آزاد کشمیر جو بنیادی طور پر
آزادی کشمیر کا بیس کیمپ قرار پایا تھا۔70کی دہائی میں حق رائے دہی ملنے کی
وجہ سے سیاسی جماعتیں بشمول مسلم کانفرنس ( جو کہ آزاد کشمیر کی سوادِ اعظم
جماعت تھی) اقتدار پر قابض ہو گئیں اور اپنے اصل مقصد ( یعنی آزادی کشمیر)
سے کوسوں دور چلی گئیں۔26جون 2011ءکو ہونے والے ریاستی انتخابات میں کچھ
نیشنلسٹ دھڑوں سمیت کہیں چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی حصہ لیا ۔نتیجے
میں پاکستان پیپلز پارٹی( جسے مرکز کی بعض مقتدر قوتوں کی آشیر باد حاصل
تھی) نے واضح اکثریت حاصل کی اور حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔جبکہ برسر
اقتدار جماعت مسلم کانفرنس کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان مسلم
لیگ (ن) اگرچہ آزاد کشمیر میں تکمیل کے مراحل میں تھی مگر اس نے دوسری
جماعتوں کیلئے انتخابات میں میدان کھلا نہ چھوڑا اور پاکستان مسلم لیگ(ن)
آزاد جموں و کشمیر کے چیف آرگنائزر راجہ محمد فاروق حیدر خان اور کہنہ مشق
سیاستدان سردار سکندر حیات خان کی شبانہ روز کوششوں سے اس نومولود جماعت
میں جان پڑتی گئی اور عام انتخابات میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر اپنا آپ
منوانے میں کامیاب ہو گئی ۔مو جودہ انتخابات پر بھی حسبِ سابق دھاندلی ،جھرلو
اور ٹھپے کے الزامات عائد کیے گئے اور بہت سے حلقوں کے انتخابی نتائج کو
پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد جموں وکشمیر کے قائدین نے عدالت میں چیلنج بھی
کر رکھا ہے جن کا فیصلہ تاحال آنا باقی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اگرچہ حکومت بنانے میں تو کامیاب ہو گئی مگر اس کو
برقرار رکھنے میں اسے بہت سی دشواریوں کا سامنا ہے اس کی واضح مثالیں
عباسپور کے حلقہ ایل اے17-سے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار چوہدری محمد
یٰسین گلشن کی کامیابی اور22ستمبرکومظفر آباد شہر میں ہونے والے انتخاب میں
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار بیرسٹر افتخار گیلانی کی کامیابی ہے۔
حالانکہ ان دونوں نشستوں کے انتخابات کے دوران تمام تر انتظامی مشنری اور
مرکز میں بیٹھی مقتدر قوتوں کی کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
ان انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان سابق متحرک وزیر اعظم سردار عتیق احمد
خان کی جماعت مسلم کانفرنس کو ہوا جس کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور
مجبوراً سردار عتیق احمد خان نظریاتی طور پر کوسوں دُور پیپلز پارٹی کی
اپنے صاحبزادے کو الیکشن جتوانے کی خاطر حمایت حاصل کرنے پر مجبور ہوئے مگر
ما سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی مندرجہ بالا
دو کامیابیوں سے سیاسی مبصرین یہ اندازہ لگانے میں حق بجانب ہیں کہ آئندہ
کشمیر کی سیاست میں پاکستان مسلم لیگ(ن)آزاد جموں و کشمیراوراسکے چیف
آرگنائزر راجہ محمد فاروق حیدر خان کا اہم رول ہوگا چونکہ ان کے دامن پر
حکومت چھوڑنے کے بعد بھی کوئی بدنما داغ نہیں۔ جبکہ سابق وزیر اعظم سردار
سکندر حیات خان اور اسی جماعت کے مرکزی رہنما شاہ غلام قادر صاحب کے مفید
مشورے اور دن رات کی کاوشیں ان مندرجہ بالا دو کامیابیوں کا واضح ثبوت ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ان دو کامیابیوں کے بعدپاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد
جموں و کشمیر کی طرف سے پیپلز پارٹی پر لگائے جانے والے دھاندلی کے الزامات
کومزید تقویت ملنا شروع ہو گئی ہے جسکی وجہ سے گذشتہ عام انتخابات میں
پیپلز پارٹی کو حاصل ہونے والی کامیابی بھی مشکوک ہوتی جا رہی ہے آزاد
کشمیر کی عوام بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوتی جا رہی ہے کہ یقینا ” دال میں
کچھ توکالا “ ہے ۔ سیاسی مبصرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز
پارٹی اور مسلم کانفرنس کے نظر انداز کیے ہوئے بڑے رہنما بھی آئندہ اسی
جماعت میں پناہ لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
بقول شخصے: ابھی تو آغاز ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ |