درخت اور سبزہ خدا کا دیا ہو وہ تحفہ ہیں
جسے دیکھ کر انسان کی طبیعت خوشگوار اور دل کو راحت و سکون محسوس ہوتا ہے۔
درخت و سبزہ خوبصورتی و شادابی کا وہ منظر ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں
ملتا۔ دنیا میں جنگلات کی شرح 25، 30، 35 اور40 فیصد تک ہے جبکہ پاکستان
میں یہ رقبہ چار اعشاریہ دو دو چار ملین ہیکٹر پر مشتمل ہے جو کل رقبہ
کاصرف 5 فیصد ہے اور اسے بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کے
پہاڑی سلسلوں میں لگے الپائن، سب الپائن، جونیپر، سفیدہ اور دیودار کے
اونچے اونچے درختوں خوبصورتی و حسن کا ایک الگ منظر پیش کرتے ہیں۔ پاکستان
میں 5 ہزار 7 سو اقسام کے پودے، درخت اور جنگلات پائے جاتے ہیں۔ صرف چترال،
کشمیر اور شمالی بلوچستان میں ہی 203 اقسام کے پورے اور درخت پائے جاتے ہیں
جو ملک بھر کے کل درختوں کا چار فیصد ہیں۔ نسبتاً کم بلند ہمالیائی سلسلوں
میں بارش زیادہ ہوتی ہے اور اسی سبب یہاں دیودار، پائن، گل لالہ اور شاہ
بلوط یا بید مجنوں کے گھنے جنگلات کی بھرمار ہے۔
ویسے تو پاکستان کے چاروں صوبوں میں جنگلات ہیں مگر جونیپر (صنوبر) کے
جنگلات دنیا بھر میں سبزہ اور خوبصورتی کے اعتبار سے خاص مشہور ہیں۔ جونیپر
کے جنگلات صوبہ بلوچستان کے علاقے زیارت میں واقع ہیں۔زیارت کا نام درحقیقت
ایک بزرگ بابا خرواڑی کے مقبرے کی زیارت پر آنے والے زائرین کی وجہ سے
مشہور ہوا جو اس علاقہ کو زیارت کہہ کر بلاتے تھے۔ یہ جنگلات 133 کلومیٹر
شمال میں سطح سمندر سے 2449 میٹر کی بلندی پر واقع ہیں۔ وادی زیارت میں
موجود صنوبر کا قدیم جنگل دنیا میں پائے جانے والے تین قدیم ترین صنوبری
جنگلات میں سے ہے۔
یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بلوچستان میں زیارت ایک ایسا مقام ہے جہاں
پر موجود جونیپر نسل کے طویل القامت درختوں کے جنگلات دنیا میں دوسرے نمبر
پر آتے ہیں۔ بلوچستان کے شہر زیارت میں جونیپر کے جنگلات گویا زمین کی تہوں
سے نکلتا قدیم مگر انمول خزانہ ہے جو کہ تقریباً 51 ہزار 3 سو ہیکٹر پر
پھیلے ہوئے ہیں، جونیپر کا درخت سال میں چند سینٹی میٹر ہی بڑھتا ہے۔
یہاں کے بہت سارے درختوں نے حضرت عیسیٰ، حضرت موسیٰ بلکہ حضرت ابراہیم کا
زمانہ بھی دیکھا ہوگا۔ اس علاقے کا نام سنتے ہی قائداعظم کی آخری رہائش گاہ
کا تصور ذہن میں آ جاتا ہے۔ یہاں بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے
اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے جس کو قائداعظم کی ریذیڈنسی کہا جاتا
ہے۔
مغربی پہاڑیوں میں صنوبری (جونیپر) کی جھاڑیوں، جھاﺅ یعنی تمرس اور پستے کے
درخت زمین کا فطر ی حسن ہیں۔ جونیپر کے جنگلات میں اگنے والی اسٹروبری کو
فلیور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان جنگلات کے درختوں سے اچھا خاصا
تیل حاصل ہوتا ہے جو کہ متعدد اشیاءکی تیاری مثلاً ہربل ادویات میں استعمال
کیا جاتا ہے۔ یہاں کے جنگلات سے ایک خاص قسم کا خاص ہربل ایپھیڈرا سنیکا
حاصل ہوتا ہے جس سے ایپھڈرین کیمیکل بنایا جاتا ہے اور اس کیمیکل کا
استعمال زیادہ تر کھانسی کی دوا بنانے میں ہوتا ہے۔ جونیپر کے پھل دار
درختوں میں سردیوں میں سیب اور گرمیوں میں اسٹروبری لگا کرتی ہے، اس کے
علاوہ یہاں کا شہد دنیا بھر میں مشہور ہے۔
درخت انسان کا سب سے بڑا دوست اور مددگار ہے مگر یہ شعور ابھی ہمارے خطے
ایشیا اور خاص طور پر پاکستان میں نہیں پہنچا جہاں درخت اور جنگل صرف
اڑھائی فیصد علاقے میں پائے جاتے ہیں اور انسان درختوں کا سب سے بڑا دشمن
بنا ہوا ہے اور پورے ایشیا کے ملکوں کے مقابلے میں یہاں سب سے زیادہ درخت
کاٹے، جلائے اور برباد کئے جاتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے سر کے بالوں کے گرنے کی
فکر تو ہو گی مگر اپنے ملک کے درختوں کے اجڑنے کی پرواہ نہیں ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں اور جنگلات کی کٹائی کے باعث جنگلی حیات کو بے حد نقصان
پہنچ رہا ہے اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی اس کے بھیانک
نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ ایک درخت سالانہ 6 ٹن کا ربن
ڈائی آکسائیڈ جذب جبکہ ۷ ٹن آکسیجن چھو ڑتا ہے۔
جنگلی حیات پر خصوصی توجہ دینے والے ورلڈ وائلڈ فیڈریشن ( ڈبلیو ڈبلیو ایف)
کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے یہ عہد کیا تھا کہ اس کی سرزمین
پر جنگلوں کا علاقہ اڑھائی فیصد سے بڑھ کر 2015ء تک چھ فیصد ہو جائے گا مگر
ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ ناممکنات کا حصہ لگتا ہے کیونکہ اس عہد کو
پورا کرنے کا کوئی ایک قدم بھی اٹھایا نہیں جا رہا چنانچہ یہ فیصلہ بھی نئے
ہزارویں سال کے بارے میں کئے گئے دیگر فیصلوں کی طرح شرمندہ تکمیل نہیں ہو
سکے گا۔
درختوں کی تباہی اور بربادی کی اس رفتار کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ ماہرین
کی طرف سے تجویز پیش کی گئی ہے کہ درختوں اور جنگلوں کے تحفظات کے سخت
قانون بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عمل کیا جائے۔ نئی نسل اور خاص طور پر
بچوں کا درختوں اور پودوں سے دوستی کا رشتہ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
درختوں کی بے دریغ کٹائی کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کی زراعت کو ہوتا ہے
کہ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ان درختوں کی جڑیں مر جاتی ہیں اور مٹی پر ان
کی گرفت نہیں رہتی جس سے دریاوں اور ندی نالوں کے کناروں پر لینڈ سلائیڈنگ
بڑھ جاتی ہے اور کم از کم پچاس سالوں میں پیداوار کے قابل ہونے والی مٹی
دریاوں اور ندی نالوں کی خوراک بن جاتی ہے۔
سنگا پور اور نیدر لینڈ جیسے ممالک سمندر کو فتح کر کے اپنی اراضی اور رقبے
میں اضافہ کرتے رہتے ہیں مگر ہماری کم از کم دس لاکھ ٹن زرخیز مٹی ہر سال
خشکی سے الگ ہو کر سمندر میں چلی جاتی ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قیام
پاکستان سے اب تک کے تریسٹھ سالوں میں ہم نے پاکستان کی کتنی زرخیز اور
قابل کاشت مٹی سمندر کے حوالے کی ہو گی مگر یہ اندازہ کوئی نہیں لگائے گا
کہ اس سمندر میں جانے والی مٹی کی مالیت کیا ہو گی اور اس اتنے بڑے اور
انتہائی خوفناک نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا۔ ناسا کے مطابق سال میں پوری
دنیا میں 34 ملین ایکڑ جنگلات کاٹے جاتے ہیں۔
پاکستان درختوں کی کٹائی کی شرح سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اگر درختوں
کی کٹائی کا یہ سلسلہ اسطرح جاری رہا تو پاکستان میں سال 2020ء تک عملی طو
ر پر ناپید ہو جائیں گے۔
تحریر: سید محمد عابد
https://smabid.technologytimes.pk/?p=558
|