اسپین: اقبال کا دوسرا خواب (شرح نظم، مسجد قرطبہ (بال جبرئیل)
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
شارح: ڈاکٹر عابد شیروانی۔ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ٭ مبصر: پروفیسر ڈاکٹر رئیس صمدانی پروفیسر ایمریٹس، منہاج یونیورسٹی، لاہور شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد وطن کا خواب دیکھا جسے قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر اکابرین نے سخت جدوجہد اور قربانیوں اور اپنی سیاسی حکمت عملی سے اقبال کے خواب کو عملی صورت دی اور پاکستان14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آگیا۔ اس مملکت خداداد کو قائم ہوئے 75سال ہوچکے۔ اس طویل عرصہ میں پاکستان کی کیا صورت بنی وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے اس کی قدر نہیں کی، اس کا ایک بازو ہم سے جدا ہوگیا، دوسرے حصہ میں جو کچھ ہوا اور اب ہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے اپنی کوتاہیوں، بد اعمالیوں سے سبق حاصل نہیں کیا۔ غلطی پر غلطی کی، قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر فوقیت دی، بس نفسا نفسی، لوٹ مارکا بازار گرم رکھا، بد قسمتی کہیں یا اپنے اعمال کا نتیجہ پاکستان کو وہ حکمران میسر نہیں آئے جو قوم کو حق اور سچ کی جانب مائل کرتے، حکمراں دونوں طرح کے یعنی عوامی اور عسکری دونوں نے 75 سالوں میں جم کے حکومت کی، بس تمام تر توجہ اس بات پر رکھی کہ کرسی سلامت رہے، اقتدار کا دورانیہ طویل سے طویل ہو، ہم اچھے باقی سب برے، ہم سمجھدار باقی سب کم عقل، سیاست دانوں نے اپنا کام صرف اور صرف یہ سمجھ لیا کہ کسی نہ کسی طرح اقتدار کی کرسی کو حاصل کرو، جو اقتدار میں نہ ہوں انہیں بھیڑ بکریاں سمجھو، انہیں دیوار سے لگانے کے تمام تر حربے استعمال کرو۔ جس کانتیجہ یہ ہے کہ آج ہم دیوالیہ ہونے کے کنارے پر پہنچ چکے، بعض کا تو کہنا ہے کہ اللہ نہ کرے ایسا ہوچکا۔ بات اقبال کے خواب سے شروع ہوئی، پاکستان تک پہنچی تو حالات کا قلم کی نوک پر آجانا لازمی امر تھا۔ اِن دنوں پاکستان کے سیاسی، معاشی، معاشرتی حالات سے ہر دل افسردہ اور پریشان،ساتھ ہی فکر مند بھی ہے کہ اللہ پاکستان پر اپنا خصوصی فضل فرمائے۔موجودہ اور مستقبل کے حکمرانوں کو پاکستان کو مستحکم کرنے، عوام الناس کی ابتر حالت کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری میں ایسی بے شمار نظمیں ہیں جو بہت مشہور اور نمایاں تر ہیں۔ شکوہ جواب شکوہ اپنی جگہ منفرد اور نہایت مقبول نظمیں ہیں۔ اقبال کی نظم جو بچوں کے لیے اسکولوں میں تعلیم شروع ہونے سے قبل اسکول کے طلبہ کو کھلے میدان میں کلاسوں کی ترتیب میں احترام سے کھڑے طلبہ کو وطن عزیز کا قومی ترانہ اور علامہ اقبال کی مشہور نظم ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔۔زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری“ کا پڑھانا معمول تھا، کم از کم ہمارے زمانے تک سرکاری اسکولوں میں یہ ایسا ہوا کرتا تھا، اب کیا صورت ہے نہیں معلوم، زمانہ بدل چکا، حالات بدل چکے،انگریزی میڈیم اسکولوں کا راج ہے۔اس عمل سے بچوں کو قومی ترانہ اور علامہ اقبال کے یہ نظم اذ بر ہوجایا کرتی تھی۔اِیسی ہی نظموں میں اقبال کی ایک نظم ”مسجد قرطبہ“ بھی ہے۔ اس نظم کو اقبال کی شاعری کا دل کہا جاتا ہے۔ بقول فراست رضوی ”زوال اسپین کا افسانہ سناتی یہ نظم اپنی علامتوں کی بہتی ہوئی موجوں کے ذریعے آفاقیت کو چھو لیتی ہے“۔کتاب کے مصنف ڈاکٹر عابد شیروانی پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں ساتھ ہی اقبال سے محبت اور عقیدت میں مجسم ڈوبے ہوئے ہیں۔ انہیں بجا طور پر اقبال شناسوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر شیروانی نے اقبال کی اس نظم کی شرح خوبصورت اندازمیں، علمی اور تحقیقی شرح تحریر کی ہے۔ اس نظم کی تشریح کئی اقبال شناسوں نے اپنے اپنے انداز سے بیان کی ہے لیکن عابد شیروانی نے اس نظم کی تشریح خوبصورت انداز سے کی ہے۔ اقبال کی یہ معرکتہ الآرا نظم اقبال کے معروف مجموعہ کلام ”بالِ جبریل“ میں شامل ہے۔ یہ نظم اقبال نے اپنے دورہ ہسپانیہ (قرطبہ) کے دوران بطور خاص ہسپانیہ کی سرزمین پر بیٹھ کر لکھی۔ اپنی اس نظم میں اقبال اپنے فکری ہنر و فلسفہ کے بلند مرتبہ پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس نظم کا شمار اقبال کی شاہکار نظموں میں ہوتا ہے۔ 8بندوں پر مشتمل اور ہر بند8 اشعار لیے ہوئے ہے، ہر بند میں ایک الگ اور جدا خیال پایا جاتا ہے۔ کل اشعار کی تعداد 64ہے۔ اقبال کے شعری مجموعوں اور ان کی نظموں کی شرح اردو، فارسی اور انگریزی میں تحریر کرنے کی روایت عرصہ دراز سے پائی جاتی ہے۔ پیش نظر تصنیف کے حوالے سے محسوس ہوا کہ اس بات کی بھی تحقیق ضروری ہے کہ اقبال کے شعری مجموعوں یا نظموں کی شرح لکھنے والے ادیب اور اقبال شناس کون کون ہیں۔ اس تحقیق میں آسٹریلیا میں مقیم اقبال شناس افضل رضوی صاحب سے رابطہ کیا اور اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔ میں اکثر کسی نہ کسی موضوع پر افضل رضوی صاحب سے علمی و ادبی موضوع پر گفت شنید کرتا رہتا ہوں۔ ہماری باہم سوچ و بچار اور تحقیق کے نتیجے اقبال کی نظموں کی شرح کے حوالے سے ناموں کی جو فہرست مرتب ہوسکی ان میں یوسف سلیم چشتی، ناصر عباس نیر، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، رفیع الدین ہاشمی، غلام رسول مہر، اسرارزیدی،ممتاز منگوری،خلیفہ عبد الحکیم، بشیر ڈار جو اپنے آپ کو بی اے ڈار لکھتے ہیں، جگن ناتھ آزاد، اے بی اشرف، عبد الرزاق (یہ اپنے آپ کو رزاق ایم اے بی اے لکھتے ہیں)، جرمنی سے تعلق رکھنے والے محقق شفیق، اسی طرح جرمن محققہ این میری شمل، ڈاکٹر محمد رفیق خان، بریگیڈیر (ر) ڈاکٹر اللہ بخش ملک نے بھی اقبال کی نظموں کی شرح پر کام کیا ہے۔ یقینا او ر بھی اقبال شناس ہوں گے جنہوں نے اقبال کی نظموں کی شرح تحریر کی ہوگی۔یہ فہرست حتمی نہیں۔ اب ڈاکٹرعابد شیروانی اقبال کی نظم ’مسجدِقرطبہ کی تحقیقی شرح پر مشمل تصنیف جس کا عنوان ”اسپین: اقبال کا دوسرا خواب“ہے۔ نظم قرطبہ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا کہ ”حکی الا مت علامہ اقبال تیسریگول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے 1932ء میں لندن گئے اور وہاں سے واپس آتے ہوئے اسپین کے شہر قرطبہ میں قیام کیا۔ ویسے تو مسجد ِقرطبہ میں اذان اور نماز پر پابندی تھی لیکن اقبال نے اسپین کی حکومتِ وقت سے اجازت لے کر مسجد میں اذان دی اور نماز بھی ادا کی اور ہسپانیہ کی سرزمین میں بالخصوص قرطبہ میں قیام کے دوران نظم ”مسجدِ قرطبہ”لکھی“۔ پیش نظر کتاب میں اقبال کی نظم مسجدِقرطبہ کی تشریح کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ یہ نظم آٹھ بندوں پر مشتمل ہے اور ہر بند میں آٹھ اشعار۔ ہر بند گویا ایک باب ہے۔ ابتدا میں بند کے آٹھ اشعار نقل کیے گئے ہیں،پھر بند کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے، بعد ازاں بند کے ہر شعر کا ترجمہ،الفاظ و معانی اور پھر اس شعر کی تشریح بیان ہوئی ہے۔اقبالؔ کی اس نظم کو سمجھنے اور اس کا لطف لینے کے لیے پیش نظر کتاب اپنے موضوع پر قابل قدر اضافہ ہے۔اسے ہراقبال سے عقیدت رکھنے والے اور اقبال شناس کے پاس اور ہر کتب خانے کی ذینت ہونا چاہیے۔
|