سنہ 1961 میں جب پاکستان کے اُس وقت کے فوجی حکمران جنرل ایوب خان امریکہ کے دورے پر تھے تو اُن کے سائنسی مشیرِ اعلیٰ، نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ ڈاکٹر طارق مصطفیٰ اُس وقت پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے وابستہ تھے اور ٹریننگ کی غرض سے امریکہ میں مقیم تھے۔ وہ اسی دوران صدر ایوب اور ڈاکٹر عبدالسلام کے امریکہ کے دورے کو اچھا شگون تھا اس ہی شگون جس کی وجہ سے پاکستان فی الفور خلائی دوڑ میں شامل ہو گیا۔ امریکہ میں قیام کے دوران ڈاکٹر عبدالسلام واشنگٹن میں ناسا کے دفتر پہنچے۔ وہاں حکام نے اس پاکستانی وفد کے سامنے بحرِ ہند کے اوپر موجود فضا کے متعلق ڈیٹا نہ ہونے کی مشکل رکھی۔ ناسا نے پیشکش کی کہ وہ بحرِ ہند کے آس پاس کے ممالک کو راکٹ ٹیکنالوجی فراہم کرنے کو تیار ہیں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اس راکٹ سے جو بھی ڈیٹا حاصل ہو گا، اس کا تبادلہ ناسا کے ساتھ بھی کیا جائے گا۔ پاکستان اس خلائی دوڑ میں ایسے ہی موقعے کا فائدہ اٹھا کر شامل ہو گیا تھا لیکن ملک کے پاس اس حوالے سے ویژن نہیں تھا لیکن سوال یہ ہے کہ پھر آنے والے برسوں میں پاکستان اس خلائی دوڑ میں اتنا پیچھے کیوں رہ گیا؟ اس کی وجہ پاکستان نے حالیہ برسوں میں چین کی مدد سے کئی سیٹلائٹس لانچ کی ہیں۔ تو ایک ایسا ملک جو خود اپنا راکٹ لانچ کر رہا تھا، اب سیٹلائٹس لانچ کرنے کے لیے چین پر منحصر کیوں ہے جبکہ پڑوسی ملک انڈیا چاند اور مریخ تک اپنے خلائی مشنز بھیج رہا ہے؟ اس کے جواب یہ ہی ہے کہ سپارکو کو اتنے وسائل نہیں دیے گئے اور پاکستان کی توجہ مختلف وجوہات کی بنا پر دفاعی جانب زیادہ رہی۔ پاکستان اس خلائی دوڑ میں امریکہ میں دورہ صدر ایوب کے ناسا کے کچھ سائینس دانوں سے خلائی مشن اور راکٹ وغیرہ پر بات ہوئی جس کی وجہ سےموقعے کا فائدہ اٹھا کر شامل ہو گیا تھا لیکن ملک کے پاس اس حوالے سے ویژن نہیں تھا کہ پاکستان نے بالائی فضا کے بعد باقاعدہ خلا میں بھی قدم رکھنے تھے. اس وقت پاکستان کی اپنی قومی ترجیحات ہیں اور پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اب راکٹ لانچنگ ٹیکنالوجی تیار کرنے پر فنڈز خرچ کرے۔ کہ دفاع کے ساتھ ساتھ وہ سپارکو کو بھی فنڈ ملتے. انڈیا کے پاس اس حوالے سے کہیں زیادہ مالی وسائل اور سائنسی دماغ اور سہولیات موجود تھیں جس کی بنا پر وہ آج اس جگہ تک جا پہنچے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے جو وسائل دستیاب ہیں، اُن کے ذریعے سپارکو نے موسمیاتی تبدیلی، جنگلات کی کٹائی، ماحولیاتی آلودگی، قدرتی وسائل اور آبی ذخائر وغیرہ کی مانیٹرنگ جیسے اہم مسائل پر زیادہ توجہ دی اور اس کے لیے سپارکو کی ٹیکنالوجی کو استعمال میں لایا گیا۔ مگر ہر آنے والی حکومت نے بس فنڈ ان کو دیے جن سے مشیر، وزیر وغیرہ کو مالی ( کرپشن ) کی صورت میں مالی فوائد ملے جبکہ آنے والے دنوں میں ہر وزیر جو بھی سائینس و ٹیکنالوجی آیا اُسے سپارکو کا یہ تک ہی نہیں پتہ تھا اس کا کام کیا ہے کچھ وزیر و مشیر تو یہ تک کہتے سُنے گئے کہ سپارکو تو رمضان و عید کا چاند دیکھنے کے لیے اپنی دوربین لاتا ہے جن وزیروں اور مشیروں کی یہ سوچ ہو اُدھر چاند پر کیا جائے اس کے لیے تو رمضان اور عید پر مسجد مہابت کے امام پوپلزئی کے چاند پر ہی پہنچ جائے جو ہر رمضان اور عید پر سال ایک مخصوص ایریا پر چاند دیکھنے کا دعوی کرتا ہے . پاکستان کے سائینسدانوں کو ہوپلزئی کے چاند پر جانے کی رمضان میں تیاری کرئے. ملک پاکستان کو پوپلزئی کو انعامات و اعزازات سے نوازے کہ اس نے پاکستان حکومت اور عوام کا ایک دھیلا بھی حکومت پاکستان سے نہ لے کر اس نے ہمیشہ رمضان اور عید کے چاند دیکھنے پر پاکستانی ادارے سپارکو کو بھی پیچھے چھوڑدیا. جو ہر سال اچھا خاصا بجٹ کا خرچہ کرنے کے باوجود بھی پوپلزئی سے پہلے چاند نہیں دیکھ پاتی اس لیے سپارکو ادارے کو فی الحال بند کرکے اس سے پاکستان کو اچھا خاصا بجٹ جو سپارکو ادارے اور اس کے اسٹاف پر خرچ ہوتا ہے. وہ بچ جائیگا ہوسکتا ہے اس بجٹ کے بچنے سے پاکستان کے معاشی حالت میں کچھ ٹہراؤ آجائے. پاکستانی حکومت کو چاہیے سپاتکو کو فورا پوپلزئی کی مسجد نہانے خان میں ضم ( مرج ) کردے اور پوپلزئی کی رہائش کو ہی آئندہ کا پوپلزئی اسپارک کا نام دے. اور آئندہ کے لیے موسمیات، چاند وغیرہ کی معلومات حاصل کرنے کے لیے عوام پوپلزئی سے رابطہ کرئے اور پاکستان کے سپارکو جیسے ادارے جو سوائے خسارے میں چل رہے انہیں بھی پوپلزئی جیسے بندےتلاش کرکے ان کے حوالے کرئے.
|