ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) گورننس کے لئے گلوبل انیشی ایٹو کو آگے بڑھائے گا، جس سے عالمی مصنوعی ذہانت کی حکمرانی میں چین کے قائدانہ کردار کا مزید عملی مظاہرہ ہوگا۔حالیہ برسوں میں ، آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی وسیع ایپلی کیشنز کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھی ہے۔ انتہائی موئثر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں سے ایک کے طور پر ، مصنوعی ذہانت نے سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے زبردست منافع لایا ہے ، لیکن اس کے ساتھ خطرات اور چیلنجز بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ،بین الاقوامی برادری کو اس ٹیکنالوجی سے سامنے آنے والے قانونی، اخلاقی اور انسانی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سیاست، معیشت اور معاشرے پر اس کے پیچیدہ اور دور رس اثرات کے بارے میں بہت تشویش ہے۔ اسی باعث مصنوعی ذہانت سے پیدا ہونے والے غیر متوقع خطرات اور پیچیدہ چیلنجوں کے پیش نظر، بین الاقوامی برادری کو فوری طور پر مصنوعی ذہانت کی حکمرانی کو مضبوط بنانے، خوبیوں سے فائدہ اٹھانے اور خامیوں اور نقصانات سے بچنے کی ضرورت ہے، تاکہ مصنوعی ذہانت کی ترقی کو مثبت سمت میں گامزن کیا جاسکے۔اس ضمن میں مصنوعی ذہانت کو فروغ دینے کے لئے کوششوں کو مربوط کرنا ، حدود کا تعین کرنا اور انتھک کام کرنا لازم ہو چکا ہے۔ دوسری جانب ایک ذمہ دار مصنوعی ذہانت کی طاقت کی حیثیت سے چین نے ہمیشہ مصنوعی ذہانت کی حکمرانی کو بہت اہمیت دی ہے۔ چین نے ہمیشہ ترقی اور سلامتی پر یکساں زور دیا ہے ، اور مصنوعی ذہانت سے متعلق قانونی ، اخلاقی اور معاشرتی مسائل پر تحقیق کو مسلسل مضبوط کر رہا ہے۔دانشمندی، اشتراکیت اور باٹم لائن پر عمل درآمد کے اصولوں کی رہنمائی میں ، چین آہستہ آہستہ متعلقہ قوانین، ضوابط اور ادارہ جاتی نظام کو قائم اور بہتر بنا رہا ہے تاکہ مصنوعی ذہانت کی صحت مند، منظم اور محفوظ ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔چین کا مقصد مصنوعی ذہانت کی عالمی ترقی کے لئے مضبوط حمایت فراہم کرنا اور مثبت توانائی داخل کرنا ہے۔اس تناظر میں مصنوعی ذہانت کی گورننس کے لیے گلوبل انیشی ایٹو واضح طور پر مصنوعی ذہانت کی ترقی، سلامتی اور گورننس سے متعلق چین کی تجاویز کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ یہ ایک منظم نقطہ نظر اختیار کرتا ہے جو ترقی اور سلامتی دونوں پر زور دیتا ہے، مصنوعی ذہانت کی ترقی میں لوگوں پر مرکوز نقطہ نظر کو برقرار رکھتا ہے، مفاد عامہ کے تحت مصنوعی ذہانت کی ترقی کے اصول پر عمل کرتا ہے، اور مصنوعی ذہانت کی ترقی میں باہمی احترام، مساوات اور باہمی فائدے کے اصولوں کو برقرار رکھتا ہے. یہ اقدام نظریاتی لکیریں کھینچنے یا دوسرے ممالک کو مصنوعی ذہانت کی ترقی سے روکنے کے لئے مخصوص گروہ بندی کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوششوں کا مطالبہ کرتا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے تمام ممالک مستفید ہوں اور مصنوعی ذہانت کی ترقی انسانی تہذیب کے لئے فائدہ مند ہو۔اس گلوبل انیشی ایٹو میں سیکورٹی، کنٹرول، رازداری کے تحفظ، شفافیت اور عدم امتیاز کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت کی سلامتی کے بارے میں تمام جماعتوں کے بنیادی خدشات کی عکاسی کرتا ہے اور مشترکہ حکمرانی اور ذہین حکمرانی جیسے مخصوص اہداف اور اقدامات تجویز کرتا ہے۔یہ اقدامات نہ صرف تکنیکی ترقی کی ضروریات کے مطابق ہیں بلکہ ممکنہ سیکیورٹی خطرات کو روکنے اور حل کرنے میں بھی مددگار ہیں۔ اس اقدام کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی واقعی عالمی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے اور بنی نوع انسان کی بہتر زندگی کو بااختیار بناتی ہے۔ساتھ ساتھ یہ اقدام عالمی مصنوعی ذہانت کی حکمرانی میں ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی اور آواز کو بڑھانے اور مصنوعی ذہانت کی ترقی اور حکمرانی میں تمام ممالک کے لئے مساوی حقوق، مساوی مواقع اور مساوی قوانین کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ بین الاقوامی تعاون بڑھانے اور انہیں مدد فراہم کرنے کی کوشش کی جائے، اور ممالک کے مابین پالیسیوں اور طریقوں میں اختلافات کا مکمل احترام کرتے ہوئے وسیع اتفاق رائے کی بنیاد پر مصنوعی ذہانت کا گورننس فریم ورک ، اصول اور معیارات تشکیل دیے جائیں۔ اس اقدام کی صورت میں چین نے ترقی پذیر ممالک کی جانب سے ایک مضبوط آواز کی نمائندگی کی ہے اور عالمی گورننس کو بہتر بنانے میں ایک ذمہ دار بڑے ملک کے طور پر چین کے کردار کو اجاگر کیا ہے۔یہ اقدام مصنوعی ذہانت کی ترقی اور گورننس کے وسیع پیمانے پر متعلقہ مسائل کا تعمیری حل فراہم کرتا ہے ، جو متعلقہ بین الاقوامی تبادلہ خیال اور قواعد سازی کے لئے ایک خاکہ فراہم کرتا ہے۔ یہ چین کی جانب سے انسانیت کے مشترکہ مستقبل کی حامل ایک کمیونٹی کی تعمیر میں حصہ ڈالنے اور گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کو نافذ کرنے کے لئے اٹھایا گیا ایک اور اقدام ہے۔یہ اقدام مصنوعی ذہانت کی حکمرانی میں چین کے پختہ تجربے کی عکاسی کرتا ہے، جو ایک بڑی طاقت کے طور پر چین کی کھلی ذہنیت اور مخلصانہ پن کو ظاہر کرتا ہے۔وسیع تناظر میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ عالمی مصنوعی ذہانت کی گورننس کے ایک اہم موڑ پر، چین کا مجوزہ اقدام مؤثر طریقے سے بات چیت اور تعاون کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرے گا، اور کھلا، منصفانہ اور موثر انتظامی میکانزم تشکیل دے گا، تاکہ انسانیت کے بہترین مفاد میں مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز کو فروغ دیا جاسکے۔
|