کراچی کے لیے سیاسی جماعتوں کو سیاست سے بالتر کی سوچ اپنانہ ہوئیگی

حقیقت ہے کہ ہر دور میں ہمیشہ دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک وہ طبقہ جو ذاتی انا اور مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و وطن کی خاطر مشکل حالات کا مقابلہ کرتا ہے اور دوسرا وہ، جو ذاتی اور گروہی مفادات کا حامل ہوتا ہے اور اپنے آپ کو ارزاں قیمت پر بیج ڈالنے میں دیر نہیں کرتا۔ سندھ کی سیاست میں بھی کچھ اس ہی طرح کی شکلیں نمودار ہوتی رہی ہیں اور ہورہی ہیں سندھ کے شہری سیاست میں آجکل ایک خلا موجود ہے 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو کراچی کی شہریوں نے محدود اکثریت کا قومی اور صوبائی مینڈیٹ تو حاصل کیا مگر کراچی کے شہریوں پر پی ٹی آئی دلوں پر راج نہ کرسکی جو اس سے پہلے اس شہر میں ایک پارٹی تین دہائیوں سے کرتی آئی تھی جبکہ پیپلز پارٹی نے صدقے دل سے کبھی بھی کراچی کے لوگوں کو اپنی طرف کرنے پر راغب کرسکی کراچی اور اس کے شہریوں سے پیپلزپارٹی کی دوری اور بد اعتمادی کی پہلی بنیاد غالباً جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے مابین ہونے والے انتخابات بنے، جس میں بھٹو صاحب،جنرل ایوب خان کی انتخابی مہم چلا رہے تھے،جب کہ دوسری جانب شہری سندھ کے عوام انتخابات میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کر رہے تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے اگرچہ جنرل ایوب خان سے اختلاف کرتے ہوئے مارشل لاء کی حکومت کو خیر باد کہہ کر اپنی نئی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کے دلوں سے وہ اب بھی دور تھے اور رہی سہی کثر چند ناقبت اندیش مشیروں کے بچکانہ مشوروں سے غلط مواقع پر سندھ اسمبلی سے لسانی بل منظور کروالیا۔ اس اقدام نے گویا ان دوریوں کو شہری سیاست میں مزید گہرا کردیا۔ اگر دیہی سندھ کے احساس محرومی کو شہری سندھ کے برابر لانے کا کوئی منصوبہ تھا تو یہ کوشش شہری سندھ کے عوام کو اعتماد میں لے کر کی جاتیں تو وہ زیادہ کامیاب ثابت ہوتیں اور شہری سندھ کے رہنے والے اس کو باخوشی قبول کرتے لیکن پیپلزپارٹی کی وہی جاگیردانہ سوچ ادھر منہ چڑھ کر بولی اس کے برعکس انھوں نے دیہی سندھ کی احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے سندھ میں دس برس کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کر دیا۔ سندھ میں کوٹہ سسٹم دراصل نہ صرف میرٹ کا قتل تھا بلکہ یہ سندھ کی شہری آبادی اور بالخصوص کراچی کے مڈل کلاس کے پڑھے لکھے نوجوان کے ساتھ زیادتی تھی۔

اسی کوٹہ سسٹم نے سندھ میں وہ مسائل پیدا کیے جو پاکستان کی وحدت اور یگانگت کے لیے خطرہ بن گئے۔ اسی کوٹہ سسٹم نے سندھ میں لسانی سیاست کی بنیاد رکھی۔ آج بھی یہی کوٹہ سسٹم بہت سے مسائل کی بنیادی وجہ سندھ میں کوٹہ سسٹم دراصل نہ صرف میرٹ کا قتل تھا بلکہ یہ سندھ کی شہری آبادی اور بالخصوص کراچی کے پڑھے لکھے نوجوان کے ساتھ زیادتی تھی۔ اسی کوٹہ سسٹم نے سندھ میں وہ مسائل پیدا کیے جو پاکستان کی وحدت اور یگانگت کے لیے خطرہ بن گئے۔ اسی کوٹہ سسٹم نے سندھ میں لسانی سیاست کی بنیاد رکھی۔ آج بھی یہی کوٹہ سسٹم بہت سے مسائل کی بنیادی وجہ ہے. پھر اہل کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں نے 1985 سے اپنی سیاست کا رخ تبدیل کرلیا اور جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کو خیرآباد کہہ کہ شہری نوجوانوں نے سیاست سے نابالغ قیادت کے پلڑے میں ڈالدیا اور رہی سہی کثر آمریت کے دور میں یہ شہری قیادت سیاست سے نہ بالغ اس طرح سے لسانیت کے چنگل میں پھنسی کے نکلنا بھی چاہا نکل نہ سکی آئے دن کراچی اور شہر سندھ میں ہنگامے جلاؤ گھیراو کی سیاست کا غلبہ ہاوی رہا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی کے شہری سندھ کے لوگوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے تعلیم کا بیڑہ غرق کردیا ، جو ہر دور کی بنیادی ضرورت ہے . غور طلب بات یہ ہے کہ سندھ کی دونوں سیاسی جماعتیں کراچی سے الیکشن جیتتی آئی ہیں لیکن پھر بھی شہر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے لیے مل کر کوئی حل تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں . سندھ کی تمام تر سیاسی جماعتیں ایک جاگیردارانہ سوچ کی پیروی کر رہی ہیں اور بنیادی طور پر بلدیاتی نظام کو نہیں مانتیں۔ وہ تمام اختیارات جو میونسپل کونسل کے پاس ہونے چاہیے جیسے کہ واٹر بورڈ، سیوریج، ٹرانسپورٹ اور ویسٹ مینیجمنٹ وہ سب سندھ حکومت نے اسمبلی میں اپنی اکثریت ہونے کی بنا پر قانون میں ترمیم کر کے اور نوٹیفکیشن کے ذریعے اپنے نام کر لیے ہیں۔ حیریت کی بات ہے کہ سندھ کی دونوں ہی سیاسی جماعتیں کراچی سے الیکشن جیتتی آئی ہیں لیکن پھر بھی شہر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے لیے مل کر کوئی حل تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا مسئلہ صرف ایک دولت مند شہر کا کنٹرول حاصل کرنا ہے۔
کراچی ایک دولت مند شہر ہے اور سندھ کا دارالحکومت ہے یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ یہاں آمدن ہے۔ فارمل سیکٹر میں 75 فیصد ملازمتیں ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے ہر سیاسی جماعت اپنی اجارہ داری چاہتی ہے یہ سب معاملات حل ہو سکتے ہیں لیکن اگر یہ حل ہو گئے تو ان جماعتوں کے ووٹوں کا کیا ہو گا۔ اگر ووٹ ہوں گے تو اختیارات ملیں گے۔ کراچی کے لیے آوازیں ہر ایک نے اٹھائیں۔ سندھ حکومت، وفاقی حکومت، اتحادی، اختلافی، ہر سیاسی جماعت اپنا بیان الاپ دیتی ہے کہ کچھ ہونا چاہیے۔ مگر اس شہر کا جو بنیادی سبب ہے وہ اس شہر کراچی کی آبادی ہے ۔ جب تک کسی شہر کی ایمان دارانہ آبادی کا صحیح تخمینہ نہیں لگایا جاتا، اس وقت تک یہ فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس شہر کو کتنے وسائل کی ضرورت ہے اور آئندہ سالوں میں یہ ضرورت کتنی بڑھے گی۔ ڈھائی سے تین کروڑ کی آبادی والے شہر کو جب مردم شماری میں ڈیڑھ کروڑ مانا جائے گا تو مسائل ہی مسائل بڑھیں گے۔ کراچی کے ہر سٹیک ہولڈر کا یہ مطالبہ ہے کہ کراچی میں دوبارہ مردم شماری درست طریقے سے ہونی چاہیے مگر نیتوں کا حال تو خدا ہی جانتا ہے . اس وقت کراچی میں کئی اہم ادارے اپنے اپنے الگ قوانین کے تحت کام کر رہے ہیں۔ پانی کی تقسیم ہو یا صفائی کا نظام اور یا نئی تعمیرات اور اس طرح کے کئی اہم امور کے لیے الگ الگ ادارے کراچی میں کام کررہے ہیں۔ ان تمام اداروں کو جب تک ایک چھتری کے اندر نہیں لیا جاتا اور ان کا اختیار، دنیا کے باقی ممالک کی طرح، میٹروپولیٹن شہر کو نہیں دیا جاتا، اس وقت تک ان معاملات سے تعلق رکھنے والے مسائل کبھی حل نہیں ہو سکتے۔

کراچی میں 2016 کے بعد سے شہری نمائندگی کا جو کردار کراچی میں انکا رہا عوام میں اور شہر کراچی میں ان کو وہ پزیرائی نہیں ملی جو کراچی کے باسیوں کا پیچھلے دوروں میں وطیرہ رہا ہے اور 2018 کے الیکشن میں یہ سامنے آگیا کراچی شہر میں اس سیاسی خلا کو لگتا تھا شائید پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی و مسلم لیگ اس کو پر کرنے کی کوشیش کرینگی اور کراچی اب یک پارٹی والے شہر کی سیاست سے دور کردینگی مگر ان تینوں سیاسی پارٹیوں نے کراچی کی عوام کو مایوس کیا اور خاص کر پی ٹی آئی نے 14 قومی اسمبلی کی سیٹیں حاصل کیں جس میں ان کے لیڈر عمران خان کی بی تھیں اور اس ہی طرح صوبائی اسمبلی میں بھی 25 سے ذیادہ سیٹیں حاصل کیں اور سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی حزب اختلاف کی قیادت بھی ملی اس کے باوجود یہ پارٹی کراچی کے باسیوں میں اپنا اثر قائم نہ کرسکی ہر ادوار میں سندھ کے شہریوں کا استحصال کیا جاتا رہا مگر نہ ہی کوئی سیاسی جماعتوں نے ایسے حل کرنے کی کوشیش کی ماننا پڑئیگا کہ سندھ کی شہری سیاست میں ایک سیاسی خلا موجود ہے اس کو پُر کرنے کی کئی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو موقعہ ملا مگر وہ اقتدار میں آکر صرف شہری سندھ کے لوگوں کو لولی پوپ ہی دیتے رہے اب لگتا ہے شائید پی ٹی آئی بھی اس ہی پالیسی کار فرما ہے . کراچی اور اس کے مستقل رہائشی باسیوں کے رہنے والوں کا کوئی مسقل حل نکالنا ہوگا یہ سڑکیں گٹر لائین بنانے سے کراچی کے مسئلے حل نہیں ہونگے اس کے لیے انہیں ایک ساتھ مل بیٹھ کر ایک پالیسی بنانا اور اس پر ہنگامی بنیاد پر عمل کرنا ہوگا لسانیت اور فرسودہ سوچیں دماغوں سے نکالنا ہوئینگی جب ہی یہ ملک و صوبہ اور اس کے باسیوں کے چہروں پر اُمید جاگیگی اب سیاست سے بالتر کی سوچ اپنانہ پڑئیگی.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 191420 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.