آپس کی باتیں یا آپس کی کدورتیں

لاہور کے ناشر مقبول اکیڈمی کے مالک ملک مقبول احمد کا قلم کچھ عرصے سے رواں ہے۔ اردو ادب کی کئی اصناف میں دراندازی کرچکے ہیں، پذیرائی، گلشن ادب ، سیاحت نامہ ترکی اور 50 نامور ادبی شخصیات کے عنوانات سے ان کی کتابیں شائع ہوئیں۔ سفر جاری ہے کے عنوان سے خودنوشت تحریرکی جس کا دوسرا ایڈیشن 2008 میں منظر عام پر آیا۔ ادب کی ایک صنف ایسی بھی ہے جس کا کوئی باضابطہ نام نہیں ہے ،اس کو کئی نام دیے جاسکتے ہیں ۔ ہم اس کو کدورت بھی کہہ سکتے ہیں، عداوت اور بغض کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس صنف ادب کی ترویج میں کئی نامور اہل قلم کا لازوال حصہ ہے او ر یہ کوئی آج کا قصہ نہیں ہے۔ مصحفی و انشائ، شرر اور چکبست، مولانا آزاد اور مولانا ماجد، اوپندر ناتھ اشک اور سعادت حسن منٹو، چراغ حسن حسرت اور ایم ڈی تاثیر، سرسید احمد خاں اور اکبر الہ آبادی (اقدار کا تصادم)، معرکہ حمایت علی شاعر اور محسن بھوپالی (سکھر کے اخبار کی زینت بنا) ، منیر نیازی و جون ایلیا اور جمیل یوسف اور ظفر اقبال کے درمیان چپقلش سے ایک دنیا واقف ہے۔ اور پھر اُدھر نارنگ و شمس الرحمان فاروقی اور ادھر احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا کے درمیان رسوائے زمانہ معرکے اس پر مستزاد ۔ موخر الذکر میں ڈاکٹر انور سدید او ر ڈاکٹر سلیم اختر نے بھی بقدر ظرف اپنا اپنا حصہ ڈالا اور اسے ترقی کے بام عروج پر پہنچا دیا۔ ایک مرتبہ اہل قلم کانفرنس کے دوران تو احمد فراز اور اجمل نیازی دست و گریباں بھی ہوگئے تھے ، فراز نے اجمل نیازی کی ریش پر ہاتھ ڈالا اور جواب میں نیازی صاحب نے کرسی اٹھا لی تھی۔

ادبی چپقلشوں کے تعلق سے اس ضمن میں کئی لطیفے بھی مشہور ہوئے۔ مشفق خواجہ نے شاہد دہلوی اور جوش ملیح آبادی کے درمیان چپقلش کے تعلق سے نومبر 1995 کے ایک کالم میں یہ پر لطف واقعہ درج کیا:

”مصطفی زیدی نواب شاہ سندھ میں ڈپٹی کمشنر تھے۔انہوں نے ایک ادبی کانفرنس منعقد کی اور اس میں شاہد احمد دہلوی اور جوش ملیح آبادی کو مدعو کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ان دونوں میں زبردست معرکہ آرائی ہورہی تھی۔ مصطفی زیدی نے ان دونوں بزرگوں کو کراچی سے نواب شاہ لے جانے کا کام طفیل احمد جمالی کے سپرد کیا۔ سفر ریل گاڑی سے کرنا تھا، اس لیے جمالی نے ایک گاڑی سے جوش صاحب کو روانہ کیا اور دوسری سے شاہد صاحب کو لے کر وہ خود نواب شاہ پہنچے۔ مصطفی زیدی نے جمالی سے کہا : ” اگر آپ ان دونوں کو ایک ہی گاڑی سے لے کر آتے تو مجھے استقبال کے لیے دو مرتبہ ریلوے اسٹیشن پر آنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑتی۔ “۔۔
جمالی نے جواب دیا
” آپ کو اپنی زحمت کا تو خیال ہے لیکن اس کا خیال نہیں کہ اگر یہ دونوں بزرگ ایک ساتھ سفر کرتے اور راستے میں ان کے درمیان صلح ہوجاتی تو اس حادثے کا کون ذمہ دار ہوتا ؟ “

خواجہ صاحب نے مزید لکھا: ”اس واقعے سے جو اخلاقی نتیجہ برآمد ہوتا ہے ، اس کی بنا پر ہمارا یہ خیال ہے کہ ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر سلیم اختر کو کسی محفل میں یک جا نہیں ہونا چاہیے۔ “

صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر جریدہ نقوش کو 1981 میں ادبی معرکے کے عنوان سے خاص نمبر چھاپنا پڑا تھا، اس سلسلے میں مواد کی کمی نہ تھی، پڑھنے والے لطف اندوز ہوئے۔نقوش کے اس جریدے میں دلچسپ کارٹونز بھی شائع ہوئے۔ایک کارٹون میں مصحفی ، انشاءاللہ خاں انشاءکی جانب پشت کیے کھڑے ہیں اور انشاءاپنے دونوں کانوں پر انگوٹھے رکھے، بقیہ انگلیاں عمودی حالت میں ہوا میں لہرا رہے ہیں، جوش اور شاہد دہلوی ایک دوسرے پر سیاہی والے قلم سے روشنائی کے چھینٹے اڑا رہے ہیں۔ اور ایک کارٹون تو ایسا کہ تمام صورتحال دیکھنے والے پر عیاں ہوجائے ، اس میں دو ممکنہ مشاہیر ادب ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں، ایک حضرت اپنے حریف پر تلوار سے وار کررہے ہیں جبکہ حریف اس کو ایک ضخیم لغت پر روک رہے ہیں، عقب میں ان دونوں کے چند دیگر پروردہ و کاسہ لیس ، ایک دوسرے پر تیر اور بھالوں سے نبرد آزما ہیں، ایک لاغر سا شخص آپس کی اس لڑائی کی زد میں آکر مضروب حالت میں زمین پر ڈھیر پڑا ہے جبکہ ایک ہرے رنگ کے چہرے والا (عموما شیطان کو اس حلیے میں دکھایا جاتا ہے ) کتابوں کی الماری کی اوٹ سے فساد کا یہ منظر دیکھ کر مسکرا رہا ہے!

خدا سلامت رکھے ڈاکٹر انور سدید کو کہ اس قوی صنف ادب اور اپنے ترکش، دونوں کو نہ صرف فعال رکھا ہوا ہے بلکہ شنید ہے کہ ترکش کا آخری تیر سائنایڈ میں بجھا کر اپنے آخری زندہ بچ جانے والے دشمن کے لیے محفوظ کیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو شکایت ہے کہ بعض لوگ انہیں ’زبان دراز سرگودھوی ‘کہتے ہیں اور بعض وزیر آغا کا مزارع ۔ڈاکٹر سدید نے تمام زندگی بقول شخصے ’ نہر کے موگے توڑ‘ محکمے میں بحیثیت انجینئر نوکری کی ، ساتھ ساتھ ہی ساتھ وہ ادبی نہر کے موگے توڑنے میں بھی تندہی سے مصروف رہے۔ توڑ پھوڑ کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

ڈاکٹر انور سدید کی کثیر التعداد تصنیفات اور ڈاکٹر صاحب کی احمد ندیم قاسمی سے چپقلش کو مشفق خواجہ نے ایک ہی جگہ کچھ یوں باندھا ہے :”ڈاکٹر انور سدید کی تصانیف پڑھنے کا کام خوشگوار ہونے کے ساتھ ساتھ خاصا خطرناک بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی کتابیں پڑھنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر بھی بڑھ جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کے ذریعے حاصل کردہ علم تو بے ضرر ہوتا ہے کہ خود ڈاکٹر صاحب بھی اسے اپنے پاس رکھنا پسند نہیں کرتے اور قارئین میں تقسیم کردیتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی کتابیں پڑھنے سے بلڈ پریشر میں اضافہ کیوں ہوتا ہے ، اس کی تفصیل میں جانے کے بجائے ہم یہ بتا ئے دیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی تازہ تصنیف ’ دلی دور نہیں‘ پڑھنے کے دوران ہم پر کیا گزری ۔احمد ندیم قاسمی کا ذکر اس سفرنامے میں ایک درجن سے زیادہ مرتبہ کیا گیا ہے اور ہر جگہ سخن گسترانہ انداز میں ہے۔ حیرت ہے کہ دلی میں بھی ڈاکٹرانور سدید نے احمد ندیم قاسمی کا پیچھا نہ چھوڑا، مثلا 1988 کے لاہور کے فیض میلے میں بعض سخن نا شناسوں نے قاسمی صاحب کو کلام نہیں سنانے دیا۔ اس واقعے کا دلی یا دلی کے سفرنامے سے کوئی تعلق نہیں لیکن داد دیجیے ڈاکٹر سدید کو کہ انہوں نے اس واقعے کا کئی مرتبہ ذکر کیا ہے ۔ انداز یہ اختیار کیا ہے جیسے سخن نا شناسوں کی یہ حرکت انہیں ناگوار گزری ہو لیکن بین السطور سے دلی مسرت پھوٹی پڑتی ہے۔ “

مقبول اکیڈمی کے مالک ملک مقبول احمد نے حال ہی میں (2011) ’آپس کی باتیں ‘ کے عنوان سے کتاب مرتب کی ہے ۔ مذکورہ کتاب میں ڈاکٹر سدید کے جولائی 1993 سے جولائی 2001 تک مختلف جرائد میں شائع ہونے والے انٹرویوز کو یک جاکیا گیا ہے۔ کتاب میں کل اٹھارہ انٹرویوز شامل ہیں اور کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جس نے ڈاکٹر سدید سے احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹرسلیم اختر کے بارے میں سوال نہ پوچھا ہو، حسن اتفاق یا قباحت اتفاق سے، ڈاکٹر سدید کے جوابات ملتے جلتے (جلتے کو زبر سے پڑھا جائے) نظر آئے۔

یہاں ہمیں مشفق خواجہ مرحوم ایک مرتبہ پھر یاد آئے ، فرماتے ہیں:ڈاکٹر وزیر آغا سے ڈاکٹر انور سدید کی دوستی مثالی ہے، مگر دوستی کا لفظ تعلقات کی گہرائی اور نوعیت کا پوری طرح احاطہ نہیں کرتا، معاملہ دوستی سے کچھ آگے کا معلوم ہوتا ہے۔ موصوف سے سوال کیا گیاکہ اگر آپ کی ملاقات ڈاکٹر وزیر آغا سے نہ ہوتی تو آپ کی زندگی میں کس چیز کی کمی ہوتی ؟ ۔۔انہوں نے جواب دیا: ”میری زندگی ادھوری رہتی، میں اردو ادب سے بھاگا ہوا فرد بھی شمار نہ ہوتا، محکمہ آ ب پاشی کے ایک گم نام کارکن کی حیثیت میں ملازمت سے ریٹائر ہوجاتا۔جس دن وزیر آغا سے ملاقات نہیں ہوتی، میں اسے اپنی زندگی میں شمار نہیں کرتا۔“

خواجہ صاحب تبصرہ کرتے ہیں: ”خوشی کی بات یہ ہے کہ محمکہ آب پاشی کا ایک گمنام کارکن آج محکمہ نمک پاشی میں ملک گہر شہرت رکھتا ہے۔ “

بات اگر محض طنز کے پیرائے میں کہی گئی ہو تو غنیمت لیکن یہاں معاملہ اس سے کچھ سوا ہے۔ طنز کے بارے میں ایک جید نقاد کا کہنا ہے کہ ” طنز کی تخریبی کاروائی صرف ناسور پر نشتر چلانے کی حد تک ہے، طنز کے لیے ضروری ہے کہ یہ مزاح سے بیگانہ نہ ہو بلکہ کونین کو شکر میں لپیٹ کر پیش کرے۔“

’آپس کی باتیں ‘ میں شامل کردہ انٹرویوز میں ڈاکٹر سدید شکر کو کونین میں لپیٹ کر پیش کرتے نظر آتے ہیں !

ہمارے خیال سے آپس کی باتیں کا درست عنوان آپس کی کدورتیں ہونا چاہیے کہ یہ کتاب ایسی باتوں سے ُپر ہے جن میں قاری کے ہاتھ بھی ما سوائے کدورت کے، اور کچھ نہیں آتا۔ ملک صاحب نے کتاب شائع تو کردی لیکن اس کے جواز میں انہیں پیش لفظ بھی لکھنا پڑا ۔ کتاب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری ناقص رائے میں اس کا عنوان پیش لفظ سے بہتر پیش قبض ہونا چاہیے تھا۔

ملک مقبول پیش لفظ میں لکھتے ہیں :”مجھے حیرت ہوئی کہ ان (انور سدید) کے بارے میں جو باتیں ایک کان سے دوسرے کان تک خفیہ سرگوشی کی صورت میں پہنچائی جاتی تھیں ان میں انور سدید کی کردار شکنی کا ز اویہ ہوتا تھا لیکن ان سے ملاقات ہوئی اور لمبی گفتگو ہوئی تو وہ افواہوں سے پھیلائے ہوئے تاثر سے مختلف انسان نظر آئے۔ میں نے یہ کتاب چھاپنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ انور سدید ہر سوال کے جواب میں نہ صرف اپنا باطن عریاں کرڈالتے ہیں بلکہ ادبی معاشرے میں پھیلی ہوئی گرد کو بھی صاف کردیتے ہیں “

پیش لفظ میں تو ملک صاحب کی رائے تبدیل ہوتی دیکھی گئی لیکن ان تمام انٹرویوز کو پڑھنے کے بعد اس رائے کے ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوجانے کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ملک صاحب، ڈاکٹر سدید کی کتابوں کے پرانے ناشر ہیں، ان کی رائے کے تبدیل ہوجانے کا براہ راست تعلق ان کے کاروبار سے ہے اور ایک کامیاب کاروباری شخص ہونے کے ناطے ملک صاحب ہرگز یہ گوارا نہیں کریں گے۔

باطن عریاں کرکے ادبی معاشرے میں پھیلی ہوئی گرد صاف کرنے کا خیال اچھوتا ہے۔، بشرطیکہ گرد صاف کرنے والے کا ،اسے پھیلانے میں اپنا ہاتھ نہ ہو۔

ملک صاحب نے پیش لفظ میں جناب شبیر احمد خان میواتی کا خصوصی شکریہ ادا کیاہے جنہوں نے ان انٹرویوز کو کتابی شکل میں چھپوانے کے خیال کو سب سے زیادہ تقویت دی اور ذاتی ذخیرے سے تمام انٹرویوز کے تراشے فراہم کیے ۔ ہم ٹھہرے سدا کے قنوطی، اس ’میوے‘ سے کچھ انتخاب پیش خدمت ہے، یاد رہے کہ پہلے ہی انٹرویو میں (صفحہ ۱۱) ڈاکٹر سدید نے یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ دریائے جہلم کی بڑی طغیانی کے دنوں میں پیدا ہوئے تھے۔ہم اپنے قارئین سے امید کرتے ہیں کہ وہ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اقتباسات پڑھیں گے:

جواز جعفری کاسوال : اردو تنقید میں سب سے بڑی تنقید کس نے لکھی ؟
انور سدید:” کیا آپ کاا شارہ عطاءالحق قاسمی کے اس جملے کی طرف ہے کہ جو نقاد ان کے ’ پیر ‘کے ایک افسانے ’بین ‘کی تعریف نہیں کرتا وہ باسٹرڈ ہے ۔“
جولائی 1982
٭
۔”گارساں دتاسی کے بعد سب سے زیادہ ادبی جائزے میں نے اور سلیم اختر نے لکھے ہیں۔“
۔”میں احمد ندیم قاسمی سے گزارش کروں گا کہ وہ اس ادیب کو نوبل ایوارڈ دلائیں، ان کی رسائی سرکاری دربار تک ہے۔“
۔”میں ڈاکٹر سلیم اخترپر رائے دینے کا اہل نہیں ہوں، وہ سچ سننے سے گریز کرتے ہیں اور تحسین دروغ آمیز کے لیے کان کھلے رکھتے ہیں، ان کا ریاض ابھی نامکمل ہے۔“
۔”پہلے ان کا (ڈاکٹر سلیم اختر) خلوص وہاں تک جاتا تھا جہاں تک ان کی سائیکل جاتی تھی، اب وہاں تک جاتا ہے جہاں تک ڈاکٹر یزدانی کی کار انہیں لے جاتی ہے۔“
۔”میں نے ڈاکٹر وزیر آغا کو اور احمد ندیم قاسمی کو ایک خط لکھا تھا کہ وہ میرے غریب خانے پر قدم رنجہ فرما کراکھٹے چائے نوش کریں، قاسمی صاحب نے جواب ہی نہیں دیا ۔“
۔ ”سلیم اختر کی رائے ان کی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کے ہر ایڈیشن پر بدل جاتی ہے، جو ادیب اچھی چائے نہ پلائے وہ قابل مذمت، جو پلادے وہ قابل تعریف ہے۔“
۔”میں انشاءاللہ اپنا دفاع راجپوتی قلم سے کروں گا۔اس جھوٹے الزام (انور سدید کی کتاب سلیم اختر کی اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کا چربہ ہے۔راقم) پر میں سلیم اختر کا دامن حشرکے روز بھی پکڑوں گا لیکن بقول شخصے وہ تو خدا اور اسلامی بنیادوں پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔عید کے دن بھی بیت الخلا میں بیٹھے رہتے ہیں۔“ (افسوس کہ ڈاکٹر سدید یہ بھول گئے کہ عورت، جنس اور جذبات جیسی تخلیقات بیت الخلا ہی میں بیٹھ کر لکھی جاتی ہیں۔راقم)
جولائی1982
٭
۔’’ مشفق خواجہ بنیادی طو ر پر محقق ہیں اور محقق بھی اس قسم کے جو پرانی کتابوں میں سے اغلاط تلاش کرکے ان کی تصحیح کرتے ہیں۔“
۔”ڈاکٹر سلیم اختر نفسیات کے بہت بڑے نقاد ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ انہوں نے صرف نصابی سطح کی نفسیات پڑھی ہے اور اسے بھی استعمال کرنے کا سلیقہ نہیں ہے۔“
۔” ڈاکٹر سلیم اختر کے مقالے پر وزیر آغا نے اختلافی نوٹ لکھا لہذا سلیم اختر ناراض ہوگئے۔“
۔”عطاءالحق قاسمی کا پیرس کا ایک سفرنامہ فنون میں چھپا تو محترمہ افضل توصیف نے فنون ہی میں ایک خط کے ذریعے بتایا کہ اس سفرنامے میں جن مقامات اور واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ تو پیرس میں موجود ہی نہیں، یہ سفرنامہ تو ڈارئنگ روم میں بیٹھ کر لکھا گیا ہے“
۔” ہجرہ ایوارڈ بھی آپ کے سامنے ہے، ایک سال تو وہ ملتا ہے ڈاکٹر سلیم اختر کو اور پھر امجد اسلام امجدکو، شاید شاعری کا معیار ہی امجد اسلام امجد رہ گیا ہے۔“
۔”میں احمد ندیم قاسمی کی بخشش کی دعا کروں گا، ترقی پسندوں میں وہ جنت کے حقدار ہیں، وہ اپنے آپ کو کمیونسٹ مسلمان شمار کرتے ہیں۔“
ماہنامہ کھیل رنگ۔ دسمبر 1985
٭
۔”ڈاکٹر سلیم اختر پر اب تھکن کے آ ثار نظر آرہے ہیں“
۔”مجھ میں حسد کی شدید کمی ہے۔“
۔”احمد ندیم قاسمی کی روھانیت پر ترقی پسندی غالب آگئی اور وہ مادہ پرستی میں دب گئے، ان کے ہاں انسان دوستی محض نعرہ ہے لیکن باطن میں مفاد پرستی اور آدم دشمنی کا عنصر موجود ہے۔“
۔”احمد ندیم قاسمی کا یہ ارشاد ان کی پوری شخصیت کا آئینہ دار ہے کہ انور سدیدکا نام لینے سے ان کی زبان پلید ہوجاتی ہے۔“
´۔” میں وزیر آغا کے علم کی چاندنی میں غسل ماہتابی کرتا رہاہوں، میں نے (احمد ندیم) قاسمی صاحب کے جلال کی کرنیں دور سے محسوس کی ۔“
تحقیقی مقالہ ’انور سدید کی ادبی خدمات‘ کے لیے سوالنامہ ۔جون 1986
٭
۔” ادب میں تعصب کی، خواہ وہ ذاتی ہو یا گروہی، کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔“
۔” میری تحریرں سوچ کے مسلسل عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔“
۔” میں نے لودھراں میں انشائیہ کانفرنس میں گزارش کی تھی کہ انشائیہ پر مہر لگانے کا کام ڈاکٹر سلیم اختر کو سونپ دیا جائے کیونکہ وہ خود انشائیہ لکھنے پر قدرت نہیں رکھتے لیکن انشائیہ کی بنیاد ہلانے کے درپے ہیں۔“
ماہنامہ نیرنگ خیال، راولپنڈی، فروری 1990
٭
حسن رضوی کا سوال: ابھی آپ احمد ندیم قاسمی کے انٹرویو کے حوالے سے ایک جملے کا حوالہ دے رہے تھے، کیا آپ یہ محسوس نہیں کرتے کہ ایسا جملہ کسی سے اکتا کر ہی ادا کیا جاتا ہے۔آخر آپ نے بھی تو دشنام طرازی کی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی “ ؟
ڈاکٹر سدید کا جواب:ہمارے بزرگ قاسمی صاحب ادبی دنیا میں ستر سال سے سیاست آزمائی کررہے ہیں، انہیں ابھی تک کیا ادبی معاشرے کے رسوم و آداب سے بھی آگہی حاصل نہیں ہوئی ؟
۔” ڈاکٹر سلیم اختر زود رنج نقاد ہیں، مطالعے کو ہضم کرنے سے پہلے اگل دیتے ہیں، کاتنے ( کتاب میں یہ لفظ اسی طرح لکھا گیا ہے،یہ کاتب کی غلطی ہے یا پروف ریڈر کی ڈاکٹر سلیم اختر سے ہمدردی ، خدا ہی جانے ۔راقم)سے پہلے دوڑنے لگتے ہیں اور زیادہ دوڑتے ہیں، ان کی تنقید مالی مفادات اور مخصوص مقاصد کی تابع فرمان ہے۔“
۔” مجھے وزیر آغا کے قریب ہونے کا اعزاز یقیننا حاصل ہے لیکن میں نے ان کا دفاع کرنے کے بجائے ادب کا دفاع کیا ہے۔“
۔” یہ اطلاع شاید آپ سب کے لیے حیرت انگیز ہو کہ وزیر آغا ا پنے خلاف لکھے دشنام کے پشتاروں کو پڑھتے ہی نہیں، مجھے یہ سب کچھ پڑھنے میں بہت مزہ آتا ہے اور جواب لکھ کر بھی میں عجیب لطف و انبساط حاصل کرتا ہوں۔“
گفت و شنید، سنگ میل پبلیکیشنز،لاہور۔1990
٭
۔” بدقسمتی سے احمد ندیم قاسمی نے اپنے بی اے کے مطالعے کو آگے نہیں بڑھایا۔“
۔” احمد ندیم قاسمی کی شخصی کمزوریاں اور ان کا بڑھاپا ان کے آڑے آرہا ہے، اسی لیے ان کو مشاعروں سے نکال دیا جاتا ہے یا بلایا ہی نہیں جاتا، مجھے تو ان پر رحم آتا ہے،“ ۔
۔” عطاءالحق قاسمی کی شاعرانہ حیثیت کو نذیر قیصر نے مشکوک قرار دیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ وہ ان (عطاءالحق قاسمی) کو غزلیں لکھ کر دیتے رہے ہیں ۔“
ماہنامہ صدائے انقلاب، لاہورا مئی 1990
٭
۔” میں تو احمد ندیم قاسمی کا نیاز مند ہوں، ان کا خورد ہوں، ان کی بے پناہ عزت کرتا ہوں، انہیں ادب میں ان کے شایان شان مقام دیتا ہوں۔ میں نے حال ہی میں ان کی 79 ویں سالگرہ اپنے گھر پر منائی۔“
روزنامہ رفاقت لاہور ، 2 جنوری 1996
٭

’آپس کی بات ‘ کی قیمت ساڑھے چار سو روپے ہے، ہم نے زندگی میں پہلی مرتبہ قیمت دے کر ادبی تنازعات ’مول ‘لیے ہیں ، لیکن اس کے بغور مطالعے کے بعد ہم پر کئی انکشافات ہوئے جن کے بعد یہ سودا ہمیں گراں محسوس نہیں ہوتا۔

اول: ڈاکٹر سلیم اختر عید کے دن بیت الخلا میں بیٹھے رہتے ہیں۔
دوم:ڈاکٹر انور سدید دریائے جہلم کی بڑی طغیانی کے دنوں میں پیدا ہوئے تھے۔
سوم : ڈاکٹر وزیر آغا ا پنے خلاف لکھے دشنام کے پشتاروں کو پڑھتے ہی نہیں تھے، وہ سب تو ڈاکٹر انور سدید نہ صرف مزے لے کر پڑھا کرتے تھے بلکہ ان کے جوابات بھی ایک عجیب لطف اور انبساط کے ساتھ دیا کرتے تھے۔
چہارم : ڈاکٹر انور سدید ایک نجیب الطرفین راجپوت ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ان کے آباءو اجداد نے کب اسلام قبول کیا تھا، یہ دوسری بات ہے کہ اس بات کا علم ڈاکٹر سدید کو بھی نہیں ہے ( بحوالہ:1991 کا انٹر ویو)
پنجم : ڈاکٹر انور سدید کو زبان دراز سرگودھوی کا خطاب جناب عطاءالحق قاسمی نے دیا تھا۔
ششم : عطاءالحق قاسمی صاحب کو جوابی حملے میں اللہ دتہ کالمی کا خطاب دینے والے ڈاکٹر انور سدید تھے۔
ہفتم : ڈاکٹر انور سدید کو ’ وزیر آغا کا مزارع ‘ کا خطاب ڈاکٹر سلیم اخترنے دیا تھا۔
ہشتم : ڈاکٹر انور سدید، پانی سے نہیں بلکہ ڈاکٹر وزیر آغا کے علم کی چاندنی سے غسل کرتے تھے۔
نہم : مشفق خواجہ بنیادی طو ر پر ایک ایسے محقق تھے جو پرانی کتابوں میں سے اغلاط تلاش کرکے ان کی تصحیح کرتے ہیں۔ (یہ جان کر ہمیں اس لیے اور زیادہ افسوس ہورہا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے ہم مشفق خواجہ صاحب کو ایک اہم ادبی شخصیت جان کران کے سینکڑوں کالمز کا ایک انتخاب مرتب کررہے ہیں اور اب یہ کام ہمیں رائیگاں جاتا محسوس ہورہا ہے۔ )
دہم: یہ ’ دہم ‘ ہمارے قارئین کے سر پر دھم سے لگے تو پیشگی معذرت: ڈاکٹر انور سدید نے خلیج کی جنگ صدر جارج بش کے ساتھ بغداد میں لڑی تھی، وہ اس فوجی طیارے میں بھی سوار تھے جو فوجی بنکروں میں گھس گیا تھا، وہ بوسنیا ہرزو وینا کے مجاہد عبد العزیز سے بھی ملاقات کرچکے ہیں (جولائی 1993۔انٹرویو) ۔ ۔ لیکن ذرا ٹھہریے! یہ تمام جنگی معرکے انہوں نے خواب میں سر کیے ہیں، حقیقی زندگی کے ادبی معرکوں میں وہ حریفوں کے بنکروں میں گھسنے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں، یہ ہم ان کے زندہ بچ جانے والے حریفوں سے دریافت کریں گے۔
گیارہ: ڈاکٹر انور سدید ایک اچانک موت کے خواہشمند ہیں، وہ کہتے ہیں کہ انہیں رحمان مذہب جیسی موت پسند ہے جو لکھتے لکھتے اس دنیا سے کوچ کرگئے تھے۔ (کاش کہ کوئی ادب کا محقق ان لوگوں کی فہرست بھی مرتب کرے جو ڈاکٹر صاحب کی تحریریں پڑھتے پڑھتے اس دنیا سے کوچ کرگئے ہیں )

کتاب ’آپس کی باتیں‘ ،کے آخر میں پروفیسر صابر لودھی کا ایک تبصرہ شامل ہے، وہ لکھتے ہیں:
جب انور سدید محکمہ انہار کے طویل و عریض بنگلے سے نکل کر اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہوئے تو بے حد خوش تھے۔ ان کے پرانے ساتھی نے پوچھا:
” اس مکان میں دل لگ جائے گا “؟
انور سدید نے مسکرا کر جواب دیا:
” میں طویل عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں پہنچ کر انسان کو چھ فٹ زمین کے بارے میں سوچنا چاہیے۔“

ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں دست بدستہ عرض ہے کہ ’آپس کی باتیں‘ کے مطالعے کے بعد اس کے قاری کو چھ فٹ زمین ہی کا خیال آئے گا۔

ممکن ہے کہ بہت سے لوگ یہ اعتراض کریں کہ ہم نے ’آپس کی بات‘ میں جملہ معترضہ پر مبنی اقتباسات ہی کیوں نکالے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جب ملک مقبول احمد ، ڈاکٹر سلیم اختر ، عطاءالحق قاسمی یا احمد ندیم قاسمی کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب مرتب کریں گے تو جواب آں غزل کے طور پر اس میں سے بھی ہم اقتباسات پیش کریں گے۔
 

image
آپس کی باتیں۔مرتب: ملک مقبول احمد۔مقبول اکیڈمی، لاہور۔2011
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300647 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.