خلیج کے کئی ممالک میں جس طریقے سے اسرائیل سے تعلق بنانے کے
چکر میں فلسطینیوں اور ان کی سیاسی و جہادی گروپوں کو بائے پاس کرکے اسرائیل
اور یہودیوں ایک ایک کرکے اسرائیل سے گلے مل رہے تھے اور ان کی دیکھا دیکھی
مسلم امہ کے کئی اور صف اول کے ممالک اور پس پردہ پاکستان کی سیاسی جن میں پیش
پیش ( ن لیگ و پیپلز پارٹی ) اور مذہبی جماعتیں بھی خاموشی سے اسرائیل سے
تعلقات استوار کرنے والوں کی صف میں کھڑی تھیں جن میں خاص طور پر سعودی عرب
اُمہ کا ہر اوّل دستہ کا کردار ادا کرنے کے لیے پہلی صف میں کھڑا تھا، مشرق
وسطیٰ ایک بار پھر عدم استحکام اور تقسیم کا شکار ہے. اس وقت اسلامی اُمّہ کا
اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کا معاملہ پس پشت جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
فلسطین کی سب سے بڑی جہادی جماعت ”حماس“ کے مجاہدین نے ”طوفان الأقصى“ کے نام
سے اسرائیل کے خلاف اچانک ایک طوفانی آپریشن شروع کردیا ہے اور تمام دنیا کو
سرپرائز دیتے ہوئے اسرائیل کی سرحد کے اندر داخل ہوکر اس کے علاقے پر قبضہ کرکے
اس کے کئی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا اس کے بعد بیت المقدس اور غزہ میں ہونے
والی حالیہ جھڑپوں میں سینکڑوں فلسطینیوں کے شہید و زخمی ہونے کے بعد اس خطے
میں تنازع اس وقت اور مزید شدت اختیار کر گیا جب دونوں طرف سے حماس اور اسرائیل
کی جانب سے شہری علاقوں پر راکٹ اور فضائی حملے کئے گئے صرف غزہ پر اسرائیلی
حملوں میں 500 سے زائد بچوں سمیت سیکڑوں افراد شہید ہوئے اور اس ہی دوران
اسرائیل کے فضائی حملے میں فلسطینی اسپتال بھی تباہ و برباد کردیا گیا جس میں
تمام فلسطینی بچے اور مرد و خواتین مریض شہید ہوگئے.
جس کی دنیا بھر کے لیڈران اور عوام نے اسرائیل کو لعنت وملامت کی ہے. ثابت
کردیا ہے کہ اسرائیل، بقول سید حسن نصراللہ حقیقت میں ”تار عنکبوت“ ہی ہے۔ یہ
جنگ کہاں تک چلتی ہے اور کیا حزب اللہ لبنان بھی 2006ء کی طرح اس جنگ میں کود
پڑتی ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔
تشدد کے ان نئے اور تازہ ترین واقعات گذشتہ کئی مہینوں سے بڑھتی کشیدگی کی وجہ
سے سامنے آئے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع آج کا نہیں بلکہ اس کی
بنیادیں کئی دہائیوں پر محیط ہوئی ہیں . مگر عام آدمی کہ زہن میں یہی ہے کہ یہ
مسئلہ کب اور کیسے اس کی شروعات رونما ہوئیں.
جب پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کو شکست ہوئی تو اس کے بعد برطانیہ نے
فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس وقت یہاں پر عرب اکثریت میں تھے جبکہ
یہودی اقلیت میں تھے۔
اس دوران دونوں عرب ( فلسطین ) اور یہودیوں میں تناؤ اس وقت بڑھنے لگا جب عالمی
برادری نے برطانیہ کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہودی کمیونٹی کے لیے فلسطین میں
’قومی گھر‘ کی تشکیل یعنی یہودیوں کی ( آبادکاری ) کریں.
جبکہ عام یہودیوں کا یہی کہنا تھا کہ یہ ان کا آبائی گھر تھا مگر اکثریت میں
موجود فلسطینی عربوں نے اس اقدام کی مخالفت کی۔ 1920 کی دہائی سے لے کر 1940 کی
دہائی کے دوران یہاں آنے واے یہودیوں کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان
میں سے کچھ دوسری جنگِ عظیم میں یورپ سے ہولوکاسٹ سے بچ کر آئے تھے۔
مگر اس دوران یہودیوں اور عربوں ( فلسطین ) کے درمیان، اور برطانوی حکومت کے
خلاف پُرتشدد واقعات رونما ہونے لگے۔ پھر سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے
ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی
ریاست ہو اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو
گا۔ اس تجویز کو یہودی رہنمائوں نے تو من و عن تسلیم کر لیا جبکہ عربوں (
فلسطینیوں ) نے ایسے بکثرت مسترد کر دیا اور اس پر عملدرآمد نہیں ہوا سنہ 1948
میں برطانوی حکمران یہ مسئلہ حل کیے بغیر ہی یہ خطہ چھوڑ کر چلے گیے۔ ادھر
یہودی رہنمائوں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔
بہت سے عربوں ( فلسطنیوں ) نے اس کی مخالفت کی اور علاقے میں جلسے و جلوس رونما
ہونے پھر جنگ چھڑ گئی۔ ہمسایہ عرب ممالک کی فوجوں نے بھی اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر
حصہ لیا۔ لاکھوں عرب ( فلسطنیوں ) کو ان کے گھروں سے بیدخل کر دیا گیا اور
انھیں جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ اس واقعے کو النکبہ (یعنی تباہی) کے نام سے
یاد کیا جاتا ہے۔ اگلے برس جنگ بندی کا اعلان ہوا تو اسرائیل نے زیادہ تر خطے
کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
اردن نے جو خطہ حاصل کیا اسے ویسٹ بینک یعنی غربِ اردن کہتے ہیں اور مصر نے عزہ
کی پٹی سنبھال لی۔ بیت المقدس کے مغربی حصے کو اسرائیلی فورسز نے سنبھال لیا
جبکہ اردن کی فوج نے مشرق کا کنٹرول لے لیا۔ اگرچہ یہاں پر کوئی امن معاہدہ
نہیں ہوا اس لیے ہر فریق نے اپنے مخالف پر الزام لگایا اور مزید جنگیں بھی
ہوئیں اور کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ بسلسلہ جاری ہے۔ 1967 میں پھر ایک اور جنگ
میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے ساتھ ساتھ شام میں گولان کی
پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مصر میں آبنائے سینا پر بھی یورپ اور دیگر ممالک کی
مدد سے قبضہ کر لیا۔ زیادہ تر فلسطینی، جو اب پناہ گزین بن چکے تھے، یا ان کی
آنے والی نسلیں اب غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں رہتے ہیں۔
اس کے بہت سے فلسطینی رشتہ دار اردن، شام، اور لبنان میں مقیم ہیں۔ جب سے
اسرائیل حکومت ان عرب۔ ( فلسطنیوں ) کو نہ پناہ گزینوں کو اور نہ ہی ان کی
نسلوں کو اسرائیل نے اپنے گھروں میں واپس آنے کی اجازت دی۔ اسرائیل کا کہنا ہے
کہ ایسا کرنا ان کے ملک کے لیے بہت بھاری ثابت ہو گا اور ان کی ریاست کو بطور
ایک یہودی ریاست خطرہ ہو گا۔ اسرائیل آج بھی غربِ اردن پر قابض ہے تاہم اس نے
غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لی ہیں، مگر اقوام متحدہ آج بھی اس علاقے کو مقبوضہ
مانتا ہے۔
اس وقت اسرائیل حکمران پورے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ مانتا ہے جبکہ عرب (
فلسطینی ) مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے
ہیں۔ جبکہ اس وقت دو فلسطینی علاقے ہیں جن میں سے ایک غرب اردن اور ایک غزہ کی
پٹی ہے۔ ان دونوں علاقوں کے درمیان 45 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ غرب اردن کا رقبہ
5970 سکوائر کلومیٹر جبکہ غزہ کی پٹی صرف 365 سکوائر کلومیٹر پر محیط ہے۔ جبکہ
غرب اردن یروشلم اور اردن کے درمیان موجود ہے جبکہ غزہ کی پٹی 41 کلومیٹر طویل
اور 10 کلومیٹرچوڑی ہے۔ غزہ کی پٹی کی سرحد کا سات کلومیٹر حصہ مصر سے ملتا ہے
اور ایک جانب بحیرہ روم واقع ہے۔
غزہ میں فلسطینی حماس برسراقتدار ہے جس نے اسرائیل سے کئی مرتبہ جنگ کی ہے۔
اسرائیل اور مصر سختی سے غزہ کی سرحدوں کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ حماس تک ہتھیار
نہ پہنچیں۔ اور دوسری جانب غرب اردن میں بین الاقوامی طور پر مانی جانے والی
عرب ( فلسطینی ) حکومت ہے جس میں فتح تنظیم کا اہم کردار ہے۔
تاہم غرب اردن غربِ اردن کہلانے والے اس چھوٹے سے علاقے میں 86 فیصد فلسطینی
ہیں جبکہ 14 فیصد لوگ اسرائیلی آباد کار ہیں جو ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جو
ایک دوسرے سے عموماً فاصلے پر موجود ہوتی ہیں۔ زیادہ تر اسرائیلی بستیاں 70، 80
اور 90 کی دہائی میں تعمیر ہوئی تھیں مگر گذشتہ 20 برسوں میں ان کی آبادیوں میں
دوگنا اضافہ ہوا۔ اسرائیل ان بستیوں کو پانی اور بجلی جیسی سہولیات فراہم کرتا
ہے اور ان کی حفاظت اسرائیل کی فوج کرتی ہے۔
اس وقت اسرائیل ، حماس و فتح حکومتوں کو امن کے لیے آگے بڑھنا ہوئیگا اگر یہ سب
اس ہی طرح ایک دوسرے پر راکٹ اور فضائی حملے کرتے رہے تو عام عوام کو شہید و
زخمی کرتے رہے اور اپنے اپنے شہروں کو تباہ و برباد کرتے رہے تو یہ اپنی آنے
والی نسلوں کو کیا چھوڑ کر جائینگے.اس وقت عرب، ایران اور مسلم اُمّہ کو او آئی
سی کے زریعے امریکہ، یورپ و اسرائیل پر زور دیکر انہیں مزاکرات کی طرف لیکر
آیں.
امن اس ہی طرح قائم ہو گا اس کے لیے دونوں جانب سے چند اقدامات ضروری ہوں گے۔
اسرائہل کو فلسطیونیوں کی آزاد ریاست کا حق تسلیم کرنا ہو گا، غزہ کی پٹی کے
محاصرہ ختم کرنا ہو گا اور مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں رکاوٹیں ختم کرنی ہوں
گی۔ دوسری جانب فلسطینی حریت پسندوں کو مزاکرات پر اپنی پیش قدمی پر دنیا بھر
کے میڈیا کو ہمنوا بنانا ہوگا.
ان کے خلاف انٹرنیشنل میڈیا میں جو مخالفت کی جارہی ہے اس کے سدباب کرنے کے لیے
اپنے ترجمانوں کے زریعہ پروپیگنڈہ کا توڑ نکالنا ہوئیگا ساتھ ہی امن کے لیے ہر
دروازہ پر دستک دیکر مسلمان کی اخلاقیات کا درس نہ بھولنا ہوئیگا اور اسرائیل
کو امن کے لیے ایک اچھے سمجھوتہ کی طرف لانا ہوئیگا اس ہی میں عرب ( فلسطین )
کی کامیابی ہے.
|