چند حمد گویانِ اردو/مؤ لف: سید محمد اصغر کاظمی
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
چند حمد گویانِ اردو/مؤ لف: سید محمد اصغر کاظمی ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی حمد باری تعالیٰ اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺکی مدح بیان کرنا ہمارے ایمان کاجزو ہے۔ خالقِ کائینات کی تعریف و عزمت اور ثناء کا اظہار ’حمد‘ کہلاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام مخلوق اپنے رب کی حمد بجا لاتی ہے ان میں صرف انسان ہی نہیں کائینات میں بسنے والی ہر ہر مخلوق اپنے رب کی حمد بیان کرتی ہے۔حمد کا لفظ صرف اور صرف مالک کائینات کی تعریف اور ثناء،دعا، اور مناجات کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید کا آغاز’سورۃ الفاتحہ‘ یعنی دعا سے ہوتا ہے۔ قرآن پاک کی سورتوں کی ترتیب کے اعتبار سے یہ سورۃ پہلے نمبر پر ہے،نزولی اعتبار سے یہ پانچویں سورہ ہے۔یہ مکی سورۃ ہے۔ اسے سورہ ’امّ الکتا ب، امّ القرآن، سبع مثانی بھی کہا گیا۔ یہ سورہ شفاء بھی کہی جاتی ہے۔ یہ سورۃ وہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سکھائی، یہ قرآن کا خلاصہ، ابتدائیہ، دیباچہ، پیش لفظ، مقدمہ، آغاز کلام جو بھی کہا جائے۔ در حقیقت یہ سورہ ایک دُعا ہے۔ اس کا ماحاصل یہ ہے کہ اگر تم اس کتاب سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو پہلے اپنے پروردگار سے یہ دعا مانگو۔ سورۃ الفاتحہ کے معنی و تشریح کا بغور مطالعہ ہمیں قرآن کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرتا ہے۔ الفاتحہ سے مراد کھولنے والی اور حقیقت میں قرآن کی سورۃ الفاتحہ سے قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور اس کے مطالب سے آگاہی ہوتی ہے۔یہ دعا اللہ نے نزول قرآن کے ابتدائی دور میں ہی نازل فرمائی۔ مرتبین قرآن نے اس سورۃ کی اہمیت اور فضلیت کے باعث اسے قرآن کا آغاز بنایا، یہ سورہ قرآن کی تمام سورتوں سے زیادہ پڑھی جانے والی سورہ ہے۔معروف اسکالر شاہ حسن عطا نے لکھا کہ’ایک مسلمان کا جتنا گہرا تعلق سورۃ الفاتحہ سے ہے کسی اور سورہ سے نہیں‘۔ مسلمان ہر نماز فرض، سنت، نفل، وتر، تہجد، تراویح کی نماز ہو وہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھتے ہیں۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کلام مجید کی یہ سورۃ الفاتحہ کتنی تعداد میں پڑھی جاتی ہے،ایک نمازی اگر پانچ وقت نماز پڑھتا ہے تو وہ دن میں 44 مرتبہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہر گزرے لمحہ سورہ الفاتحہ پڑھی جارہی ہوتی ہے۔ گویا ہر لمحہ قرآن پاک کی تلاوقت جاری و ساری رہتی ہے۔ یہ اعزاز و مرتبہ کسی اور کتاب کو حاصل نہیں۔ اس لیے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ سورۃ الفاتحہ کا اردو ترجمہ ”سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو رب ہے سب جہانوں کا۔ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ مالک روزِ جز اکا۔ تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ دکھا ہم کو راستہ سیدھا۔ راستہ اُن لوگوں کا کہ انعام فرمایاتُو نے اُن پر نہ وہ جن پر غضب ہُوا (تیرا) اور نہ بھٹکنے والے“۔ سات آیات پر مشتمل یہ سورۃ مکی سورہ ہے،اس کی ابتدا ء دنیا میں بسنے والی اقوام کا تصور پیش کرتی ہے۔ کہا گیا ’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، جو رب ہے تمام جہانوں کا، اس مخلوق کا بھی جو ہمیں دکھائی دے رہی ہیں، ان کا بھی جو ہمیں دکھائی نہیں دیتیں‘،وہ رحیم ہے سب پر رحم کرنے والا ہے، وہ مالک ہے روز جزا کا، مالک ہے قیامت کے دن کا، اس لیے کہ وہ رب العالمین ہے۔ پھر دعا ئیہ جملے ہیں اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں،گویا ہم اپنے خالق کے حضور معافی کی درخواست کرتے ہیں۔ اے اللہ تو ہی ہمارا معبود ہے، ہم تو صرف اور صرف تیری اطاعت اور تیری مدد کے طالب ہیں۔ سیدھا راستہ بھی تو ہی دکھاسکتا ہے، ہمیں توفیق دے کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں، اور سیدھا راستہ بھی کونسا وہ جن پر تو مہربان ہوا، انہیں اپنے کرم سے نوازا، عطا فرما ہمیں بھی وا ضح راستہ جس میں کوئی کجی نہ ہو۔ہمیں بھٹکے ہوؤں کے راستے سے بچانا، جن پر تو نے اپنا غضب ڈھایا ان کے راستے سے محفوظ رکھنا۔ مالک کائینات کی حمد و ثنا کے حوالے سے بے شمار احادیث ملتی ہیں۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ وہ جو لقمہ کھائے اور اس پر اللہ کی حمد و ثنا کرے، پانی کا گھونٹ پیئے اور اس پر اللہ کی حمد و ثنا کرے“۔ حمدِ باری تعالیٰ بیان کرنا عظیم ذکر ہے جو رب العالمین کو پسند ہے۔ پیش نظر کتاب ”چند حمد گویانِ اردو“ اردو کے ادیب سید محمد اصغر کاظمی نے مرتب کر کے حمد باری تعالیٰ کے حوالہ سے قابل قدر کام کیا ہے۔ اس مجموعہ میں حمد بیان کرنے والے چند شاعروں کی بیان کردہ حمد ان کے مختصر تعارف کے ساتھ کتابی صورت میں مرتب کردیا ہے۔ کاظمی صاحب ادارت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اس مجموعہ کے ساتھ ایک مجموعہ ’چند نعت گویانِ اردو“ بھی مرتب کیا ہے۔ دونوں ہی مجموعے قابل تعریف ہیں۔ نعت کے حوالہ سے مرتب کیے گئے مجموعہ میں علیحدہ سے بات ہوگی۔ حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول ﷺ کی سعادت حاصل کرنا ہر دور میں شاعروں کا محبوب ترین شوق رہا ہے۔ یہ شوق کی تکمیل بھی ہے اور عبادت بھی۔ عربی زبان دیگر کئی قدیم زبانوں میں حمد اور نعت کہی گئی، اردو زبان کی ابتدا سے ہی حمد باری تعالیٰ اور نعتِ رسول مقبولﷺ کہی جانے لگیں۔ شاعروں نے نظم میں اور نثر نگاروں نے حمدیہ مضامین تحریرکیے جن میں اپنے آقا نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی شان بیان کی۔ شاید ہی کوئی شاعر ایسا ہوگا جس نے حمد ِ باری تعالیٰ اور نعت ِ رسول مقبول نہ کہی ہو۔ جتنے بھی شاعری کے مجموعے،مجلے شائع ہوتے ہیں ان کا آغاز ہی حمد باری تعالیٰ اور نعت ِ رسول مقبول ﷺ ہوتا ہے۔ ماضی کے بڑے شاعروں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر شاعر کے مجموعوں میں حمدباری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول ﷺ کے اشعار ملتے ہیں۔ جیسے میر تقی میرؔ، میردردؔ، آتشؔ، نظیرؔ، غالب ؔ، مومنؔ، حالیؔ، اقبالؔ، بہادر شاہ ظفرؔ، مصحفیؔ، اکبرالہ آبادی، اسما عیل میرٹھی، محمد علی جوہر، حسرتؔ موہانی، جگرؔ مرادآبادی، سیمابؔ اکبر آبادی، مومن خان مومنؔ’، مولانا ظفر علی خان، علامہ سید سلیمان ندوی اور دیگر شعراء شامل ہیں۔ اسی طرح حال کے شاعروں میں شاید ہی کوئی شاعر ایسا ہوگا جس کے کلام میں حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول ﷺ شامل نہ ہو۔ پیش نظر مجموعہ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں ماضی کے معروف شعراء جن کا اوپر ذکر کیا گیا کے بیان کردہ معروف اشعار ان کے مختصر تعارف کے ساتھ درج کیے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ ان معروف شاعروں کاکلام جس شعری مجموعہ میں شائع ہوا اس مجموعہ کا نام، صفحہ نمبر بھی درج کردیا گیا ہے جس پر وہ اشعار درج ہیں۔ حوالے کی یہ صورت بیان کو مستند اور تحقیقی بناتی ہے۔ پیش نظر مجموعہ میں جن شعراء اور ان کے کلام کے نمونے درج کیے گئے ہیں ان کے انتخاب کا پیمانہ کیا تھا اس کا ذکر مولئف نہیں کیا۔جن شعرا کا ذکر ہے ان میں بہزاد لکھنوی، ابرار کرت پوری، انعام گوالیار، ظفر عمر زبیری، افسر ماہ پوری، شمیم ٹھٹھوی، محمد جان عاطف، ذاکر علی خان، پروفیسر وصی احمد وفا صدیقی، مسعودہ کانم، تنویر حرا، پیر زادہ سید ظفر ہاشمی شامل ہیں۔ ہر شاعر کا مختصر تعارف حوالوں کے ساتھ درج کیا گیا ہے ساتھ اس شاعر کے کلام کے چند اشعار بھی درج ہیں، اختتام پر حوالہ جات کی فہرست باقاعدہ ترتیب کے ساتھ درج کی گئی ہے۔شاعروں کے حمدیہ کلام سے چند اشعار: بہزاد لکھنوی تو ہے بے کسوں کا ہے آسرا تری شان جل جلالہ تو ہی ہر بشر کا ہے مدعا تری شان جل جلالہ ابرار کرت پوری یہ حقیقت ہے بڑا تجھ سے نہیں ہے کوئی ارفع و اعلیٰ! ہر اک شے پر سبقت تیری انعام گوالیار تیرے لطف پر مجھے فخر ہے ترے فضل پر مجھے ناز ہے تو رحیم ہے تو کریم ہے تیری شان بندہ نواز ہے ظفر عمر زبیری لوح محفوظ پہ رکھی تھی ہدایت دے دی یعنی انسان کو قرآن کی نعمت دے دی افسر ماہ پوری تو قحیقت ہی حقیقت پردہَ کونین میں ہم فقط وہم و گماں، وہم و گماں شمیم ٹھٹھوی ترا کرم ہے کہ مجھ پر ہے ترا فیض سخن وگر نہ وصف ترا اور کہاں یہ میرا دہن محمد جان عاطف کرم کی نظر ایک اس پر بھی مولا یہ عاطف ہے ادنیٰ گلام محمد ﷺ ذاکر علی خان ہر برگِ گُل مین تیری ہی رعنائیاں تو ہیں بلبل چہک چہک کہ جو لیتی ہے تیرا نام پروفیسر وصی احمد وفا صدیقی پاک ہے وہ مہر باں ہے اورسراپا نُور ہے اس کی قدرت جاننا فہمِ بشر سے دور ہے نگار فاروقی تو ہی خالق ہے تو ہی مالک ہے نہیں عالم میں کوئی تیری مثال مسعودہ کانم ہم بندے خطا وار اے خدا در پہ تیرے آئے ہوئے ہیں آسرا ہے ترے کرم کا ٹھوکریں ہم کھائے ہوئے ہیں تنویر حرا تو خالق ہے جہاں تری ذات ہے عظیم بندون کو نعمتوں سے نوازا ہے اے کریم پیر زادہ سید ظفر ہاشمی نہیں کچھ اور کعبے میں مگر اللہ ہی اللہ ہے ادھر اللہ ہی اللہ ہے اُدھر اللہ ہی اللہ ہے مرتب نے ہر شاعر کا مختصر تعارف، حمد نگاری اور چند حمدیہ اشعار حوالوں کے ساتھ نقل کیے جس سے یہ حمدیہ مجموعہ تحقیق و جستجوں کی ایک اچھی مثال بن گیا ہے۔حمد باری تعالیٰ پر تحقیق کرنے والے محققین اس سے استفادہ کرسکیں گے۔ (۶۱ نومبر۳۲۰۲ء)
|