کیا خوب ارسطو کا قول ہے کہ ”انسان معاشرتی حیوان ہے۔“ بقول ارسطو انسان اپنے جیسے انسان کے بغیر زندگی بسر نہیں کرسکتا اور فطرت معاشرہ کو جنم دیتی ہے۔ فرد سے فرد کا رشتہ معاشرتی اداروں کو جنم دیتا ہے۔ آج اس گلشن بہار کو ہم صرف اپنے مقصد اور اپنے دکھاوے کی بھینٹ چڑھا دیا ہے، اگر ہم نے کوئی اچھا کام یا کسی غریب کی مدد کرنی ہے تو ہم پہلے چار لوگ جمع کرتے ہیں اور بنا مطلب کسی کی مدد نہیں کرتے۔ ہماری لالچ نے ہمارے اندر کی انسانیت کو دفن کر دیا ہے۔ اگر انسانیت نہیں تو انسان کیسا؟ پھر بستی کیسی؟ یہ تو بے ضمیر لوگوں کی بستی ہے، جس میں صرف اپنی فکر ہے اور دوسری مخلوق کی کوئی پروا نہیں۔ پاکستان میں جس قدر آج معاشرہ پستی کی طرف گامزن ہے. کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس طرح بھی ہوئیگا. ہر طرف ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے میں میں لوگ مصروف عمل ہیں. کسی کی ترقی و کامیابی میں روڑے اٹکانا اس ملک میں قومی کھیل بن گیا ہے. جو ایمان داری اور فرض شناسی سے مختلف اداروں میزن اپنا پسینہ بہارہے ہیں ان کی ہمت افزائی کے لیے دو بول نہیں. اور جو دونمبری سے اہل لوگوں کے عہدوں پر براجمان ہیں. ان کی عزت و افزائی اور خوشامدی کے لیے صبح سے شام تک قطار تہ قطار جیسے سیلانی کے دسترخوان کی مثال نہیں. اس ملک میں دونمبری کی لکی ہے ایسی چوپال جس کو دیکھ کر منڈیر پر کوا بھی بھول جائے اپنی کائیں کائیں. مگر جہاں کوئی اس ملک میں اپنی عوام اور ملک کی بہتری کے لیے کچھ کرئے تو پھر اُس کی پریشانی میں روز بروز مُشکلات تت مشکلات کا جو سفر شروع ہوتا ہے پھر بہت سے تو رخصت دیار غیر پتلی گلی سے نکلیے ہوتے ہیں اور بہت سے سر پھرے بھی ہوتے ہیں۔، جو ساری تکلیفوں کے باوجود بھی جیسے ہمارے ہاں اگر کوئی محقق، ریسرچر، دانشور قومی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوئے مصائب جھیل کر کسی مقام پر پہنچ بھی جائے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے ہر خاص و عام کو حیران کردے تو اس کے ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر محبوب الحق اور ڈاکٹر عطا الرحمن و ڈاکٹر عبدالسلام کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہم نے ہر دور میں معاشرے کے اہم ترین افراد کو نظرانداز ہی نہیں بلکہ بری طرح ضایع بھی کیا ہے ۔ نہ جانے یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں نہ قابلیت کام آتی ہے، نہ ایمان داری اور نہ ہی ڈگریاں. ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کا چہرہ تو ایک ہے لیکن اس کے روپ دو ہیں۔ ایک وہ جس کا ہم دکھاوا کرتے ہیں اور دوسرا وہ جو ہم اصل میں ہیں۔ ہم ایک ایسی قوم کا روپ دھار چکے ہیں جسے جمہوریت میں آمریت اور آمریت میں جمہوریت کی یاد بڑی شدت سے آتی ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی و تنزلی میں اس کے اہل علم و دانش کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ طبقہ جس قدر عصری تقاضوں کو سمجھنے، قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر نظر رکھنے اور تاریک راہوں میں روشنی کے چراغ جلانے والا ہو اسی قدر وہ قوم ترقی کی منازل آسانی سے طے کرتی ہے لیکن جس قوم کا یہ طبقہ اپنے کردار سے غافل ہوجائے یا اس کی ادائیگی سے پہلو تہی کرے اسی قدر اس قوم کے زوال کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ افسوس قابلیت کو کسی قابل نہ سمجھنے کا افسوس ماتم اور ان آہوں کا تجزیہ کرنے کے لیے قوم میں جید، گنی یا ہشت پہلو لوگ بھی ختم ہوگئے ہیں اور اسی لیے ہم علم و ادب، فن و سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاست سبھی محاذوں یا شعبوں میں پسپا ہو رہے ہیں یا مار کھا رہے ہیں۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ فاتحہ لوگوں کے مرنے پر ہی نہیں لوگوں کے ضمیر کے مر جانے پر بھی پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر آجاتا ہے لیکن ضمیر مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے، ہم اسی مردہ معاشرے میں اپنی سانسیں گننے میں مصروف ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں رہبر ؟؟؟؟؟ بن گئے اور ملک کی تقدیر بدلنے والے دوبئی اور لندن کی شاہراؤں پر جوتے کی جھنکار میں قوم کا نجات دہندہ کا اب بھی خواب دیکھ رہے ہیں۔ اقربا پروری، ذاتی پی آر نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ عالم فاضل اور لیاقت سے لبریز لوگ جیلوں کے دھکے کھا رہے ہیں.
|