کبھی کبھی لگتا ھے کہ یہ دنیا گورکھ دھندہ ھے انسان جتنا دورنکلنے کی کوششں کرتاھے اتنا ھی پھنس جاتاھے۔کہا جاتا ھے کہ تعلیم انسان کو سدھار دیتی ھے ۔اس کو بدل دیتی ھے ۔انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ھے اوراس حیوان کو قابو رکھنےکے لیے تربیت بھت ضروری ھےاور اسکے ساتھ ساتھ تعیلم سونے پر سھاگے کا کام دیتی ھے لیکن یہ صرف کتابی سوچ ھے۔ھمارا معاشرہ ایسے ناسوروں سے بھرا ھوا ھے جن کی تعلیم بغیر تعلم اور معلم کے ھے۔کچھ لوگوں کا عمل'بغیر علم کے ھے۔ ایسے لوگوں سے بھی بعض اوقات واسطہ پڑھ جاتا ھے جن کو اپنے پڑھے لکھے ھونے سے زیادہ بڑھےباپ کی اولاد ھونے پر فخر ھے ۔ایسے لوگوں سے بندہ پوچھے کہ عادتیں تو نسلوں کا پتہ دیتی ھیں۔اور جو لوگ اپنی پہچان نہیں بنا سکتے اور اپنے پاؤں پر کھڑے نھیں ھو سکتے ان کی نسلیں پھر وڈیروں کے اثرو رسوخ پر چلا کرتی ھیں۔کیونکہ ذندہ انسان کو سہاروں سے ذیادہ قوت بازوپر بھروسا ھونا چاھیے۔اور ھمارامعاشرے کا المیہ ھے کہ ھم بچوں کی تربیت کرتے وقت خود داری نھیں سکھاتے ھیں انھیں عورت کی عزت کر نانھیں سکھاتے ھیں ۔درست اور غلط, سچ حق کا فرق نہیں سکھاتے ھیں ۔بچے کی سب سے پہیلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ھوتی ھے ۔اور اگر یھاں سے تربیت غلط ھو جاۓ تو ساری بنیاد غلط ھو جاتی ھے جس عمارت کی بنیاد غلط ھو وہ پوری عمارت ھی تباہ ھو جاتی ھے جس کا کھڑا ھونا آس پاس کے لیے بھی خطرہ ھے اور ایسا ھی حال انسانوں کا ھے ۔ایک غلط سوچ کئ گھروں کو جلا دیتی ھے۔تعلیم دیتی تو شعور ھے لیکن ھم اپنے بچوں کو ذریعہ معاش کے لیے یا دوسروں سے افضل بنانے کے لیے دیتے ھیں ۔اور اس دوڑ صرف مشینیں ھی وجود میں آتی ھیں۔جو پیسے کمانے کے چکروں میں انسانیت کو کہیں پیچھے چھوڑ آتی ھیں۔اور اس یہ کام نسل در نسل چلتا ھے اور آخر میں ایسا معاشرہ جنم لیتا ھے جس کا پڑھا لکھا وڈیرے طرز کا طبقہ جو دین اور زمہ داری سے دور ھو کے صرف اپنی شہ پر شیطانوں کو پروان چڑھاتا ھے۔ابھی بھی وقت ھے اگر ھم خود کو بدلیں تو ھر ایک کا نقطہ نظر بدل سکتا ھے اور ایک صحت یافتہ ,ترقی کی راہ پر گامزن معاشرے وجود میں آ سکتا ھے۔
|