ڈپلوما کا آخری چانس تھا اور رزلٹ کا دن بھی آگیا میں اور امی جان اسلام آباد تھے جس دن رزلٹ آنا تھا میرا جب بھی کوئی رزلٹ آتا تھا تو میں خود کبھی نہیں چیک کرتا تھا ابو جان سے کہتا تھا کہ آپ خود چیک کریں برکت کے طور پر ابو جان تو تب دنیا میں نہیں تھے اسی لیے میں نے ابو کی جگہ بڑے بھائی کو کہا کہ آپ میرا رزلٹ چیک کریں بھائی نے بولا میں چیک کرتا ہوں مجھے اپنا رول نمبر سینڈ کرو میں نے رول نمبر سینڈ کر دیا اور انتظار کرنے لگا کافی ٹائم گزر گیا تھا لیکن بھائی کی کال نہیں آرہی تھی میں نے ہمت کر کے پریشانی سے ان کو کال کی اور پوچھا کہ کیا بنا انہوں نے بولا کہ چانس آخری تھا میں نے بولا جی اور ساتھ ہی میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی کیونکہ میرے تین سال کی محنت تھی اور ابو کا خواب تھا میں نے پوچھا بھائی کیا میں فیل ہو گیا ہوں بھائی نے بولا تمہارا رزلٹ شو نہیں ہو رہا میں نے بعد میں خود چیک کیا میرا رزلٹ واقع ہی شو نہیں ہو رہا تھا میں نے اپنے اساتذہ سے بھی رابطہ کیا انہوں نے بھی بولا کہ تمہارا رزلٹ شو نہیں ہو رہا اور وجہ کیا ہے پتا نہیں میں بہت پریشان ہوا اور نفل ادا کرنے لگ گیا ساتھ ہی نفل ادا کرنے کے بعد میں امی کے پاس چلا گیا اور ان کے قدموں میں بیٹھ گیا قدموں میں بیٹھ کے میں رونے لگا امی نے پوچھا ایسا کیا ہوا ہے ایسے کیوں رو رہے ہو میں نے امی کو کھل کر وجہ بھی نہیں بتائی کہ امی پریشان ہوں گی بس میں نے بولا میں میرے لیے دعا کیجئے اللہ میری مشکلات کو حل کردیں امی نے میرے سامنے گڑگڑاتے ہوئے ہاتھ اٹھائے اور میرے لیے دعا مانگی اور میرے سر پر ہاتھ پھیر کے کہنے لگی پریشان نہ ہو تم اللہ خیر کرے گا تھوڑے دن بعد امی اسلام آباد رک گئیں اور میں واپس چلا گیا اور گھر جا کر بھی 1 ہفتہ پریشانی میں گزرا 1 ہفتے کے بعد میں کالج گیا کالج والوں سے پوچھا کہ سر میرا رزلٹ شو کیوں نہیں ہو رہا مجھے کالج والوں نے بولا کہ تمہارا رزلٹ ہمارے پاس پہنچ چکا ہے اور انہوں نے مجھے میرا رزلٹ بتایا کہ تم ایک کتاب میں پاس ہوگئے ہو ایک میں فیل ہو گئے ہو تمہارا آخری چانس تھا اس لئے رزلٹ شو نہیں ہو رہا تھا اور میں بالکل ہی پریشان ہو کے سر پکڑ کے بیٹھ گیا میں نے کالج والوں سے بولا سر پلیز کوئی حل نکال دیں انہوں نے مجھے بولا کہ آپ لاہور بورڈ سے رابطہ کریں اگر وہ آپ کے لیے کوئی گنجائش نکال دیں میں نے لاہور بورڈ بات کی کبھی ایک نمبر بات کی پھر دوسرے پر کی پھر تیسرے پر چوتھے پر پھر ایک صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے مجھے بولا کہ ہم نے پہلی دفعہ 2005 یا 2008 کے بعد تین گولڈن چانس آپ کے لئے نکالے ہیں سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور میں نے دل میں سوچا کہ ماں کی دعا اللہ تعالی نے قبول کرلی اور اس دن پتہ چلا ماں کی دعا سے معجزہ بھی ہو سکتا ہے پھر خوب محنت کی اور ساتھ ساتھ ماں سے دعائیں کرواتا رہا ابھی میں تیاری کر رہا تھا میرے پیپر سے کچھ دن پہلے ایک افسوسناک خبر ملی کے امی کو ہیپاٹائٹس سی کا مسئلہ ہے لیکن گھر والوں کو پتا تھا میں امی ابو کا بہت لاڈلا تھا اس لئے مجھے انہوں نے یہ تسلی دے کر بولا کہ زیادہ مسئلہ نہیں ہے اللہ کی رحمت سے اور ماں کی دعا سے میرا ڈپلومہ پاس ہوگیا امی مجھے اکثر کہتی تھیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے پریشان نہ ہوا کرو اللہ نے تمہاری قسمت میں بہت کچھ لکھا ہے اور تمہاری قسمت بہت تیز ہے آہستہ آہستہ امی کی طبیعت زیادہ خراب ہونے لگے اور ایک ہی مہینے میں امی جان بالکل چارپائی کے ساتھ لگ گئی تب مجھے آہستہ آہستہ گھر والوں نے بتانا شروع کیا کہ امی کی طبیعت زیادہ سیریس ہے اور امی کے پاس ٹائم بھی کم ہے جب میں امی کو دیکھتا تھا تو مجھ سے دیکھا نہ جاتا تھا میں نے بہت سے علما سے رابطہ کرکے امی کے لیے مختلف وظائف پڑے لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا 19 ستمبر کی رات تقریبا 9 بجے کے بعد امی کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوئی تو میں مصلحے پر نوافل ادا کرنے لگ گیا ابھی نوافل پڑھ رہا تھا دعا رب جعلنی تک پہنچا ہی تھا بہن نے رونا شروع کر دیا کی امی کو کیا ہو رہا ہے میں بھاگتا ہوا دروازے میں لگا اور امی کے پاس پہنچا تو امی اپنی آخری سانس لے رہی تھی میں جب امی کے پاس پہنچا تو آخری ہچکی امی نے لی اور امی کی جان نکل گئی میں امی کے سینے پر کان رکھ کر آواز دے رہا تھا ہمیں اٹھ جائے میری بات کا جواب دیں لیکن وہ صدمے کا ٹائم تھا بہت دیر میں سکتے میں رہا جب سکتے سے باہر آیا تو میں دھاڑے مار کر رونے لگا ابو کی وفات کے بعد 2 سال 7 ماہ 13 دن بعد امی کا انتقال ہوگیا ماں کے چلے جانے کے بعد روز پریشان ہوتا تھا روز روتا تھا پھر کسی نیک انسان نے بولا کہ جتنا ہو سکے دعا کیا کرو ان کے لیے نوافل ادا کیا کرو اس کے بعد میں مغرب کی نماز کے بعد باقاعدگی سے امی ابو کے لیے خصوصی دو نفل ادا کرنے لگا ایک دن امی خواب میں آئی اور بولی میں کامیاب ہوگئی کامیابی سے مراد مفہوم یہ تھا کے اللہ نے جنت کا پروانہ امی کو دے دیا ہو انشاءاللہ میں نے بولا امی کیسے کامیاب ہو گئی امی نے مجھے ایک سفید کاغذ دکھایا جس کے اوپر درود ابراہیم لکھا ہوا تھا اور بولی یہ میری کامیابی کا ثبوت ہے اللہ تعالی سے دعا ہے جو میں نے خواب دیکھا انشاءاللہ وہ سچ ہوگا آج ماں کو بچھڑے ایک سال ہوگیا اللہ نے بہت کچھ دیا ہوا ہے لیکن بہت کچھ ہونے کے باوجود میں اکیلا ہوں
اللہ کی قسم دنیا کی ہر چیز مل سکتی ہے سوا ماں باپ کے ایک ٹائم تھا ہمارے
گھر میں رات 12 بجے تک بھی ایسے رونق ہوتی تھی جیسے دن کے سماں میں میلہ
لگا ہو لیکن ماں باپ کے چلے جانے کے بعد گھر میں کیا ایسا سناٹا ہے کہ وہ
بیان کرنا میرے بس میں نہیں اللہ پاک میرے والدین کو جنت الفردوس میں اعلٰی
سے اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین
|