نہیں رکے گا تاہم دیوار سے لگاکر پارلیمانی سیاست کو خیرباد کہنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
اسی طرح مسلم لیگ ن کے پرویز رشید، مریم اورنگزیب، آصف کرمانی اور کئی دیگر رہنماؤں نے الیکشن کی شفافیت اور پنجاب کی نگران حکومت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ مذکورہ بالا سیاسی جماعتوں کے اکابرین کا موقف اور موجودہ الیکشن کے حوالے سے تمام تر شکایات اور تحفظات آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں تاکہ آپ فیصلہ کرسکیں۔ دوسری طرف سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے خصوصی اجلاس کا تذکرہ بھی ازحد ضروری ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں نمائندہ جی ایچ کیو میجر جنرل آصف غفور ،نیکٹا کوارڈینٹر، وفاقی سیکرٹری داخلہ ودفاع، سیکرٹری الیکشن کمیشن، چاروں صوبوں کے آئی جیز و اراکین سینٹ نے شرکت کی اجلاس میں میجر آصف غفور نے کہا کہ مسلح افواج ہمیشہ سول اداروں کو اپنی حمایت دیتی رہی ہے جبکہ الیکشن میں پرنٹنگ پریس کے لیے بھی فوج ڈیوٹی دے رہی ہے، آصف غفور نے کہا کہ فوج کا انتخابات میں براہ راست کوئی تعلق یا کردار نہیں، ہم صرف الیکشن کمیشن کی ہدایت پر امن وامان کی صورتحال کو بہتر رکھنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 3لاکھ 71ہزار فوج کے جوان ملک بھر میں پولنگ اسٹیشن پر تعینات پر ہوں گے۔ ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فوجی جوانوں کو کوئی مخصوص احکامات نہیں دیئے گئے ہیں، ہم نے الیکشن کمیشن میں ضابطہ اخلاق کے تحت کام کرنا ہے، لیکن بدقسمتی سے جب تک پولیس کی استعداد نہیں بڑھتی ہمیں پولیس کی ڈیوٹی بھی دینی ہے ہم الیکشن کے عمل کے دوران سیکیورٹی کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کررہے ہیں۔ اس موقع پر نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے سربراہ ڈاکٹر سلیمان نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتو کی قیادت کو نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہے۔ اب تک 65تھریٹ الرٹ آئے ہیں سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے بھی اجلاس کو بریفنگ دی اور بتایا کہ الیکشن کمیشن کلی غیر جانبدار ہے ہمارا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، الیکشن کے لیے واٹر مارک بیلٹ پیپر یورپ سے منگوائے گئے ہیں اور تمام پولنگ اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں گے۔ آنے والے الیکشن پر بھی 2018 کی نسبت زیادہ تحفظات ہوں گے


idreesjaami
About the Author: idreesjaami Read More Articles by idreesjaami: 26 Articles with 22156 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.