بی بی پور، ضلع جہان آباد، بہار
میں پیدا ہونے والے پروفیسر وہاب اشرفی نے اپنی خودنوشت ’قصہ بے سمت زندگی
کا‘ کے عنوان سے2008میں تحریر کی تھی، دو برس کے قلیل عرصے میں 2010میں اس
کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔دورہ ہندوستان کے دوران ڈاکٹر فاطمہ حسن کو مصنف
نے خودنوشت کی ایک کاپی اپنے دستخط کے ساتھ پیش کی، کتاب کراچی آئی اور
مشفق خواجہ مرحوم کے ہم زلف پروفیسر ذوالفقار مصطفی ،جنہیں خواجہ صاحب
ازراہ تفنن ’ہم زلف کار‘ کہتے تھے، اسے فاطمہ حسن سے عاریتا لے آئے۔ادھر
پروفیسر صاحب سے اس کتاب کی نقل بنوانے کی درخواست کرنے میں ہمیں کوئی عار
نہ تھی۔
سترہ ابواب پر مشتمل خودنوشت میں پروفیسر وہاب اشرفی نے اپنی زندگی کے
حالات ، سیاسی واقعات، نوکری کے مسائل، واقف کاروں اور دوستوں کا احوال
وغیرہ تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ البتہ پڑھنے والوں کے ساتھ یہ ستم بھی روا
رکھا ہے کہ کتاب کے ابتدائی باب میں اپنے خاندان والوں کا تذکر ہ اس طور
کیا ہے کہ قاری ان کے بچوں، بچوں کے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کی
تفصیل پڑھتے پڑھتے اکتا جاتا ہے اور اسے یہ خودنوشت سے زیادہ مصنف کا
خاندانی شجرہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ کتاب کا انتساب بھی انہوں نے اپنے پوتے
پوتیوں کے نام کیا ہے۔
قصہ بے سمت زندگی کا، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوئی ہے۔368
صفحات پر مشتمل اس کتاب کی بھارت میں قیمت 400روپے مقرر کی گئی ہے۔کتاب کے
پیش لفظ کا پہلا جملہ ہے: ”میں نے اپنی آپ بیتی کیوں قلم بند کرنا چاہی، اس
کا سراغ مجھے خود نہیں ملتا۔“ ۔کتاب کے حرف بہ حرف مطالعے کے بعد ہم
پروفیسر صاحب کے ہم خیال ہوگئے ہیں۔پیش لفظ میں خودنوشت سوانح عمریوں کے
باب میں ایک جگہ ساقی فاروقی کی خودنوشت ’پاپ بیتی ‘ کو ’ پاپ نامہ ‘ لکھا
گیا ہے۔ساقی فاروقی خوش قسمت ہیںکہ ان کی ’پاپ بیتی ‘کو اس قدر شہرت مل رہی
ہے کہ اب ’پاپوں ‘سے بھرپور اس آپ بیتی کے متبادل نام بھی تجویز کیے جانے
لگے ہیں ۔ اسی طرح یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ ’بدنام عورت کی کتھا ‘ کے
عنوان سے فہمیدہ ریاض نے اپنی خودنوشت تحریر کی ہے۔فہمیدہ ریاض نے شاید یہ
خودنوشت ، کشور ناہید کی آپ بیتی ’بری عورت کی کتھا‘ کی ٹکر پر لکھی ہے اور
انہیں کی طرح اسے سب سے پہلے ہندوستان سے شائع کروایا ہے ، ہم منتظر ہیں کہ
فہمیدہ ریاض اسے پاکستان سے کب شائع کرواتی ہیں،ا س وقت تک ہم ان کی شاعری
پڑھ کر ہی کام چلا لیں گے ۔
وہاب اشرفی تقسیم ہند کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تین چار دنوں
کے محاصرے کے بعد بلوائی گاؤں میں داخل ہوگئے، ایک کے مقابلے پر تین سو کا
معاملہ تھا، گاؤں کی اکثر عورتیں کنویںمیں چھلانگ لگا کر جان دیتی رہیں۔
کنواں لاشوں سے پٹ گیا، بلوائی اوپر سے پتھر بھی پھینکتے رہے کہ کوئی زندہ
نہ بچ جائے۔ ایک عورت نے اپنے دودھ پیتے بچے سمیت کنویں میں کود گئی، کسی
نے کنویں میں ایک ٹوکری بھی پھینک دی جو اس عورت کے لیے پتھروں سے بچاؤ کا
سبب بن گئی۔تین روز بعد پولیس گاؤں میں آئی اور تانک جھانک شروع ہوئی تو
ماں اور اس کے بچے کو بے ہوشی کی حالت میں کنویں سے نکالا گیا۔ بعد میںماں
کا انتقال ہوگیا اور بچہ پاکستان چلا گیاجہاں وہ ادھیڑ عمر ہوکر زندگی بسر
کررہا ہے۔
وہاب اشرفی نے اپنے خاندان کے کئی لوگوں کے پاکستان ہجرت کرجانے کا تذکرہ
تفصیلا ” ذکر کیا ہے۔ لیکن اس انداز سے کہ گویا یہ بھی ایک فاش غلطی تھی ،
پاکستان جانے والا ان کا کوئی عزیز خوش نہیں رہا۔اپنے پھوبھی زاد بھائی
عبدالمنان کے بارے میں (ص94)لکھتے ہیں :
” وہ بیحد ذہین آدمی تھے لیکن المیہ یہ ہوا کہ وہ بھی ایک طرح سے ہجرت
کرگئے، ریلوے کے ملازم تھے، جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ہندوستان میں ملازمت
کریں گے یا پاکستان میں تو انہوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔یہ فیصلہ
ان کے لیے ایک بہت بڑی ٹریجڈی تھی۔ پاکستا ن کے طور طریق سے ہمیشہ نالاں
رہے ۔اس حد تک کہ اپنے فیملی کے ممبران کو ہندوستان ہی میں رکھتے، گاہے
گاہے ہندوستان آتے اور اپنے کرب کا اظہار کرتے۔“
پروفیسر صاحب کے اپنے لیے ان کا ہندوستان میں رہنا کس قدر سود مند ثابت ہوا
، اس کا اندازہ ان کی خودنوشت کے پندرھویں باب ’ میری گرفتاری‘ کے مطالعے
کے بعد ہوتا ہے، یہ گرفتاری اس وقت ہوئی جب پروفیسر شمس الرحمان فاروقی اور
برطانیہ سے آئے ہوئے قیصر تمکین ان کے گھر رات کے کھانے پر مدعو
تھے۔پروفیسروہاب اشرفی خوشی خوشی گھر آئے اور دھر لیے گئے۔پولیس ان کے
استقبال کے لیے پہلے ہی سے موجود تھی۔ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بہار
یونیورسٹی کے سروس کمیشن کے چیرمین کی حیثیت سے امیدواروں کے انتخاب میں
’مسلمانوں‘ کو اولیت دی تھی۔ اس بارے میں وہ صفحہ343 پر لکھتے ہیں :
” بائیس فیصد مختلف درجات کے مسلمان کامیاب ہوئے تھے، ان میں اردو، فارسی
اورعربی کے بھی لوگ تھے، یہ انتخاب تاریخی تھا اور بہت سے لوگوں کے لیے
ناقابل قبول۔ میرے خلاف ایک خاص حلقے میں مخالفت کی لہر دوڑ گئی اور مجھے
زک دینے کے کتنے ہی پروگرام بنتے اور بگڑتے رہے ۔“
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا، پروفیسر وہاب اشرفی رانچی یونیورسٹی سے پٹنہ
یونیورسٹی منتقل ہوناچاہتے تھے اور اسی سلسلے میں کسی انتظامی عہدے کے حصول
کی خاطر انہوں نے بہار کے وزیر اعلی لالو پرشاد یادو سے ملاقات کی ٹھانی،
ابتدا میں ناکامی کے بعد لالو پرشاد کے دست راست ڈاکٹر رنجن یادو سے جا
ٹکرائے جو ایک سخت متعصب انسان تھے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے اس قصے کی
دردناک تفصیل اپنی خودنوشت کے نویں باب ’سیاست کی گلیاں اور نئے مصائب‘ میں
بیان کی ہے۔
پروفیسر وہاب اشرف نے پاکستانی نقاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے متعلق کتاب
میں ایک واقعہ بیان کیا ہے:
” غالب اکیڈمی کا دہلی میں سیمینار تھا، اسلوب احمد انصاری اپنا مقالہ پیش
کررہے تھے، ڈائس پر پاکستان کے نقاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری موجود تھے، فرمان
صاحب نے انتہائی غصے اور جذبات سے ُپر اپنی رائے زنی میں اس کا انکشاف کیا
کہ اسلوب صاحب کا مقالہ ان کے کسی مقالے کا چربہ اور سرقہ ہے اور انہوں نے
یہ مال مسروقہ خود ان کے سامنے پیش کرنے کی جرات کی ہے۔موصوف کا انداز
انتہائی جارحانہ او ر غیر علمی تھا۔سرقے کی تفصیل میں وہ نہیں گئے اور
مسلسل غصے کا اظہار کرتے گئے، یہاں تک کہ ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگے۔
ایسا لگا کہ فرمان فتح پوری نشے میں ہوں، حالانکہ ایسا نہیں تھا، شایدان کا
بلڈ پریشر بڑھا ہوا تھا ، لہذا وہ توازن کھو بیٹھے، میں نے مداخلت کی اور
صاف صاف کہا کہ جب تک دونوں مقالے سامنے نہ ہوں، یہ باتیں فضول ہیں“
ایک دوسرے موقع پر وہ پاکستانی نقاد محمد علی صدیقی سے الجھ پڑے تھے، انہی
کی زبانی سنیے:
’ ’ مجھے مشرق وسطی کاایک سفر یاد آرہا ہے۔، موقع ادبی انعام کی تقریب کا
تھا، میں جیوری کے ممبر کی حیثیت سے وہاں موجود تھا۔اس تقریب میں میری
ملاقات مشہور ترقی پسند پاکستانی نقاد محمد علی صدیقی سے ہوئی لیکن کیا کیا
جائے کہ ایک ادبی مسئلے میں ہم دونوں الجھ گئے، جناب محمد علی صدیقی کا حال
یہ ہوا کہ ان پر کپکپاہٹ طاری ہوگئی ۔میں نے محسوس کیا کہ وہ پسینے سے
شرابور ہورہے ہیں ۔مجھے بعد میں بتایا گیا کہ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض
رہے ہیں اور ایسے موقعوں پر ان کے خون کا دباؤ لازما ” بڑھ جاتا ہے۔
میراحال یہ کہ میں بلڈ پریشر کا مریض تو ہوں لیکن ذیا بطیس کا مرض ایک عرصے
سے مجھے شکار بنائے ہوئے ہے لیکن ایسی کوئی کیفیت مجھ پر طاری نہیں ہوتی۔“
افسوس کہ پروفیسر وہاب اشرفی کو زندگی میں دو ہی پاکستانی ادیبوں سے واسطہ
پڑا اور شومئی قسمت سے دونوں کے بلڈ پریشر، وہاب صاحب سے ملاقات کے بعد یا
ان کی مداخلت کے باعث ، اپنی انتہا کو جاپہنچے۔محمد علی صدیقی صاحب کے باب
میں ان کا یہ جملہ کہ ” ایسے موقعوں پر ان کے خون کا دباو ¿ لازما” بڑھ
جاتا ہے“، حد درجے معنی خیز ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدیقی صاحب
ایسے موقعوں سے اکثر دوچار ہوتے رہتے ہیں یا خدانخواستہ ان کی تنقیدی
تحریروں کے یہ نتائج اکثر برآمد ہوتے ہیں۔ وہاب صاحب کا یہ دعوی کہ اس
جھگڑے کے دوران دوران وہ نارمل رہے اور ایسی کوئی کیفیت ان پر طاری نہیں
ہوئی، سمجھ میں آتا ہے، یقیننا ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے جھڑپ کے بعد وہ
ذہنی اور جسمانی طور پر اگلی جھڑپ کے لیے تیار ہوکر گئے ہوں گے۔ ہم ڈاکٹر
فرمان فتح پوری سے ،جو ہمارے گھر کے بالکل قریب رہتے ہیں، ملاقات کا سوچ
رہے تھے ، پروفیسر وہاب کے بیان کردہ مذکورہ بالا واقعے کے بعد اپنے ارادے
پر نظر ثانی کرلینا ہی ہمیں بہتر نظر آرہا ہے۔و یسے بھی اس ملاقات کا واحد
مقصد ڈاکٹر صاحب کی خود نوشت ’بلاجواز‘کے بارے میں اپنے ایک کرم فرما کے
تبصرے(’ڈاکٹر صاحب کی خودنوشت بلاجواز، بلاجواز ہی لکھی گئی ہے‘) پر ڈاکٹر
فرمان فتح پوری کی رائے لینا مقصود تھا جو ان حالات میں خطرے سے خالی نظر
نہیں آرہا ہے۔
پروفیسر وہاب اشرفی نے ہندوستانی شاعر اور نقاد وحید اختر کے بارے میں بیان
کیا ہے کہ وہ ہمیشہ ایک ا ضطراب کے عالم میں رہتے تھے۔محمود ہاشمی نے وحید
اختر کے ایک مجموعہ کلام ’ پتھروں کا مغنی ‘ پر تبصرہ کیا تھا اور اس کو
گداگری کا ’ میگنا کارٹا ‘ قرار دیا تھا اور ثابت کیا کہ بھیک مانگنے والوں
کے لیے یہ شاعری بے حد مفید ہوگی۔ یہ ایک انتہائی سفاک تبصرہ تھا۔ پروفیسر
صاحب کے بقول، ’ اس کے بعد سے وحید اختر بجھے بجھے رہنے لگے‘۔ پروفیسر صاحب
کی نظر میں شایدمحمود ہاشمی کا تبصرہ کافی نہ تھا، جناب وحید اختر کو مکمل
طو ر پر’ بجھا‘ دینے کی غرض سے انہوں نے اس واقعے کے بعد الہ آباد میں فراق
گورکھپوری سے ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا:
”الہ آباد کے سیمینار میں وحید اختر علی گڑھ سے آئے تھے، اس وقت فراق
گورکھپوری خاصے بیمار ہوچکے تھے۔ وحید اختر نے جعفر رضا اور مجھ سے کہا کہ
فراق کے یہاں جانا چاہیے ، وہ جب سے علیل ہوئے ہیں فلسفے پر زیادہ باتیں
کرنے لگے ہیں، میں انہیں بتاؤں گا کہ فلسفے کے عمیق مباحث کیا اور کیسے
ہوسکتے ہیں۔ ہم لوگ فراق کے در دولت پر حاضر ہوئے۔ وہ ایک معمولی سا کپڑا
اپنے نچلے حصے پر ڈالے ہوئے تھے اور کھیرے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے منہ میں
رکھے ہوئے تھے۔ علیک سلیک کے بعد کہنے لگے کہ آپ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ
میں کھیرا کھا رہا ہوں، نہیں، میں تو اسے محض زبان کے ایک حصے سے دوسرے تک
ادھر ادھر کررہا ہوں، اس لیے کہ میں انہیں کھانے کی سکت نہیں رکھتا۔پھر نہ
معلوم کیسے Finite اور Infinite کی بات آگئی۔اب کیا تھا۔ فراق شروع ہوئے تو
ختم ہونے کا نام نہیں۔ فلسفیوں کے نام الگ لیتے، قرآن سے مثالیں پیش کرتے
اور ہندو دیو مالا کی طرف رخ کرتے، وہ بولتے رہے اور ہم سب بس گم سم سنتے
رہے ۔وحید اختر کو جیسے چپ سی لگ گئی۔“
پروفیسر شمس الرحمان فاروقی سے اشرفی صاحب کو ایک تعلق خاطر ہے ، کتاب کے
پہلے ایڈیشن کو پڑھ کر فاروقی صاحب نے انہیں لکھا کہ ”پوری کتاب سے مصنف کے
مطالعے کی کیفیت کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا اور یہ کمی کھٹکتی ہے۔“ پروفیسر
فاروقی کی یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں جناب مصنف
نے ’میرا مطالعہ‘ کے عنوان سے ایک پورا باب لکھ ڈالاجس میں لاتعداد اردو و
انگریزی کتابوں کے نام درج کردیے ، حتی کہ اس میں فاروقی صاحب کے ناول ’کئی
چاند تھے سر آسماں‘ کا ذکر بھی کردیا ۔پروفیسر وہاب اشرفی کے پاس اس ناول
کوپڑھنے کا وقت نہیں تھا اور ادھر خودنوشت کا دوسرا ایڈیشن شائع کروانے کی
جلدی بھی تھی لہذا وہ یہ تبصرہ کرگئے:
” اس وقت میرے سامنے شمس الرحمان فاروقی کا ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘
ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے جس کے سلسلے میں ، میں فی الحال کوئی رائے
نہیں دے سکتا ، لیکن اگر زندگی نے کچھ مزید فرصت دی تو تفصیلی مطالعے کی
کوشش طویل مضمون کی صورت میں سامنے آجائے گی“
ڈاکٹر اسلم فرخی کے پڑوس میں ایک ماہر مالیات رہتے ہیں اور بقول ڈاکٹر فرخی
’بڑے مصروف انسان ہیں‘، وہ ڈاکٹر صاحب سے پروفیسر فاروقی کا ناول پڑھنے کی
غرض سے لے گئے۔ڈاکٹر فرخی بیان کرتے ہیں:
’ ’ ان صاحب نے ’کئی چاند تھے سر آسمان‘ کے ابتدائی بیس صفحات پڑھنے کے بعد
اس کتاب کو اس طرح پڑھا کہ ہر چیز سے بے نیازو بیگانہ ہوگئے۔ ایک اور صاحب
نے جو ہمارے ملک کے بہت بڑے سائنسدان ہیں، مجھ (اسلم فرخی) سے کہا کہ کہ
میری بیوی نے مجھے اس کتاب میں غرق دیکھ کر یہ پوچھا کہ آج تک تم نے کوئی
کتاب اس انہماک سے نہیں پڑھی، اب تمہیں کیا ہوگیا ہے؟“
ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ماہر معاشیات پاکستان کے دیوالیہ
ہونے کی پیش گوئی کررہے ہیں، ایک ہاہا کار ہے جو ہر طرف مچی ہوئی ہے، بڑے
بڑے ادارے معاشی طور پر تباہی کے قریب ہیں ، نوبت یہ آگئی ہے کہ اکثر
اداروں میں تنخواہیں کی بر وقت ادائیگی بھی انتظامیہ کے لیے مشکل ہوگئی ہے،
ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں بھی پریشان کن اطلاعات معمول کا حصہ بن کر رہ
گئی ہیں، ادھر ہم پریشان تھے کہ آخرحالات کے اس نہج پر پہنچنے کے اسباب غیر
واضح کیوں ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی کے اس بیان سے صورت حال واضح ہوگئی ہے۔
ہمارے اہم ماہر معاشیات اور ملک کے بہت بڑے سائنسدان ’کئی چاند تھے سر
آسماں ‘ کے مطالعے میں مصروف رہے ہیں، اس انداز سے کہ ’ہر چیز سے بے نیاز و
بیگانہ ہوگئے‘، ادھر بہت بڑے سائنسدان صاحب کی بیگم ان سے سوال کرنے پر
مجبور ہوگئیں کہ ’ اب تمہیں کیا ہوگیا ہے؟‘۔ہم ان ماہر معاشیات اور
سائنسدان صاحب سے درخواست کریں گے کہ اگر وہ ’کئی چاند تھے سر آسمان‘ کے
مطالعے سے فارغ ہوگئے ہوں تو سر آسماں منڈلانے والے اندیشوں پر بھی توجہ
کرلیں۔
اور تو اور، پروفیسر وہاب اشرفی کو بھی یہ ناول ایک چیلنج کی صورت لگا ہے۔
خودنوشت میں ایک دلچسپ شخصیت سید مظفر نواب کا تفصیلی ذکر ہے۔ یہ ایک
انوکھی شخصیت کے مالک تھے، بمبئی کی فلمی دنیا سے ان کا تعلق تھا، کئی
فلمیں بنائی جو سب کی سب فلاپ ہوگئیں۔بقول پروفیسر وہاب، نرگس کی والدہ
(جدن بائی) مظفر نواب کے والد گرامی کی منظور نظر تھیں ۔گیا میں نواب صاحب
کا مکان ظفر منزل کے نام سے مشہور تھا، یار باشی کا یہ عالم تھا کہ روزانہ
شام کے وقت پینے پلانے کی محفلیں جم جاتی تھیں، ظفر منزل کی الماریاں نت
نئی شرابوں کی بوتلوں سے بھری رہتی تھیں۔ دساور کی دختر رز سے انہیں خاص
دلچسپی تھی۔ لیکن ایسی روش سے تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہوسکتا ہے، سو
وہی ہوا، جائداد کے ساتھ نواب مظفرکو مکان کے کئی حصے بھی فروخت کرنے پڑے،
اپنے ہی مکان کے احاطے میں ایک چھوٹے مکان کی تعمیر کی اور وہاں منتقل ہوئے
لیکن جلد ہی اسے بھی چھوڑنا پڑا اور آخر میںایک کمرے کے مکان میں سکونت
اختیار کی۔وہ کہتے تھے کہ جس دن مجھے قرض لینے کی حاجت ہوئی، میں خو کو شوٹ
کرلوں گا، لیکن اس کی نوبت نہیں آئی اور اللہ تعالی نے انہیں بلالیا۔
پروفیر وہاب بیان کرتے ہیں کہ کہ نواب مظفر کو ہزاروں فحش اشعار یاد تھے
اور وہ بلاتکلف محفلوں میں انہیں سنایا کرتے تھے۔لیکن ان کی شخصیت کا یہ
پہلو بھی تعجب انگیز تھا کہ انہوں نے قرآن کی تفسیر بھی لکھنی شروع کی تھی
۔ پروفیسر وہاب بمبئی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:” میں اپنے شعبے کے لڑکوں
کو لے کر بمبئی گیا ہوا تھا، وہاں اچانک نواب مظفر سے ملاقات ہوگئی، بولے
بمبئی دیکھنا نصیب ہوا ؟ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔بولے سارے بچوں کو
سینما بھیج دیجیے۔ انہوں نے سب کے ٹکٹس کا انتظام کیا اور طالب علم خوشی
خوشی چلے گئے۔ وہ میرے ساتھ ساتھ رہ گئے اور مجھے ایک کلب میں لے گئے جہاں
فحش ڈانس ہورہا تھا، میں نے آج تک ایسا کوئی رقص نہیں دیکھا تھا ، جب میں
وہاں سے نکلا تو میر ی آنکھوں تلے اندھیرا سا چھا گیا، طرفہ تماشا یہ کہ
نواب مظفر بیچ میں اٹھ گئے، مجھے اکیلا چھوڑ گئے، یہ کہتے ہوئے کہ کل انہیں
حج کے لیے روانہ ہونا ہے، بہت سے کام ہیں۔“
اپنی خودنوشت کے صفحہ339پر پروفیسر صاحب اپنی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ ” سال چھ ماہ میں میرا پاؤں بھاری ہوجاتا ہے، لفظ بھاری سے آپ
کو ہنسی آسکتی ہے“
ہمیں ہنسی تو خیر بالکل نہیں آئی بلکہ ایک طرح کی تشویش لاحق ہوگئی، ساتھ
ہی اپنی لاعلمی پر افسوس بھی ہوا کہ اس ترقی یافتہ دور میں ہم اپنے پڑوسی
ملک میں رونما ہونے والے ایک اہم ترین جینیاتی انقلاب کی خبر سے محروم رہے
۔
غرض یہ کہ ’قصہ بے سمت زندگی کا‘ مجموعی طور پر ایک اہم خودنوشت ہے، یہ
پروفیسر وہاب اشرفی کی بے سمت زندگی کا احوال ہے لیکن کتاب پڑھ کر پڑھنے
والوں کے بے سمت ہونے کا ڈر جاتا رہتا ہے۔ |