خالق ارض و سما نے اپنی قدرت کاملہ سے اس عالم رنگ و بو میں ان گنت تخلیقات فرمائیں۔ مگر ایک تخلیق ایسی تھی کہ جو ہر لحاظ سے دوسری تمام مخلوقات سے معتبر ٹھہری اور وہ تھی۔۔حضرت انسان کی تخلیق۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز تھی جس کی بنا پر آدمیت کو شرف امتیاز حاصل ہوا اور وہ مسند اشرف المخلوقات پر پہنچا؟ وہ کیا خوبی تھی جس پر فرشتوں کو سجدہء آدم پر مامور ہونا پڑا؟ بلاشبہ وہ خوبی، وہ نعمت "عقل سلیم" تھی۔ اللہ رب العزت نے حضرت آدم کو سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت عطا کی۔ اور غلط اور درست کا شعور عطا فرمایا۔ انسان نے عقل کے دریچے کھولے اور آن کی آن میں زمین و آسمان کو مسخر کرنے لگا۔ پہاڑوں اور غاروں سے نکل کر بیاباں آباد کئے۔ جنگل میں منگل بنا ڈالے۔ بستیاں قائم کیں اور شہر کے شہر آباد ہو گئے۔ انسانی ترقی نے زمین تو کیا آسمان کی بلندیوں کو بھی چھوا اور دوسرے سیاروں کی تانک جھانک شروع کردی۔ اور اس عالم آب و گل کو نئے رنگوں اور زاویوں میں بدل کر رکھ دیا۔ یوں حضرت انسان عقل سلیم کے بل بوتے پر انسانی ترقی کے مدارج طے کرتا ہوا دوسری مخلوقات سے ممتاز ہوگیا۔ مگر محض عقل کی بنا پر دنیا کی تمام مخلوقات سے ممتاز ہونا انسان کے لئے اتنا مشکل نہ تھا، جتنا خود انسان کا انسانوں میں سے ممتاز ہونا تھا۔ یعنی اشرف المخلوقات کا اشرف المخلوقات سے اشرف ہو جانا۔ کیونکہ "عقل" انسان کو آسمانوں کی بلندیوں پر تو لے جا سکتی ہے مگر روح کی گہرائیوں میں نہیں اتار سکتی۔ روح کی گہرائیوں میں اترنے کے لئے "دل" چاھئیے۔ اور دل بھی وہ جو کسی کے درد میں تڑپتا ہوا ہمدرد بن جائے۔ صاحب عقل ہونا اور بات ہے، صاحب عرفان ہونا اور بات ہے۔ صاحب عقل آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرتا ہے اور صاحب عرفان دل کی سیڑھیاں اترتا چلا جاتا ہے۔ تو انسانوں میں سے ایسے انسان جو دوسرے کے کرب کو اپنے دل میں محسوس کریں وہ انسانوں میں سے ممتاز ہو جاتے ہیں۔ اور پھر دل کی زمین پر راج کرتے ہیں۔
سر زمین پاکستان میں ایک ایسی ہی شخصیت جنہوں نے شبانہ روز ان تھک محنت کے ذریعے اپنا نام، مقام، مرتبہ، شہرت تو سب بنا لیا، مگر روح اس لئے بے چین رہی کہ مجھ سے انسانیت کو فائدہ پہنچے۔ اور تاحال ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ نوجوانوں کی زندگیوں کو ٹیکنالوجی کے میدان میں عصر حاضر کے جدید ترین تقاضوں سے روشناس کرانے میں گزر رہا ہے۔ بلاشبہ میری مراد (AI)آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ماہر، ڈیٹا سائنٹسٹ، اور بانی و چیف ایگزیکٹو آفیسر Xeven Solution محترم عرفان ملک صاحب ہیں۔ آج کی نوجوان نسل جو محض ڈگری کی دوڑ میں لکیر کی فقیر بن کر لاکھوں کے حساب سے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل تو ہو رہے ہیں مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس جیسی ترقی پرور راہوں سے نا آشنا ہیں۔ عرفان ملک صاحب وہ واحد شخصییت ہیں جن کے دل میں آج کے نوجوان کا درد موجود ہے۔ اور جو حقیقی معنوں میں پاکستانی قوم کو دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لاکر کھڑا کرنا چاھتے ہیں۔ اپنی ذاتی زندگی میں ڈھیروں مشکلات کا مقابلہ بڑے حوصلے اور قوی امید کے ساتھ کرتے ہوئے، آج قومی و بین الاقوامی سطح پر عزت و شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ بلاشبہ ان سب بلندیوں کے پیچھے آپ کا اخلاص ہے جس نے آپ کی شخصیت کو پروقار بنا دیا ہے۔ آپ اپنی حقیقی زندگی کی مثال دے کر نوجوان نسل میں خود اعتمادی، خود شناسی، قوت عملی اور بلند حوصلگی جیسی صفات پیدا کر رہے ہیں۔ • یہی ہے عبادت، یہی دین و ایماں کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
آپ کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو خاص ہو کر عام ہو جانا ہے۔ اور یہ خاصیت آپ پر رب کریم کے خاص فضل کی نشانی ہے۔ آپ اپنی گراں قدر مصروفیات کے باوجود ہر ایک کو اس کا مکمل وقت اور توجہ دینے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ یہ آپ کا حسن اخلاق ہے کہ آپ نے ہر ایک کے لئے اپنی توجہ اور دل کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی شخصیت میں مطلق تصنع اور بناوٹ نظر نہیں آتی۔ آپ ایک مکمل اور باوقار شخصیت کے حامل ہیں۔
آج کے دور میں نام، مقام اور شہرت کے بل بوتے پر لوگ انا پرستی اور تکبر میں مبتلا ہونا ضروری سمجھتے ہیں مگر آپ کی ہمہ گیر مصروفیات چاھے وہ سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا کی ہوں یا اہم اداروں اور یونیورسٹیوں کے سیمینارز ہوں۔ مقتدر شخصیات سے ملاقاتیں ہوں یا انٹرویوز۔ آپ کی آنکھ سے عام اور معمولی شخص کبھی اوجھل نہیں ہوتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ لوگوں کے دلوں میں جیتے ہیں۔ پروفیسر کرار حسین لکھتے ہیں کہ "موت وہ ہے کہ جب آئے، تو آدمی زندہ ہو" کہاں زندہ ہو؟ مخلوق کے دھڑکتے ہوئے دلوں میں زندہ ہو۔ آپ کی شخصیت پر ناچیز کا یہ شعر صادق آتا ہے: جیو تو ایسے کہ ہر شخص احترام کرے مرو تو ایسے کہ موت بھی تمہیں سلام کرے
عزیزم ملک شاہ زیب عالم اعوان جو آپ سے اپنے شعبے میں روحانی وابستگی رکھتے ہیں اور انہیں اپنا مرشد مانتے ہیں،۔ حال ہی میں ادنی سی درخواست پر عرفان ملک صاحب کا ان کی سالگرہ پر اپنی مصروفیات ترک کر کے خصوصی فون کال کے ذریعے مبارکباد دینا، اور نہایت منکسر المزاجی سے ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہمیشہ کے لئے ان کا احسان مند بنا گیا۔ ان کا انداز تکلم، رقیق القلبی اور نہایت احسن انداز میں عزیزم شاہ زیب کی راہ نمائی کرنا قابل تحسین ہے۔ بلاشبہ آپ ایک ایسے معلم ہیں کہ جن کی آج کی نوجوان نسل کو اشد ضرورت ہے۔ آپ آج کی نوجوان نسل کو اس پر آشوب دور میں آرٹی فیشل انٹیلی جینس جیسی جدید ترین اصلاحات کی طرف راغب کر کے ان کا معیار زندگی بلند کرنے کا خواب رکھتے ہیں۔ اور انہیں ایک کامیاب اور ہنر مند قوم بنانا چاھتے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ان کی اس کاوش کو نوجوان نسل کے لئے ترقی و کامرانی کا ضامن بنائے۔ اور آپ جیسے پر خلوص اور پر اثر عملی اساتذہ کا سایہ پاکستان کے ہر نوجوان کے سر پر ہمیشہ قائم رکھے۔ آمین۔ • خود بخود ٹوٹ کے گرتی نہیں زنجیر کبھی بدلی جاتی ہے بدلتی نہیں تقدیر کبھی
|