گزشتہ ہفتہ 20-G اجلاس ختم بھی ہونے نہ پایا تھا کہ مودی کے خلاف بھارتی حزب اختلاف نے مودی سرکار کے خلاف محاذ کھول دیا . 20-G ممالک کے اجلاس کے کچھ ہی دیر بعد کانگریس رہنما مسٹر رامیش کا کہنا تھا مودی سرکار نفرت انگیز تقاریر، شارٹ کلنگ، اور مقدس مقامات پر حملوں پر خاموش رہی وزیراعظم نریندر مودی کی سمٹ میں ماحولیاتی تحفظ پر گفتگو ان کے اقدامات کے برعکس اور متصادم تھی، مودی حکومت نے ہندوستان کے ماحولیاتی تحفظات کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے. ماحولیاتی تحفظ کی بات کرنے والے مودی بذات خود ہندوستان کے جنگلات اور حیاتی تنوع کے تحفظات کی تباہی کا ذمہ دار ہے. کانگریسی عہدیدار تھرور نے اس سمٹ کو مودی کے اگلے چناؤ میں کامیابی کا ایک مہرہ قرار دیا ، جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ مودی حکومت جی 20 اجلاس کو اثاثے کے طور پر استعمال کریگا. اس ہی طرح الجزیرہ کا کہنا کہ جی 20 اجلاس دراصل مودی کے انتیخابات میں کامیابی کے لیے ایک سوچا ساچا منصوبہ سیاسی ہتھکنڈا ہے. اور فرانسیسی صدر میکرون اور دیگر یورپی صدورکا اس پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بھارت جی 20 اجلاس میں رکن ممالک کے بیچ کشیدگی اور تلخی کو ختم کو ختم کرنے میں ناکام رہا، اور بھارت جی 20 اجلاس میں حقیقی عالمی مسائل اُجاگر کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ انڈیا، امریکہ اور جی 20 کے ممالک انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان اور چائنا کے سی پیک پروجیکٹ کو ناکام بنانا ان سب کی شروعات سے یہ ہی کوشش لگی ہوئی ہیں کہ کسی طرح سی پیک پروجیکٹ کی افادیت کو محدود کرنے میں کچھ نہ کچھ کرنے میں ہی لگا رہتا ہے. اس سے پہلے انڈیا ، تہران اور کابل نے چہاہ بہار جے منصوبے جو لاونج کیا تھا. مگر وہ اپنی افادیت لاونج کے بعد ہی اپنی موت آپ مرگیا اس کے بعد دہلی اور کابل نے کئی اور پروجیکٹ پر کابل میں کام کیا سوائے روڈ پروجیکٹ کے کہیں اور دہلی اپنے آپ کو کابل کی عوام میں جگہ نہ بناسکا اب بھی جی 20 کے زریعے کچھ مسلم ممالک کو لیکر مشرق وسطی میں اپنا اثر و رسوخ بنانا یہ بھی دہلی کی خواہش بحر عرب میں شرمندہ تعبیر ہوگا کیونکہ ( اچھی روح جو بھی ہو۔) ہپ براڈ سائیڈ فائر کرنے سے پہلے غور و فکر اور انضمام کی ضرورت ہے . CPEC زمین پر سنہری حقیقت ہے، G20 اقدام ہوا میں قلعہ ہے۔ نئی دہلی میں G-20 کے اجلاس سے قبل میڈیا پروپیگنڈہ کی جھڑپوں نے ایک تصوراتی اقدام کی ایک دلچسپ ہلچل پیدا کر دی ہے جو ڈرائنگ بورڈ تک نہیں پہنچی۔ بالی ووڈ کی مہارت کی بدولت، مودی نے بے لگام شان و شوکت کی اپنی خیالی دنیا میں شامل ہونے کے لیے بے لگام دولت مند عربوں اور ولی مغرب کو مسحور کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، تجارت اور سنہری تجارت کے دودھیا راستے پر شاندار دن کے خواب جو دنیا کو گھیرے گا، تمام ریت کا رخ موڑ دے گا۔
ٹیلے سونے کی مٹی میں، پہاڑی پتھر سونے کی ڈلیوں میں اور تمام جنگل جنت کی وادیوں میں۔ یہ بالی ووڈ کا طرز زندگی ہے لیکن صرف اسٹیج اور اسکرین تک۔ اگر مندوبین کجریوال کے علاقے کی حدود سے باہر نکلتے تو وہ ہندوستان کے 250 ملین مسلمانوں کے سامنے آتے جو پورے ملک میں خوفزدہ خرگوشوں کی طرح رہنے کے لیے ایک محفوظ جگہ کی تلاش میں بھاگ رہے ہوتے جہاں وہ آزادانہ طور پر اپنے مذہب پر عمل کر سکیں اور نسلی ذریعہ معاش کما سکیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 400 ملین سے زیادہ لوگوں کے خوفناک مناظر بھی دیکھے ہوں گے جو لیٹرین کی مناسب سہولیات کی کمی کی وجہ سے کھلے میدانوں، سمندری ساحلوں اور ہر ممکن دستیاب جگہ پر رفع حاجت پر مجبور ہیں۔ بالی ووڈ ڈرامہ جلد ہی ایک ڈراؤنے خواب میں بدل جائے گا۔ ہمارے اپنے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو شہد اور دودھ کی ممکنہ بہتی ندیوں پر ایڑیوں پر چڑھتے دیکھ کر دماغ جھنجھوڑ جاتا ہے۔ یا تو وہ سادہ لوح ہیں، یا میڈیا کے اداروں کو 10 اربوں کے بٹورے ہوئے کچھ اور نتائج دکھا رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا اور یقین کرنا چاہیے کہ جی 20 اجلاس میں سامنے آنے والا یہ غیر معمولی اقدام BRI اور CPEC کے ردعمل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چینیوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا جب انہوں نے BRI اور CPEC تجارتی اور توانائی کی راہداریوں کا اعلان کیا تھا جو تقریباً پوری دنیا کو جوڑتے ہیں۔ انہوں نے اپنے الفاظ کی حمایت عمل سے کی اور جس رفتار سے انہوں نے وعدے کے مطابق ترقی کا کام مختصر عرصے میں کیا اس نے ان کے بدترین ناقدین کو بھی بے آواز کر دیا۔ سب سے بڑھ کر، امن ان کے ترقیاتی کاموں سے پہلے ہے، اور یہاں تک کہ بدترین دشمن بھی پائیدار ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنا متوقع مثبت کردار ادا کرنے کے لیے ہاتھ جوڑتے نظر آتے ہیں۔ ورلڈ آرڈر کے سابق غنڈوں کے لیے یہ نیا ورلڈ آرڈر قابل قبول نہیں ہے۔ وہ سر جوڑ گئے اور اب ایک متبادل منصوبہ لے کر آئے ہیں، جو ان کے مطابق، BRI اور CPEC اقدام کو مکمل طور پر مغلوب کر دے گا، اور اسے بے معنی کر دے گا۔ بہر حال، یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ تصوراتی خوابوں کی دنیا کے لیے کیے جانے والے وعدوں کے مقابلے میں زمینی حقیقت کیا ہے۔ تو یقین ہے کہ مودی نے بظاہر اپنے مرضی کے لیڈروں کو ایک سواری پر لے لیا ہے۔ کیونکہ اس کے خوابوں کے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی میں بھی، ایک غالب پاکستان کا جنون اس کی پوری شخصیت پر سایہ فگن ہے۔ وہ اس تاریخی ڈراؤنے خواب کے ساتھ ہر منٹ جیتا اور مرتا ہے، جو کسی نہ کسی طرح اس کی نسل پرست شخصیت کا دائمی حصہ لگتا ہے۔ اس کے ہر عمل سے اس خوف کی بو آتی ہے، اور اس کا ہر ردعمل اس کے احاطے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ اپنی چھپی ہوئی چانکیا بریگیڈ کے ساتھ مل کر اس عظیم الشان منصوبے کے ساتھ سامنے آئے ہیں جس کے تحت وہ بہت سے غیر یقینی، غیر محفوظ اور پریشان دنیا کے لیڈروں کو ایک اقتصادی اور اسٹریٹجک بینڈ ویگن کے اگلے حصے پر کودنے کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو ڈرائنگ بورڈ تک نہیں پہنچا ہے۔ پرجوش مسافر اس بات پر خوش ہیں کہ کم از کم اگلی دہائی یا اس سے زیادہ کے لیے کچھ کھونے کو نہیں ہے۔ اس آوارہ گردی کی خاص نظر ان چند طاقتور ترین عرب حکمرانوں پر ہے جنہیں وہ مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لیے بطور چارہ استعمال کر رہا ہے۔ ہمارے یہ نام نہاد بھائی اس کا چارہ نگل جائیں گے یا نہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔ CPEC کو سبوتاژ کرنے اور اس عمل میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے مودی بریگیڈ جو کچھ کر رہی ہے کہ وہ بالی ووڈ کی یہ پہل نان اسٹارٹر ہے۔ یہ بینڈ ویگن شروع کرنے کے لیے ایندھن بھی نہیں ملے گا۔ مگر مودی سرکار تو پاکستان کو چاروں طرف سے کیا کچھ نہیں کر پارہی ہے. مگر ایسے ہر طرف سے مات ملی ، اور ایک ہم ہیں اس کے لیے میدان بنائے جارہے ہیں نہ ہم اپنے سیاسی مسائل جو آئے دن مشکل سے مشکل تر ہوتے جارہے ہیں. اس کا کوئی حل مستقل نکال پارہے ہیں. نہ ہی معاشی مسائل جو اس وقت پاکستان اور اس کی عوام کے لیے ایک ہیبت ناک دیو کی طرح چھنگاڑ مارے کھڑا ہے. اس کا کوئی پائیدار حل نکالنے میں سنجیدہ دیکھائی دے پارہے ہیں. آئی ایم ایف و عرب ممالک کے آگے سجدہ ریز ہیں. جس کی وجہ سے وہ ہماری کمزوری سے انڈیا سے دیرپا قربتیں بڑھارہے ہیں اور کشمیر کا مسئلہ پر اب تو مسلم ممالک اور خاص کر خلیج ممالک سرد مہری کا مظاہرہ اُن کی روش سے پاکستان کی عوام میں اب سمجھ آرہا ہے. جب تک پاکستان اپنے داخلی مسائل سے باہر نہیں نکل پائیگا. پاکستان کسی بھی ملکی و غیر مُلکی پلیٹ فارم پر اپنا وہ کردار ادا نہیں کرپائیگا جو ایک ایٹمی ملک کو کرنا چاہیے. ابھی جس طرح خلیج مُلکوں نے اپنا معیار اور رُتبہ سارک ملکوں و ایشیاء و مغرب میں بنایا ہے، وہ ہم تو نیپال، بھوٹان و یوگنڈا جیسے ملکوں سے بھی نہ بناسکے. آج کل تہران اور ریاض کے دوستانہ مراسم بھائی چارگی میں بدل رہے ہیں. اور ہم اپنے لیڈران کو سیاست سے ہی اُدھیڑ رہے ہیں. ایشیاء ہو یا مشرق بعید ان ملکوں میں جس نے بھی ترقی کی اور آج وہ ترقی پزیر یا ترقی یافتہ ہوئے وہ اُن ملکوں کے لیڈران کی بدولت ہوئے اور ان لیڈرانوں نے اپنے ملک اور عوام کی ترقی کے لیے اقدامات بھی کیے جس کی نظیر نہیں ملتی ہم کب تک دو دو تین ارب ڈالر کے لیے آج کل کے ان داتا کی دہلیز پر اپنے جوتے گھس آئینگے. پاکستانی حکمرانوں کو اب اپنی دیرپا پالیسیاں بنانا پڑیں ملک اور عوام کو عذاب سے نکال کر قائداعظم کے اصولوں پر لیکر ایسے چلایا جائیگا تو وہ وقت نہیں پاکستان اس خطے میں کیا دنیا بھر میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرپائیگا. انشاء اللہ
|