برکس رہنماؤں نے چھ ممالک ارجنٹائن، مصر، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دینے پر اتفاق کیا ہے۔یہ اعلان 15 ویں برکس سربراہ اجلاس کے دوران ایک پریس کانفرنس میں کیا گیا ، جس میں چینی صدر شی جن پھنگ اور جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامفوسا سمیت دیگر برکس رہنماؤں نے شرکت کی۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ورچوئل طور پر شرکت کی۔ ان چھ ممالک کی رکنیت کا اطلاق یکم جنوری 2024 سے ہوگا۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر نے برکس ممالک پر زور دیا کہ وہ ترقی کے لئے ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان یکجہتی اور تعاون کا ایک نیا باب رقم کرنے کے لئے مل کر کام کریں۔ پریس کانفرنس میں پانچ برکس رہنماؤں نے مذکورہ چھ ممالک کو مبارکباد پیش کی اور بلاک کی مستقبل کی ترقی پر اعتماد کا اظہار کیا۔صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ برکس کی توسیع تاریخی ہے اور برکس تعاون کے لئے ایک نیا نقطہ آغاز ہے۔انہوں نے اس توسیع کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے برکس تعاون کے طریقہ کار میں نئی روح پھونکی جائے گی اور عالمی امن اور ترقی کے لئے قوتوں کو مزید تقویت ملے گی۔شی جن پھنگ نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ جب تک برکس ممالک ایک ساتھ رہتے ہیں، برکس تعاون کے ذریعے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے اور ایک امید افزا مستقبل رکن ممالک کا منتظر ہے۔ پریس کانفرنس میں چینی صدر کے ریمارکس اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ برکس گروپ میں شمولیت ترقی پذیر دنیا کے ممالک کے لئے ایک پرکشش ہدف بن چکا ہے۔شی جن پھنگ نے کہا کہ یہ توسیع برکس ممالک کے دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اتحاد اور تعاون کرنے کے عزم کی عکاسی کرتی ہے، بین الاقوامی برادری کی توقعات پر پورا اترتی ہے اور ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کے مشترکہ مفادات کی تکمیل کرتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ برکس ممالک، برکس توسیعی عمل کے رہنما اصولوں پر متفق ہو چکے ہیں جس میں برکس شراکت داری کی تعمیر میں دوسرے ممالک کے مفادات کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ سمٹ کے ذریعے برکس نے ایک ایسی دنیا قائم کرنے کی کوششوں میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے جو منصفانہ، جامع اور خوشحال ہو۔ساتھ ساتھ برکس میں شامل ہونے کے لئے دوسرے ممالک کی دلچسپی ظاہر کرتی ہے کہ ایک نئے عالمی اقتصادی نظام کی جستجو کس قدر اہم ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بین الاقوامی منظر نامے میں ہلچل کے باوجود ، برکس ، جس کا عالمی آبادی میں شیئر 40 فیصد سے زائد اور عالمی معیشت میں ایک چوتھائی حصہ ہے ، نے تعاون میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں ، مشترکہ ترقی کو فروغ دینے اور عالمی چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کی ہے ، جس میں شمال اور جنوب کے مابین بڑھتے ہوئے معاشی فرق ، موسمیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل گورننس شامل ہیں۔برکس کے قائم کردہ نیو ڈیولپمنٹ بینک (این ڈی بی)، جس کا صدر دفتر شنگھائی میں ہے، اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے 2030 کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے ابھرتی ہوئی معیشتوں کو درپیش بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے گروپ کی کوششوں کی ایک عمدہ جھلک پیش کرتا ہے۔ترقی پذیر ممالک کی جانب سے شروع کیے گئے پہلے عالمی کثیر الجہتی مالیاتی ادارے کی حیثیت سے این ڈی بی نے 33.2 ارب ڈالر کی مجموعی مالیت کے 98 منصوبوں کی منظوری دی ہے جو ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر معیشتوں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور پائیدار ترقی کے لیے مضبوط ضمانت فراہم کرتے ہیں اور عالمی ترقی میں حصہ ڈالتے ہیں۔این ڈی بی نے اپنی سبز اور پائیدار ساکھ کو بھی گہرا کیا ہے ، کیونکہ بینک کے تقریباً 40 فیصد منصوبے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور موافقت پر مرکوز ہیں۔ڈیجیٹل شعبے میں گروپ نے برکس ڈیجیٹل اکانومی پارٹنرشپ فریم ورک تیار کیا ہے جس میں ڈیجیٹل معیشت میں برکس ممبران کی مشترکات اور تکمیل پر زور دیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین برکس گروپ میں ایک اہم سرمایہ کار اور تجارتی شراکت دار ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جنوری سے جولائی کی مدت کے دوران برکس کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ چین کی درآمدات اور برآمدات سال بہ سال 19.1 فیصد بڑھ کر 2.38 ٹریلین یوآن (تقریباً 330.62 ارب ڈالر) تک پہنچ چکی ہیں۔ صدر شی جن پھنگ نے جوہانسبرگ میں برکس افریقہ آؤٹ ریچ اور برکس پلس ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ چین جلد ہی گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو (جی ڈی آئی) پر عمل درآمد کے لیے 10 ارب ڈالر کا خصوصی فنڈ شروع کرے گا۔چین نے جی ڈی آئی کی تجویز اس مقصد کے لئے پیش کی ہے کہ دنیا کی توجہ ترقی پر مرکوز کرنے اور 2030 کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئے حوصلہ افزائی کی جائے۔شی جن پھنگ نے زور دے کر کہا کہ ترقی کو اولیت دینے کے لئے چین نے 4 ارب ڈالر کی مجموعی فنڈنگ کے ساتھ گلوبل ڈیولپمنٹ اینڈ ساؤتھ ساؤتھ کوآپریشن فنڈ قائم کیا ہے اور جلد ہی جی ڈی آئی پر عمل درآمد کے لئے وقف 10 بلین ڈالر کا ایک خصوصی فنڈ قائم کرے گا۔ حقائق کے تناظر میں جی ڈی آئی کے تحت چین نے سبز ترقی، نئی قسم کی صنعت کاری اور ڈیجیٹل معیشت کو ترجیح دے کر جدت طرازی کی طاقت کو بھی فروغ دیا ہے اور ساتھ ہی اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے نئے صنعتی انقلاب پر شراکت داری کو آگے بڑھایا ہے۔جہاں تک خوراک اور توانائی کے تحفظ کا تعلق ہے تو چین نے متعدد ممالک کو غذائی معاونت فراہم کی ہے اور بہت سے ممالک کے ساتھ زرعی ٹیک کا اشتراک کیا ہے اور توانائی کے تحفظ کے لیے گلوبل کلین انرجی کوآپریشن پارٹنرشپ کا آغاز کیا ہے ، یہ تمام اقدامات ترقی پزیر ممالک کے بہتر مستقبل لیے چین کے خلوص اور عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔
|