حرا کو دیر ہو رہی تھی اسے آفس جلدی پہنچنا تھا ویسے ہی ذرا ذرا
سی غلطیوں پر اسٹاف کو نکالا جا رہا تھا وہ گھر کی واحد کفیل تھی ۔ اس کی عمر ابھی
صرف 23سال تھی لیکن بیوہ ماں اور ایک چھوٹی بہن کے خیال نے اسے بہت جلد ذمہ دار بنا
دیا تھا ۔ بڑی مشکلوں سے ایک فیکٹری میں نوکری لگی تھی وہ کسی قسم کا رسک نہیں لینا
چاہتی تھی۔ امی کے لاکھ آوازیں دینے کے باوجود وہ ناشتہ کئے بغیر گھر سے نکل گئی۔
اس کے لئے سڑک کراس کرنا سب سے مشکل کام تھا ان مصروف شاہراہوں پر پیدل چلنے والوں
کا کو ئی حق ہی نہیں تھا، اس نے ہمت کر کہ جیسے ہی روڈ کراس کرنے کی کوشش کی ابھی
وہ سڑک کے درمیان ہی پہنچی تھی کہ ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے زور دارہٹ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ
کوئی ایک حادثہ نہیں ہے آئے دن اس قسم کی خبریں ہم پڑھتے رہتے ہیں ہمارے لئے یہ محض
ایک خبر ہے لیکن جس پر گزرے اس کے لئے تو کسی قیامت سے کم نہیں ۔۔۔۔ حکومتی رپورٹ
کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ منٹ پرایک ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے جس میں کوئی نہ
کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہو جاتا ہے۔
جدید آمدو رفت کے ذرائع ہماری نقل وحمل کے لئے بہت آسانیاں پیدا کر رہے ہیں جہاں
ذمانہ قدیم میں دنوں میں سفر مکمل ہوتا تھا اب وہ گھنٹوں میں طے کر لیا جاتا ہے۔ایک
اندازے کے مطابق پاکستان میں 2030 تک گاڑیوں کی تعداد 18 لاکھ تک پہنچ جانے کا
امکان ہے اور ظاہر ہے گاڑیاں چلنے کے لئے سڑکیں تیزی سے تعمیر کی جا رہی ہیں۔ ساری
دنیا میں تعمیر کے کچھ اصول ہوتے ہیں لیکن لگتا ہے پاکستان میں سڑکوں کی تعمیر کے
وقت پیدل چلنے والوں کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔آئیے روڈ حادثے کے چند
بنیادی عوامل پر غور کرتے ہیں۔
کراچی اور لاہور کی طرح اسلام آباد بھی اب تیزی سے کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہو رہا
ہے، جس میں بلند فلک بوس عمارتیں اور سڑکوں کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورک زمین کی قدرتی
خوبصورتی پر حاوی ہیں۔ تاہم اس شہری ارتقاء کے درمیان ایک اہم تشویش سر اٹھا رہی ہے
کہ کیا ان ساری تبدیلیوں میں پیدل چلنے والوں کے لیے بھی کوئی منصوبہ بندی کی گئی
ہے ؟ بالکل بھی نہیں ۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ شہر کی ترقی پیدل چلنے والوں پر گاڑیوں
کو ترجیح دیتی ہے، جس سے شہری منصوبہ بندی کی حکمت عملی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ چونکہ
اسلام آباد ایک پر رونق شہر میں تبدیل ہو رہا ہے تو یہاں بہت سی چیزیں قابل توجہ
ہیں ۔
شہر کی جدید تعمیرات کی وجہ سے یہاں پیدل چلنے والوں کو بہت سےچیلنجوں کا سامنا ہے
۔سڑکوں کو گاڑیوں کے لیے سگنل فری بنانے پر پیدل چلنے والوں کے لئے ایک بڑا مسلہ یہ
ہے کہ وہ محفوظ راستے کی تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔
پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے انہیں تیز رفتار گاڑیوں
کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پیدل چلنے والوں ، خاص طور پر بزرگ، معذور اور اسکول کے
بچوں کے لیے خطرناک ہے ۔جبکہ شہر کی منصوبہ بندی کے لیے ایسے جامع طریقہ کار کو
مدنظر رکھنا چاہئے جو تمام شہریوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہو، مزید برآں پاکستان
کے بڑے شہروں میں 84 فیصد سڑکیں ایسی ہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ، پل اور فٹ پاتھ سرے
سے موجود ہی نہیں ہے۔ سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے پیدل چلنے والے اپنی جان کو خطرے
میں ڈال کر سڑک پار کرتے ہیں۔
سڑک عبور کرنے والے لوگوں کی حفاظت کے لیے زیبرا کراسنگ پر پیدل چلنے والوں کے
اشارے ضروری ہوتے ہیں۔ واک ایبلٹی ایشیا کے مطابق، اسلام آباد میں 36 فیصد لوگ پیدل
سفر کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس شہر میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں، یہ کافی بڑی
تعداد ہے۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ اسلام آباد میں چلنا پسند کرتے ہیں، ٹریفک سگنل اکثر
گاڑیوں کے بہاؤ کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ پیدل چلنے والوں کے لئے کوئی انتظامات نہیں
ہیں ۔
اسلام آباد میں H-8 سیکٹر ایک مصروف اسکول زون ہے جہاں ایک 4 طرفہ چوراہے پر سڑکیں
عبور کرنے والے اور پیدل چلنے والے روزانہ خطرات سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ اول تو
وہاں پیدل چلنے والوں کے لئے کوئی واک سگنل نہیں ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے
کہ سڑک کب پار کرنی ہے۔ دوئم یہ کہ سرخ بتی بائیں جانب مڑنے والی گاڑیوں کو نہیں
روکتی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس چوراہے کو عبور کرنا کسی طرح محفوظ نہیں ہے وہاں گاڑیوں کی
آمدورفت کا بہاؤ عمیں طور پر کبھی نہیں رکتا ہے۔ اس سیکٹر میں اسکول کے بچے صبح کی
اسمبلی میں وقت پر پہنچنے کے لیے سڑک پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بڑی مشکلوں سے
اپنے مشن میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ اگر وہاں پیدل چلنے والوں کا اشارہ نصب کر دیا جائے
توانہیں روزانہ کے اس مشکل مرحلے سے نہیں گزرنا پڑے گا ۔دوسرے ممالک میں تو اسکول
زون کی سڑکیں ہرے رنگ کی ہوتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ اسکول کا علاقہ ہے اور
گاڑیوں کو وہاں محتاط رہنا ہو گا اور اسکول کے اوقات میں طالب علموں کا سڑکوں پر
پہلا حق ہے۔
شہری منصوبہ بندی میں فٹ پاتھ بنانے کو ترجیح دینی چاہیے، اور فٹ پاتھ تک آسان
رسائی کو یقینی بنانا چاہئے ۔ مزید برآں، پیدل چلنے والوں کے لیے دوستانہ
انفراسٹرکچر، جیسے زیبرا کراسنگ، اوور ہیڈ برجز، اور انڈر پاسز کو شامل کرنا چاہئے
جو پیدل چلنے والوں کی حفاظت کے لئے ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ سگنل فری ایکسپریس ویز
پر میٹرو پلوں کو سڑکوں سے جوڑنا پیدل کراس کرنے والوں کے لئے محفوظ کراسنگ پوائنٹس
ہو سکتے ہیں ۔ ان تجاویز کے زریعےعام لوگوں کی ضروریات کو بہترطریقے سے پورا کیا
جاسکتا ہے۔
پاکستان کے برعکس ترقی یافتہ ممالک نے انسان دوست شہری منصوبہ بندی کا مظاہرہ کیا
ہے۔ ان ممالک کے شہر پیدل چلنے والوں کو گاڑیوں پر ترجیح دیتے ہیں، وہ یہ تسلیم
کرتے ہیں کہ یہ لوگ ہی ہیں جو شہری زندگی کو رونق بخشتے ہیں۔ ایسے شہروں میں پیدل
چلنے والے لوگ ،بہترین بنائے گئے سرسبز و شاداب راستوں اور محفوظ کراسنگ پوائنٹس سے
لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ٹوکیو میں Ginza کی ایک مصروف سڑک اتوار کو ٹریفک کے لیے بند
رہتی ہے جہاں پیدل چلنے والے آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں اور اس ماحول کو بھر
پورانجوائے کرتے ہیں ۔ یہ شہری منصوبہ بندی میں پیدل چلنے والوں کے حق کی ایک
بہترین مثال ہے۔
ہم ترقی یافتہ ممالک میں دیکھتے ہیں کہ ایک شہر کی حقیقی قوت اس میں بسنے والے
لوگوں کی حفاظت اور سہولت پر مرکوز ہوتی ہے، پاکستان میں اس طرح کی منصوبہ بندی کا
شدید فقدان ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ پیدل چلنے والوں کو ترجیح دینے والے جامع شہری
منصوبہ بندی کے ماڈلز کو اپنا کر، نہ صرف اپنے شہریوں کی حفاظت اور سہولت کو یقینی
بنا ئیں ، بلکہ ایک بہترین شہری ماحول بھی تشکیل دیں۔
حکومت کو چاہیے کہ روڈ سیفٹی کوترجیح دیتے ہوئے ایک ایسا ادارہ بنائے جو صرف روڈ
سیفٹی کے لئے کام کرے انھیں باقاعدہ وسائل فراہم کئے جائیں ۔ اس کے علاوہ سڑکوں کے
انفرااسٹرکچر کےلیے بہترین سول انجینئر لائے جانے چاہئیں۔ کسی بھی ملک کا نظام
شہریوں کے تعاون کے بغیر چلنا ناممکن ہے، اس لیے عوام کی جانب سے حکومت کو زور دینے
کی ضرورت ہے کہ وہ محفوظ سڑکیں بنائے اور سڑکوں پر تحفظ کے معیار کو یقینی بنائے۔
|