میرا تعلق اس ملک کی غریب کلاس سے ہے جس کے حکمرانوں نے 14 اگست 1947 خ س سے لے کر اب تک ہمیں استعمال ہی کیا ہے۔ کبھی اپنے سیاسی جلسوں میں نعرہ لگنے کے لئے ، تو کبھی اپنے پیچھے پیچھے تالیاں بجانے کے لئے، وہ جو منفق ہیں وہ اپنی تقریریں خوبصورت بنانے کے لئے غریبوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ ہم ہیں کہ وعدوں پر اعتبار کرتے ہی چلے جاتے ہیں ترقی تو ہم سے دوُر ہی تھی اب تو نوبت بھوک اور افلاس سے کہیں آگے بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ میرے دیس میں لوگوں نے میری کلاس کو سٹرھی کی طرح استعمال کیا اور مذہب کا نام لیا اعلیٰ ایوانوں میں پہنچے تو سب بھول، پھر تو ظلم ہی کیا۔ کبھی منہگائی کی صورت میں تو بجا ٹیکس لگا کر تو کبھی انصاف سے انکاری ہو کر تو کبھی آواز کو دبا کر الغرض آنکھوں دیکھا حال یہ ہے کہ غریب ، غریب سے غریب ترہوتا گیااور امیر، امیر سے امیر ہوتا گیا ۔ دہرا معیارِ زندگی اپنایا اور عیش وعشرت کی زندگی نسل در نسل گزار رہے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان سے باہر مسیحی اورمسحیت اچھی لگتی ہے اس لئے تو حصولِ تعلیم کے لئے اپنے بچوں کو یورپ یا دوسرے ممالک میں بھاری رقم خرچ کرکے بھیجا جاتا اور مثالیں دینے کے لئے پاکستان آجاتے ہیں ۔ مذہب نیکی کرنے ، ہمدردی،اخوت و بھائی چارے، احترامِ انسانیت اور روادری کا درس دیتا ہے ۔ لیکن عملی طور پر ایسا دکھائی نہیں دیتا ، شر و نفرت کا بازار گرم ہے ہر مسجد میں باقاعدگی سے پانچ وقت اذان دی جاتی ہے جو مومنین کے لئے دعوتِ نماز ہوتی ہے لیکن مسجدیں خالی ہوتی ہیں، درس دیا جاتا کوئی سنتا نہیں ۔ دوسری طرف ایک بندہ مسجد سے اعلان کرتا ہے توجو جڑانوالہ میں ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے اُس کودوبارہ بیان کرنے کا حوصلہ نہیںکیونکہ میں جس انجیلِ مقدس کو چوم کر تلاوت کرتا ہوں ، اُس کو جلایا گیا ، پاک صلیب جو یسوع المسیح کی قربانی اور ہماری شناحت ہے اُس کی بے حرمتی کی گئی۔میں اپنے ہی جسم کی ذلیت ، اپنے گھر کی چاردیواری کا تقدس پامال ہوتے ہوئے کیسے بیان کرو، میں کیسے کہوں کہ پاکستان کی سرزمین میں شدید پسند بہت طاقتوارہیں ۔اب ڈر لگتا ہے ہمارے تعلیمی اداروں نے کبھی قوم ، رنگ ، نسل اور مذہب کی تفریق نہیں سب کو یکساں تعلیم د ی اب وقت آگیا کہ ہمارے نوجوان بھی آفسر بن سکیں تو وہ برداشت نہیں ہو رہا ، اچھا ہو گا کہ برداشت کی ثقافت کو پروان چڑھنے دیں ، اپنے اعمال سے دوسروں کو اپنے اعلیٰ ہونے کا اساس دلائیں نہ کہ طاقت سے۔ انبیاءکے پیروں کار بنیں تاکہ ہمارے اعمال سے اُن کے اُمتی ہونے کی خوشبو مہکے ۔ پاکستانی مسیحیوں کے زخم بہت گہرے ہیں، بچے سکول جانے کے لئے تیار نہیں ، مزدور کب تک میں گھربیٹھ سکتا ، خیرات سے کب تک گھر کا نظام چلے گا۔ حالات پریشان کن ہیں ، حل دکھائی نہیں دیتااس میں کوئی شک نہیں مسلمان بھی ہمارے دُکھ میں برابر کے شریک ہیں ۔ ذی شعور لوگوں نے غلط کو غلط ہی کہا ہے اور ہمارے ساتھ بھی کھڑے ہیں۔ دعاگو ہوں کہ جتنی اچھی باتیں ہم مذہب کے بارے میں کرتے ہیںاُتنے اچھا اعمال بھی کریں ۔ تما م رہنماوں کو بہت کام کرنا ہے تاکہ وقت کے ساتھ ہم آہنگی کی راہوں پر معاشرہ کو ڈال سکے ۔ ہمیں رہنما پیدا کرنا ہیں تاکہ ہماری تقسیم در تقسیم کا عمل رُک جائے اس سے ہم کمزور ہوتے ہیںاور آج کمزور کو قدموں نیچے رو ندا جاتا ہے، کنارے سے لگا دیا جا تا ہے ۔ حالات سامنے ہیں اگر اب بھی ہم سب ایک نہ ہوئے تو کب ہونگے ۔ اے خدا ہمیں شرپسند عناصر سے بچا ۔ہم سب کو اپنے اپنے مذہب کی روحانیت کے مطابق زندگی گزارنے کا فضل عطاکر ۔ تمام پاکستانیوں کو انسانیت سے محبت کرنااور امن سے رہناسکھا۔ تاکہ پاکستان کو پاک سرزمین ہی رہنے د یں، ایک دوسرے کا احترام کر یں ، حق دار کوحق دیں۔ مذہبی اقدار پر عمل کریں، نفرت ختم کریں اور محبت سے بھر پور سماج ہو ۔
|