پاکستان کا دیرینہ اسلامی ملک ترکی بھی گزشتہ 21 برس قبل اس ہی طرز کی سیاسی صورتحال سے نمبرو آزما رہا تھا . اس وقت کے ترکی کے حالیہ صدر اردوان اور ان کی جماعت بھی اُس وقت کی اسٹیبلیشمنٹ اور حزب اختلاف سے بالکل کٹ گئے تھے. مگر ان کی جماعت کو الیکشن سے باہر نہیں کیا گیا کہ وہ عوام میں جایں اور ان کی جماعت الیکشن میں اپنا کردار ادا کرسکیں . دوران الیکشن اردوان نے ہی عبداللہ گل کو صدارتی منصب پر منتخب کروایا اور خود وزیراعظم بن کر ترکی کی عوام کی خواہشوں کو عملی جامہ بنانے کے لیے کئی کڑوے گھونٹ پی کر اپنے سیاسی اور عوامی سفر پر سر بستہ رہے. مگر کسی بھی حزب اختلاف و اسٹیبلیشمنٹ سے ناطہ نہ توڑا اور نہ ہی سنگین اختلاف کیے اردوان اور ان کی جماعت نے پھر 2023 کے الیکشن میں میدان مار لیا آج پھر وہ ترکیہ کے صدارتی منصب ہر فائز ہیں . صدارتی منصب کا حلف اُٹھایا اور بعد میں اسمبلی سے ہی تمام غیر آئینی شقوں کا خاتمہ کروایا. یہاں ترکیہ کی مثال کا مقصد دینا اس لیے ضروری سمجھا کہ اس وقت تحریک انصاف پاکستان میں سیاسی دوستوں کے بغیر ایک قدم بھی الیکشن میں کارواں سفر میں شامل نہیں ہوسکتی پاکستان کیا دنیا کہ ہر جمہوری مُلک میں آج کے دوست کل کے دشمن شریک اقتدار رہے ہیں . سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ شدید مشکلات کی شکار تحریک انصاف کو غیر سیاسی ہتھکنڈوں و ماورائے عدالتی احکامات و قانون کو اسمبلی سے واضع اکثریت سے ختم کراکر جمہوریت کی خدمت تو نہیں کی مگر پاکستان کے جمہوری کلچر کو بہت بڑا نقصان پہنچ گیا ہے جس کا ازالہ پُر کرنے میں کافی عرصہ لگ سکتا ہے . پاکستان کی سابقہ حکمراں اتحاد پی ڈی ایم کی حکمت عملی زیادہ تر یہ ہی نظر آرہی تھی کہ بس عمران کے ساتھ ساتھ اس کی جماعت کو بھی الیکشن کے میدان سے باہر کیا جائے. اگر پاکستانی سیاست اور پاکستانی جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی پر پابندی لگا کر عمران خان کو نا اہل کرنا آسان تو ہے مگر یہ مُلک اب اس طرح کی سیاسی اکثریت کو باہر کرنے سے وہ نتیجہ حاصل نہیں کرسکتا جو کسی ایسے ممکنہ فیصلے کے زیادہ دیر تک برقرار رہنے کا امکانات بہت کم ہیں۔ جبکہ پی ڈی ایم عدم اعتماد کے بعد عوام سے جو وعدے کرکے آئے تھے کہ ملک کو سیاسی ، معاشی ، و خارجی و داخلی سطح پر وہ مقام دلاینگے جو پی ٹی آئی کے دوران حکمرانی میں نہ ہی عوام کو اور نہ مُلک کو پی ٹی آئی نے دیا جبکہ پی ڈی ایم نے اپنے دورحکمرانی سفر میں سوائے اپنے لیڈران اور عہدیداران کے عدالتی کیس کو یک وجنبیش قلم اسمبلیوں سے ختم کروائے اور اپنے سیاسی مفادات کو کو مختلف طریقوں سے تحفظ کا راستہ دیتا بنا. پی ڈی ایم کے دوران حکومت میں مُلک میں معاشی و سیاسی بحران کا پیش خیمہ کا باعث بنا اور اس کو حل کرنے پی ڈی ایم بری طرح ناکامی کا شکار رہا. جس کا وزن اب نگراں حکومت برداشت کررہی ہے. اور اپنے محدود وسائل و اختیارات کے باوجود مُلک کی صورتحال کو ٹریک پر لانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے. اس وقت اگر عمران ہر نااہلیت لگتی ہے تو عمران کو ختم نہیں کیا جا سکتا البتہ اگر عمران خان نے اپنی غلطیوں سے کچھ نہ سیکھا تو ان کی مشکلات میں کمی کے بجائے صرف اضافہ ہی ہو سکتا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں مستقبل قریب میں بہتری آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا لیکن کچھ وقت گزر جانے کے بعد دونوں طرف حالات ضرور بدل سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی جماعت پر پابندی لگا کر اس جماعت کے چیرمین کو نا اہل کرنا اتنا آسان نہیں ہے اور کسی ایسے ممکنہ فیصلے کے زیادہ دیر تک برقرار رہنے کا امکانات بہت کم نظر آتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نو مئی کو سرکاری اور ملٹری املاک پر ہونے والے حملوں کے بعد اس جماعت کی مُشکلات میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے ، اس کی اکثریت مرکزی قیادت زیر حراست ہے اورکئی عہدیداران رہنما پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ۰ پی ٹی آئی کے ترجمان کے مطابق صرف پنجاب میں پی ٹی آئی کے ورکروں پر سیکڑوں کی تعداد سے زائد مقدمات قائم ہو چکے ہیں پی ٹی آئی کے ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۰. اس وقت پی ٹی آئی کا مستقبل خود عمران خان کے ہاتھوں میں ہے اگر انہوں نے اپنی حکمت عملی درست کرلی تو پھر یہ پارٹی پاکستانی سیاست میں کوئی کردار ادا کر سکے گی وگرنہ ان کی مشکلات میں اضافہ ہی بڑھ سکتا ہے۔ پی ٹی آئی اس وقت ایک مشکل دور سے تو گزر رہی ہے لیکن اسے اب بھی مختلف پرائیوٹ نجی چینلز کے کیے گئے سروے کی رپورٹ کے مُطابق عوام کی کثیر تعداد میں سپورٹ حاصل ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس بحران سے نکل آئے گی لیکن اگر یہ بحران بڑھتا چلا گیا اور اصلاح احوال کی کوششیں کام نہ کر سکیں تو پھر اس کے نتائج پارٹی کے لیے بہت ہی برے ہو سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو عدالتی کارائیوں پر ایک لمبی قانونی جنگ لڑنا پڑئیگی ۔ اس وقت اگر پی ٹی آئی کے خلاف اقدامات میں بہت تیزی آ گئی تو پھر پاکستان میں سیاست و جمہوریت کمزور اور برائے نام رہے گی اور اس کے اثرات پی ٹی آئی کے علاوئ دوسری سیاسی جماعتوں پر بھی ہوں گے اور وہ بھی کمزور کی طرف اپنا سفر جاری رکھیں گی. اگر مقدمے اور گرفتاریاں قانون کے دائرے میں ہوں تو عدالتوں سے ریلیف تو مل ہی جاتا ہے دیر سویر تو یہ سیاسی مقدمات میں معمول کی بات ہے. 9 مئی والے واقعات پر پی ٹی آئی کے کئی اہم لوگ پی ٹی آئی چھوڑ کر جاچکے ہیں اور کئی جا رہے ہیں۔''اگر پی ٹی آئی کو پاکستانی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا ہے تو اسے نو مئی جیسے واقعات سے دور رہنا ہوگا۔ پی ٹی آئی پر کٹھن حالت کو پورے ایک سال ہونے کو ہے اس کے بیشتر رہنما اور کارکن ثابت قدم رہے ہیں۔ عدالتوں کی طرف سے ریلیف ملنا جہاں مقدمات کی ساکھ پر سوال اٹھا رہا ہے وہاں اس میں پی ٹی آئی کے کارکنوں اور لیڈروں کے لئے بھی امید کی کرن ہے۔ ''ایسی صورتحال میں سیاسی جماعتیں کمزور نہیں مضبوط ہی ہوتی ہیں۔ مگر جمہوری کلچرز میں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت جانچنے کا ایک اچھا پیمانہ تو الیکشنز ہی ہوتے ہیں اور اگر پی ٹی آئی کی مخالف جماعتیں اب بھی الیکشن سے راہ فرار کا سوچے بیٹھی ہیں تو پھر اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت کس مقام پر اور کہاں کھڑی ہے۔ مقبولیت کوئی ہمیشہ کے لیے نہیں یہ واقعات کے ساتھ ان میں کمی اور بڑھتی رہتی ہے۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کو اپنی مقبولیت کو آزمائش میں ڈالنے کی بجائے اپنی توانائیاں بہتر جمہوری اقدار و کلچر کی طرف لیکر جانا چاہیے اس ہی میں ان کی جماعتوں اور لیڈران کی طاقت ہے. آج کل میڈیا پر بیٹھ کر مقبولیت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، میڈیا میں آج کل انڈین طرز کی طوفان بدتمیزی کا مقابلہ ایک سے ایک بھڑ کر چینل دوڑ میں لگا ہوا ہے. تجزیہ و تبصرہ کی راگنی تو ایک طرف رکھ کر سوائے ایک دوسرے کی عزت کا جنازہ نکالنے کو کوئی موقع اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے. اینکرز و چینل مالکان اپنی چینل کی ریٹینگ کے چکر میں اپنی اخلاقیات، تہذیب ، مساوات ، حقوق العباد، میانہ روی ، احترام وغیرہ کو ایک طرف دھکیل کر جس طرح کا اپنے پرائم ٹائم پروگرامز میں جو اکھاڑے لگارکھے ہیں اس میں سوائے فضولانہ تبصرہ و ایک دوسرے سے دھینگا مشی سے اپنے ناظرین کی اکثریت سے آئے دن محروم ہوتا جارہا ہے. الیکشن کمیشن نے تاریخ دیکر اس ملک پر احسان کیا کاش یہ چیف جسٹس کے حکم کے بجائے اگر الیکشن کمیشن خود 90 دن میں الیکشن کی تاریخ دیکر اس ملک اور قوم پر احسان کرتا تو ملک کی سیاسی تاریخ ہی کچھ اور ہوتی کیونکہ الیکشن تو ملک میں بہرحال ہونے ہی ہیں ۔ انہیں زیادہ دیر تک روکا نہیں جا سکتا۔ اگر پی ٹی آئی کے چیرمین عمران خان اسمبلیوں سے نکلنے کی بجائے جمہوری عمل کا حصہ رہتے ہوئے کوشش کرتے تو الیکشن کے معاملے پر بھی اچھی پیش رفت ممکن ہو سکتی تھی. اس وقت ہر کوئی یہ ہی اندازہ لگائے بیٹھا ہے کہ موجودہ نگراں حکومت الیکشن کروانے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں دیکھا پارہی رہی ہے، ہو سکتا ہے کہ انتخابات فوری طور پر نہ ہوں لیکن زیادہ دیر تک الیکشن کا نہ ہونا ہی ملک کے مسائل میں اضافے کا باعث بنے گا۔ 28 فروری 2024 میں الیکشن نہ ہونے کا مطلب یہ ہی لیا جائے گا کہ حکومتی پارٹیاں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے سے خوف نیں مبتلا بیٹھی ہیں. کونکہ ہمارے مُلک پاکستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ عمران خان کو نا اہل کرنا مشکل ہو گا ایک تو ان کے پاس اپیل کا حق ہوگا. اگر کسی غیر قانونی طریقے سے عمران خان کو نا اہل کر بھی دیا گیا تو لوگ اس نا اہلی کو نہیں مانیں گے۔ حزب اختلاف کی خواہش تو ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگا کر عمران خان کو نا اہل قرار دے دیا جائے لیکن پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ عوامی مقبولیت رکھنے والی سیاسی قوتوں کا غیر سیاسی انداز میں راستہ روکنے کی کوششیں عموماﹰ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی ہیں۔ عمران کی نا اہلی کا فیصلہ تو عدالتوں نے کرنا ہے، ''ان کے خلاف ریفرنسز بھی موجود ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے کتنا لڑ سکتے ہیں۔ ان کی کامیابی کا انحصار ان کی درست حکمت عملی پر ہوگا وگرنہ ان کے لئے بہت مشکلات ہوں گی۔ سیاست میں عام طور پر دروازے بند نہیں کیے جاتے، حالات کے مطابق حکمت عملی تبدیل بھی کی جا سکتی ہے ۔ ''جو حالات آج ہیں ضروری نہیں کہ کل بھی ایسے ہی ہوں۔ توقع کرنی چاہیے کہ ملک میں امن و سکون ہوگا وگرنہ اگر لڑائی اسی طرح بڑھتی رہی تو پھر یہ نہیں سوچنا ہو گا کہ کیا پی ٹی آئی بچے گی کہ نہیں بلکہ یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ملک میں سیاست بچے گی کہ نہیں۔
|